سفرجل (عربی لفظ) سیب کی شکل کا ایک پھل ہے جسے اردو میں
بہی، ہندی میں بیل، فارسی میں شُبل، سنسکرت میں وسعت کی دیوی، انگریزی میں
Quince کہتے ہیں ۔ اس پھل کے تعلق سےعمومی طور پر لوگوں میں اور خصوصی
طورپریونانی اطباء میں مختلف قسم کے فوائد مشہور ہیں جن کا یہاں ذکر کیا
جائے گا تاکہ ان کی شرعی حیثیت معلوم ہوسکے ۔ عوام میں ایک بات بہت مشہور
ہے کہ حاملہ عورت اگر اس پھل کو کھائے تو خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ آئیے
سفرجل سے متعلق احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
(1) جابر بن عبداللہ کی حدیث :
كُلوا السَّفَرْجَلَ، فإنَّه يجلِّي عنِ الفؤادِ، و يَذهبُ بِطَخَاءِ الصدرِ
(أخرجه أبو نعيم في الطب النبوي:794)
ترجمہ: سفرجل کھاؤ کیونکہ وہ دلوں کو جلا بخشتا ہے اورسینے سے بوجھ اتار
دیتا ہے۔
حکم:اس کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الجامع؛ 4205)
(2) انس بن مالک کی حدیث :
كُلُوا السَّفَرْجَلَ على الرِّيقِ ؛ فإنه يُذْهِبُ وَغَرَ الصدرِ(أخرجه
أبو نعيم في الطب النبوي:793والديلمي في الفردوس:4712)
ترجمہ: نہار منہ بہی کھایا کروکیونکہ یہ سینے کے غلبہ اور اس کی حرارت کو
دور کرتا ہے ۔
حکم: اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 4099)
مذکورہ صحابی سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں ۔
أكْلُ السّفَرْجَلِ يَذْهَبُ بِطَخاءِ القَلْبِ.
ترجمہ: بہی کھانا دل کے بوجھ کو دور کرتا ہے ۔
حکم : اسے شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:7044)
(3) عوف بن مالک الاشجعی کی حدیث :
كُلوا السَّفرجلَ ، فإنَّهُ يُجمُّ الفؤادَ ، ويُشجِّعُ القلبَ ويحسِّنُ
الوَلدَ(الجامع الصعير)
ترجمہ: بہی کھایا کرو کیونکہ یہ دل کو ٹھیک ،قلب کو مضبوط اور لڑکے کو حسین
بناتا ہے ۔
حکم : اس کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے (ضعيف الجامع:4206)
(4) سعد بن ابی وقاص کی حدیث :
أتاني جبريلُ عليه الصلاةُ والسلامُ بسفرْجلةِ من الجنةِ ؛ فأكلتُها ليلةَ
أُسريَ بي، فعلقتْ خديجةُ بفاطمةَ، فكنت إذا اشتقتُ إلى رائحةِ الجنةِ ؛
شممتُ رقبةَ فاطمةَ۔( أخرجه الحاكم :4738)
ترجمہ: میرے پاس جبریل علیہ السلام جنت سے سفرجل(بہی) لیکر آئے ، اسے میں
نے اسراء کی رات کھایاتو خدیجہ فاطمہ سے بالکل جڑ گئیں یعنی خدیجہ فاطمہ
میں جاگزیں ہوگئیں ، جب بھی مجھے جنت کی خوشبو کی چاہ ہوتی ہو تو فاطمہ کی
گردن کو چو م (سونگھ) لیتا۔
حکم : اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے (السلسلة الضعيفة:5027)
(5) طلحہ بن عبیداللہ کی حدیث :
دخَلتُ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وبيدِهِ سفَرجَلةٌ :
فقالَ : دونَكَها يا طَلحةُ فإنَّها تُجِمُّ الفؤادَ(سنن ابن ماجہ : 3369)
ترجمہ: حضرت طلحہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول اللہﷺکی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ۔آپنے فرمایا:اے طلحہ!یہ
لے لو ‘اس سے دل کو راحت(اورقوت) حاصل ہوتی ہے۔
حکم : اس کی سند کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(ضعيف ابن ماجه:675)
عن طلحة بن عبيد الله قال : دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ،
وفي يده سفرجلة فرماها إلي أو قال : ألقاها إلي ، وقال : " دونكها أبا محمد
، فإنها تجم الفؤاد( المستدرك على الصحيحين:5645)
ترجمہ: حضرت طلحہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول اللہﷺکی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ،آپ نے اسے میری جانب
بڑھایااور فرمایا:اے ابومحمد!یہ لے لو ‘اس سے دل کو راحت(اورقوت) حاصل ہوتی
ہے۔
حکم : اس حدیث کو حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے مگر دوسرے محدثین نے ضعیف
کہا ہے جیساکہ اوپر شیخ البانی کا حکم موجود ہے ، اسی طرح ذہبی نے کہا کہ
اس کی سند میں عبد الرحمن بن حماد الطلحي ہے جس کے متعلق ابوحاتم نے منکر
الحدیث اور ابن حبان وغیرہ نے "لایحتج بہ" اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی کہا
ہے ۔(ميزان الاعتدال:2/557)
(6) عبداللہ بن عمر کی حدیث :
أن النبيَّ صلى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أهدي إليه سفرجلاتٌ من الطائفِ فأعطاهن
معاويةَ وقال تلقاني بها في الجنةِ.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو طائف کا سفرجل ہدیہ کیا
گیا، آپ نے اسے معاویہ کو دیا اور کہا کہ تم اس کے ساتھ مجھے جنت میں ملوگے
۔
حکم : خلیلی نے کہا کہ حفاظ نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے
۔(الإرشاد:1/271 )
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دفع إلى معاويةَ بنِ أبي سفيانَ
سفرجلةً وقال : الْقني بها في الجنَّةِ . قال : فانصرفتُ فلم أعُدْ إليه۔
ترجمہ: عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے معاویہ بن سفیان کو سفرجل
دیا، اور کہا کہ تم اس کے ساتھ مجھ سے جنت میں ملو ، راوی نے کہا کہ میں
واپس چلا گیا پھر لوٹ کر آپ کے پاس نہیں آیا۔
حکم: اسے ابن الجوزی نے موضوع کہا ہے ۔(موضوعات ابن الجوزي:2/261)
أنَّ جعفرَ بنَ أبي طالبٍ أهدَى إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم
سفرجلًا فأعطَى معاويةَ ثلاثَ سفرجلاتٍ وقال : الْقني بهنَّ في الجنَّةِ۔
ترجمہ: : عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جعفر بن ابی طالب نے نبی ﷺ کو
سفرجل ہدیہ کیا ، آپ نے اس میں سے تین عدد معاویہ کو دیا اور کہا کہ تم اس
کے ساتھ مجھ سے جنت میں ملو ۔
حکم : اسے ابن الجوزی نے موضوع کہا ہے ۔(موضوعات ابن الجوزي:2/260 )
(7) عبداللہ بن عباس کی حدیث :
دخلتُ على النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وبيدِه سفرجَلةٌ فقال لي :
دونَكها يا عبَّاسُ فإنَّها تُذكي الفؤادَ( أخرجه ابن حبان في
المجروحين:1/277، وابن عدي في الكامل في الضعفاء:4/123)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:میں رسول
اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں سفرجل(بہی کا پھل)تھا ، آپنے
فرمایا:اے عباس!یہ لے لو ‘یہ دلوں کو پاگیزہ کرتا ہے۔
حکم : ابن عدی نے الکامل اور لسان المیزان میں اور ابن القيسراني نے ذخیرہ
میں منکر کہا ہے ۔(ذخيرة الحفاظ:3/1328)
جاء جابرُ بنُ عبدِ اللهِ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بسفرجلةٍ
قدم بها من الطائفِ فناوله إياها فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إنه
يذهبُ بطخاوةِ الصدرِ ويجلو الفؤادَ(أخرجه الطبراني :11/112، 11209)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جابربن
عبداللہ نبی ﷺ کے پاس آئے ساتھ میں سفرجل(بہی) تھا جو طائف سے لائے تھے ،
پس آ پ نے اسے تناول فرمایا تو نبی ﷺ نے فرمایا: یہ سینے کے بوجھ کو اتارتا
ہے اور دل کی بیماری کو دور کرتا ہے۔
حکم : ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں علي القرشي ہے جسے میں نہیں پہچانتا
ہوں اور بقیہ رجال ثقہ ہیں ۔ ( مجمع الزوائد:5/48)
(8) عبداللہ بن زبیر کی حدیث:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانت في يدِه سفرجلٌ فجاءَ
طلحةُ فقالَ دونَكَها يا أبا محمَّدٍ فإنَّها يُجِمُّ الفؤادَ .(العلل
المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي:رقم الحديث: 1074)
ترجمہ: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے ہاتھ میں
سفرجل(بہی) تھا ، طلحہ آئے تو آپ نے کہا ابومحمد! یہ لے لو ‘اس سے دل کو
راحت(اورقوت) حاصل ہوتی ہے۔
حکم: اس حدیث کو ابن الجوزی نے اپنی اس کتاب میں درج کیا ہے جس میں ضعیف
احادیث کو ذکر کیا ہے یعنی العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ۔
اوپر آٹھ راویوں سے سفرجل کے متعلق متعدد احادیث بیان کی گئیں ، ساتھ ہی ان
کا حکم بھی بتادیا گیا جس سے آسانی کے ساتھ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ
سفرجل(بہی) کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے لہذا ہم سفرجل کے فوائد
بیان کرکے ان کو نبی ﷺ کی طرف منسوب نہ کریں کیونکہ اس سے متعلق ساری
احادیث ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث سے دلیل نہیں پکڑی جاتی ہے ۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ طبی تجربات کی روشنی میں سفرجل کے جو
فوائد ہمیں معلوم ہوتے ہیں ، ہم ان کا انکار نہیں کرتے ، اور فوائد حاصل
ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا بھی منع نہیں ہوگا ۔ منع صرف یہ ہے کہ اس کا
کوئی فائدہ ذکر کرکے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا جائے ۔
مزید ایک بات قابل وضاحت ہے کہ شیعوں کی کتاب میں سفرجل کے بڑے فوائد بیان
کئے گئے ہیں ، ہم میں سے بعض لوگ ان کی کتابوں کی مشہور باتوں کو اپنے
درمیان پھیلاتے ہیں اور اسے حدیث رسول سمجھتے ہیں مثلا سفرجل کھانے سے
چالیس مرد کی قوت پیدا ہوتی ہے ، یہ شیعی کتاب مستدرک الوسائل میں موجود ہے
مگر ہمارے درمیان اس بات کو کافی شہرت حاصل ہے ۔
یہاں ہم یہ بھی جان گئے ہیں کہ حاملہ عورتوں کا سفرجل کھانا ضعیف حدیث میں
مذکور ہے اس لئے ہمیں اس بات کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
|