عالم آب و گل میں بیوی خاوند کا رشتہ واحد ایسا رشتہ ہے
جو انسان اپنی مرضی سے بناتا ہے باقی رشتوں پر انسان کا اختیار نہیں کہ وہ
اپنی مرضی سے کسی کا باپ بیٹا بھائی نہیں بن سکتا ۔ اس رشتے میں پنہاں محبت،
اپنائیت ، ایثار اور شناسائی سمندر سے گہری اور کائینات سے وسیع ہے مگر اس
گہرائی ا ور وسعت کے مفہوم و معانی سے وہی لوگ واقف ہو سکتے ہیں جنکے قلب و
زہن کی گہرائیوں میں عورت ماں ، بہن اور بیٹی کے روپ میں عقیدت و احترام کی
انتہاوئں پر بیٹھی ہوئی موجود ہو ۔عورت کو جنسی ہوس کی تسکین کا کھلونا
سمجھنے والے اس رشتے کی تقدیس و تحریم سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے کی انکی
رگوں میں ناچتی شہوت و ہوس انکے بنجر زہنوں کو اتنا آلودہ کر دیتی ہیں کہ
جنسی شہوت کی تسکین کے ایک کھلونے کے سوا عورت کا ہر روپ اور ااس سے وابستہ
عقیدت انکے زہنوں سے اس انداز سے رخصت ہو جاتے ہیں کہ جنسی شہوت کی تسکیں
کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد تک کو ان بے بیاہی ماوٗں کی گودمیں
پھینک کر باولے جانور کی مانند اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔ دوسری
جانب انسانی رشتوں کی عظمتوں اور تقدس سے آشنا مرد و زن نکاح کے پھولوں سے
زیادہ نازک اور چٹانوں سے زیادہ مضبوط مقدس بندھن میں بندھنے کے بعد ایثار
و قربانی کی ایسی مثالیں بن جاتے ہیں کہ انسان کو اپنی مسلمانیت پر فخر
محسوس ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ااحترام اور عقیدت کی جن بلندیوں پہ
بٹھایا ہے مغرب کی صدیوں سے جنسی ہوس و استحصال کا شکار عورت کے گمان میں
بھی نہیں آسکتا ۔ 12اکتوبر 1999کو میاں نواز شریف کی آئینی حکومت کو فضائی
حملے میں کرنے کے بعد انہھیں وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اٹھا کر جیل میں ڈال
دیا گیا اور متعدد فعال رہنماؤں کو بھی انکی عوامی مقبولیت کے جرم میں
پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ اس ابتلا کے دور میں بیگم کلثوم نواز جنکا عملی
سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا میدان میں نکلیں جنکے کے چہرے پر ایک ایسا عجیب
و غریب کرب و اضطراب نمایاں تھا جو انسانی رشتوں کی عظمتوں سے آشنا وفا
شعار بیویوں کے چہروں پر ہی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ ہر چیز کو پس پشت ڈال
کر اپنے مجازی خدا کی خیر و سلامتی کے لیے ملک کی سڑکوں پر ایسے عزم و
استقلال کے ساتھ نکلیں کہ زمینی خداوئں کی صنف نازک کو ہراساں کرنے اور خوف
میں مبتلا کر کے گھر واپس بھیجنے کی ہر چال الٹی ہوتی گئی ۔ مجھے اچھی طرح
یاد ہے اسی جدوجہد کے دوران ایک بار انکی گاڑی کو جب وہ اس میں سوار تھیں
لفٹڑ سے اٹھا کر فضا میں اتنا بلند کر دیا گیا کہ دیکھنے والوں کی چیکٰں
نکل گئیں مگر ان کے پایہ ء استقامت میں کوئی لغزش آئی، ہمت ہاری نہ ہی اپنا
راستہ تبدیل کیا ۔ یہ ایک وفا شعار بیوی کی محبت اور ایثار کی ایک مثال تھی
جو گزشتہ چند دنوں سے میرے زہن ایک بھونجال پربا کیے ہوئے ہے ۔ وہی بیگم
کلثوم آجکل وفا شعاری اور ایثار کے لازوال جزبوں کو سینے میں سموئے عالم
ناپائدار سے رخصتی کے آخری لمحات میں داخل ہو چکی ہے کہ انکی زندگی کی
ٹمٹماتی شمع کی تھرتھراتی لو کسی بھی لمحے بجھنے والی ہے مگر خاوند اور
بیٹی کی کڑی آزمائش کی شدت اور بے بسی کا اندازہ کیجیے کہ ایسے لمحاتمیں
جہاں انسان اپنے آپ تک کو بھول جاتا ہے نواز شریف اپنی دم توڑتی شریکہ ء
حیات اور مریم اپنی ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر قانون کی بالا دستی کے
سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے زندان کی کال
کوٹھری کو اپنا مسکن بنا چکے ہیں ، حالانکہ نواز شریف بھی آسانی سے کمر درد
کا بہانہ کرکے انگلستان کو اپنا مسکن بنا کر یورپ کے قبحہ خانوں میں تھرکتے
جسموں کے ساتھ رقص و سرور کی محفلیں سجا سکتا تھا مگر اس کو احساس ہے کہ جن
لوگوں کی پشت پر عوام کھڑی ہو ان سے وابستہ امیدیں بھی بہت بلند ہوتی ہیں
کہ وہ کسی حال میں بھی موقف پر سودے بازی نہیں کیا کرتے چاھے جان ہی کیوں
نہ چلی جائے ۔زرا سوچیے انسانوں کی زندگیوں میں کیسے کیسے جان گسل اور
اعصاب شکن لمحات آجاتے ہیں کہ دور سے دیکھنے والے بھی چیخ اٹھتے ہیں مگر
قابل داد ہیں وہ لوگ جو ظلم و جبر کی ہر آندھیکے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جاتے
ہیں اور راستہ نہیں بدلتے ۔
حال کو جھوٹ ،سنسنی اور افواہوں کی دھول ڈال کر مسخ تو کیا جا سکتا ہے مگر
حال جب ماضی بن کر وقت کے سینے میں اترتا ہے تو تاریخ کی پیشانی پر چمکتے
سورج کی طرح ایسی سچائی بن کر ابھرتا ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے والوں کی
زبان پر بھی بالآخر وہی بات آجاتی ہے جسے لبوں پر لا کر مظلوم اپنی زبانیں
کٹوا چکے ہوتے ہیں ۔ ایٹمی پروگرام کے خالق بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے والے
"مرد مومن مرد حق "نے بھی یہ" نیک کام" ملک سے فحاشی و عریانیت کو ختم کر
کے اسے اسلام کا گہوارہ بنانے ایسے بھانجھ نعرے اور سفید جھوٹ کو شیخ
رشیدوں اور چوہدریوں کے زریعے کوچہ و بازار میں عام کرکے اپنی ہوس اقتدار
کو مذھب کی چادر میں چھپا کر یہ فرض کر لیا تھا کہ قوم اسکے مظالم اور
اقتدار کی خاطر کی گئی چالاکیوں سے کبھی آگاہ نہ ہو سکے گی مگر روز مکافات
کے مالک نے اسے اسکی چالاکیوں اور ہوشیاریوں سمیت ہوامیں تحلیل کرکے انھی
ججوں سے نہ صرف زبانی بلکہ تحریری اقرار بھی کروا دیا کہ ایک آمر کے دباؤ
پر ہم نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی ۔ اس زمانے کے ملک و قوم کی
ہمدردی کے ٹھیکیدار اور اقتدار کے لیے ہر اخلاقی و معاشرتی حد کو پار کر
جانے والے رسہ گیر بھی بھٹو کی پھانسی کو ملک و قوم کی بہتری اور فلاح قرار
دیتے تھے مگر تاریخ کے ماتھے سے جھوٹ و منافقت کی دھول بیٹھتے ہی آج وہ اور
انکی اولادیں بھی اسے عدالتی قتل قرا ر دیتے زرا شرم محسوس نہیں کرتے کہ
نفاق سے بھرے دلوں میں حماقت کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق اور
آئین و قانون کی بالا دستی کا بھاشن دینے والے ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے
، اندھیروں سے نکالنے والے ، ملک کو بد امنی اور لاقانونیت کے عفریت سے
نجات دلانے والے ، مفت دوائیں اور علاج کی سہولیات مہیا کرنے والے ، تین
بار ملک کا وزیر اعظم بننے والے عوام کے سب سے مقبول رہنما کو اتنا حق بھی
دینے کے لیے آمادہ نہیں کہ وہ اپنی دم توڑتی اہلیہ کو بستر مرگ پر الوداع
کہ سکے ، ایک بیٹی کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ پس زنداں جانے سے
پہلے آخری سانسیں لیتی ماں سے آخری بار کچھ کہہ یا سن سکے۔شب برات پر چلائے
جانے والے پٹاخے کی آواز سنکر جنکو جان لیوا دل کا دورہ پڑ جاتا ہے وہ صنف
نازک کو جیل کی کال کوٹھڑی میں مقید دیکھنے کے لیے اسقدر بے چین دکھائی دیے
کہ پیسے کے عوض فتنہ و شر کو سر عام بیچنے والے ضمیر فروشوں کے ساتھ لائیو
پروگراموں میں اسکے بیمار ماں کی آغوش سے نکل کر جیل تک کے سفر پر لمحہ بہ
لمحہ تعصب اور عناد کے زہر میں بجھے تیروں کو الفاظ میں ڈھال کر اپنی اوقات
دکھاتے رہے ۔ ظلم و بربریت کی گھٹن زدہ فضا میں جہاں ملک میں چلائی جانے
والے جعلی سیاسی ہواؤں کا ہر جھونکہ بظاہر نواز شریف اور اسکی بیٹی کے لیے
خوف و وحشت اور تعذیر و سزا کا پیغام لیے گزرتا ہے ان لمحات میں نواز شریف
کی استقامت ، جرات ، اور للکار نے اسے سیاسی و اخلاقی طور پر ایسی بلندیوں
پر بٹھا دیا ہے جسے دیکھنے کے لیے آنے والے پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدانوں
کی پگڑیاں زمیں پر گرتی رہیں گی اور اس کا عزم و استقلال سیاست و تاریخ کے
طالبعلموں کے لیے مشعل راہ جبکہ ہر دور کے آمروں اور انکے پروردہ شیخ
رشیدوں کے لیے للکار بن کر تاریخ کا نصاب بن جائے گا۔
|