محمد وقار اسلم
پاکستان میں وجود میں آنے کے بعد وہ کڑا وقت تھا جب پہلے وزیراعظم لیاقت
علی خان نے یہ طے کرنا تھا کہ امریکہ کا دورہ کروں یا روس کا۔ روس کا دورہ
شیڈول ہونے کے بعد منسوخ کر کے لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا۔ یہ
پاک امریکی اتحاد کی شروعات تھی۔ جس کے بعد ایوب خان کی دورِ حکومت میں
پاکستان کو بے مثال پذیرائی ملی جو جنرل ضیاء کے آخری ایام کے دورِ صدارت
تک قائم رہی۔امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کو سامنے رکھا اور پاکستان کو اپنے
مقاصد میں ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کیا یعنی ضرورت پوری کی اور جب کام نکل
گیا تو ایڈ بند کردی۔ پاکستان کی اَن گنت قربانیوں کے باوجود امریکہ نے
ہمیشہ ڈو مور کی تلوار پاکستان پر لٹکا کر رکھی جس پر اب پاکستان اپنی
پالیسی کو نئی ترتیب دے رہا ہے کہ اسے امریکہ کی ہر غلط بات کو نہیں ماننا
ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں آج تک کن کن مسائل پر کشیدگی شدت اختیار کرتی
رہی جس کا براہِ راست ذمہ دار امریکہ کی جانب سے پاکستان کو سمجھا جاتا رہا۔
ہمیشہ کی طرح پاکستان سے انتہائی کشیدگی کی وجہ پاکستان منظرنامہ نہیں بلکہ
ہمسایہ ملک بھارت ہے ۔نئے پاکستان میں بھی امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومیو
نے وزیرِاعظم سے کوئی قابلِ ستائش گفتگو نہیں کی ہے تاہم پاکستان کا دفترِ
خارجہ اس موقف کی سبکی کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ
ایسا ایمپیکٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے نئے پاکستان کے وزیرِاعظم کو
امریکی وزیرِ خارجہ نے جھاڑ پلائی ہو ،ذاتی عناد میں کچھ لوگ وزیرِاعظم
عمران خان کو نابلد گردان رہے ہیں ان پر یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ عمران
مستعدی سے عالمی امور کو ہینڈل کر کے پاکستان کا وقار ارفع کرنے کے اہل ہیں۔
ابتدائی دِنوں میں ہی پاکستان میں برسرِاقتدار آنے والی حکومت دباوٗ کا
شکار ہے اسے فیصلے کرنے میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہے شاید بھارت سے اچھے
تعلقات کی اچانک خواہش بھی کسی کی کاراستانی ہو بہر حال حالات کی دکھتی اور
دہکتی رگ بھی یہ ہی پیام دلاتی ہے کہ تعلقات بہتر کرنا ہونگے کشیدگی اور
شورشی طرز تغاوت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ آج کل ٹرمپ کی جانب سے عدم اعتماد
کی تلوار لٹکنے کے بعد آنے والے بیانات سے ان کی پسماندگی نمایاں ہوگئی ہے
یعنی وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ریپبلکن انہیں صدارت سے اتار دیں گے تو
امریکا دیوالیہ ہی ہوجائے گا اور گورننس کا وجود ہی نہ رہ سکے گا جبکہ
امریکا میں اسٹیٹس خودمختار ہیں ان کا ایک اپنا میکنزم ہے انہیں شخصی
تبدیلیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ بھارت امریکہ کو پاکستان کے خلاف
اُکسا رہا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پاک چائینہ کوریڈور امریکی ناراضیِ کی و
جہ بھی ہے۔معتبر ذرائع کے مطابق اگر حالات مزید کشیدگی کی طرف گئے تو
امریکہ انٹیلی جنس شیئرنگ جس پر امریکہ پہلے ہی پابندی عائد کر چکا ہے
بلااجازت پاکستان کے اندر آپریشن کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو بھی بھرپور
جواب دینا پڑے گا جس کا براہِ راست فائدہ بھارت اُٹھائے گا۔
ترکِ سلام، ترکِ محبت، ترکِ ملاقات ہوسکتی ہے
جوکوئی غیر چاہتاہے وہی بات ہوسکتی ہے
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات پاکستان بننے کے دو
ماہ بعد ہی قائم ہو گئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی بار
خراب ہوئے، واشنگٹن 1998ئمیں جوہری تجربات، 1999 ء میں نوازشریف کو اقتدار
سے ہٹانے پر امریکا بھی خوش نہیں تھا، اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر سلالہ
چیک پوسٹ حملے پر دونوں ملکوں میں تناوٗ بڑھا، تفصیلات کے مطابق امریکا ان
چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد اس سے سفارتی تعلقات
قائم کیے، 20اکتوبر 1947ئکو 2ماہ اور 6روز بعدہی پاکستان اور امریکا کے
تعلقات قائم ہوئے گزشتہ 7دہائیوں میں دونوں ملکوں کے کئی بار تعلقات میں
ٹینشن آئی، امریکا نے پاکستان کو انسداد دہشتگردی اور تعلیم سمیت دیگر
شعبوں کے لیے 70 ارب ڈالرز دئیے، یہ رقم پاکستان کو وقتاً فوقتاً دی گئی
اور کئی مقامات پر امریکی امداد روکی بھی گئی، ریسرچ کے مطابق 1972 میں
رچرڈ نکسن کے چین کے دورے کے موقع پر پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، 1979ء
میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکا نے تحفظات کا اظہار کیا، 1990 میں
امریکی صدر نے کانگریس میں کہا کہ پاکستان کے پاس نیو کلیئر ہتھیار نہیں
ہیں اور ان کا یہ بیان مثبت رہا لیکن جب پاکستان نے 28مئی 1998ء کو
نیوکلیئر تجربات کیے تو امریکا ایک پھر ناراض ہو گیا، 1999 میں جنرل مشرف
کے نوازشریف کو اقتدار سے ہٹانے پر بھی امریکا خوش نہیں تھاکیونکہ جنرل
مشرف ہٹائے جانے سے قبل امریکہ کو ایک مرتبہ پھر وفاداری کی یقین دہانی
کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ حالیہ برسوں میں 27جنوری 2011ء کو سی آئی اے
کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، 2مئی 2011ء کو
اسامہ کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات
کشیدہ ہو گئے، اسی طرح سال 2011 میں ہی 26نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ
چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔،
فروری 2015 میں امریکی محکمہ خارجہ نے 2016ء کے عالمی بجٹ میں سے تقریباً
900ملین ڈالرز پاکستان کے لیے دینے کا کہا جس میں سے 500 ملین ڈالرز انسداد
دہشتگردی کے لیے تھے۔ اس کے بعد مئی 2016 ء میں امریکی کانگریس نے ایف 16
ڈیل کے لیے ایک ہفتہ قبل امداد روک کر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف
الزام عائد کر کے کارروائی کے لیے دباوٗڈالا، امریکی صدر ٹرمپ اس وقت سپر
پاور کی صدارت کے لیے انتخابی امیدوار تھے، اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ
چودھری نثار نے ڈونلڈٹرمپ کو اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکی کالونی
نہیں ہے اور ڈاکٹر شکیل کا فیصلہ پاکستان کرے گا، اس کے بعد امریکا نے
جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کے سر کی قیمت 10ملین ڈالرز مقرر کر دی،
امریکی سیکرٹری ویندے نے بھارت دورے کے موقع پر کہا کہ حافظ سعید اور
عبدالرحمن مکی کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔ امریکا اور بھارت نے 26 نومبر
2008 ء کو ممبئی حملوں کا الزام حافظ سعید پر لگایا، سال 2014 اور 2015ء
میں پاکستان اور امریکا نے پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشتگرد ملا فضل اﷲ پر
ڈرون حملہ کیا جس میں وہ بچ گیا لیکن بعد کی اطلاعات سے جتھا اس کے کنٹرول
سے باہر ہوگیا ، پاکستان میں امریکی نمائندوں اور سفارتخانوں پر حملوں کے
بھی واقعات پیش آئے، نومبر 1979ء میں ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ امریکا
مسجد حرام میں قبضے میں ملوث ہے جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے اسلام آباد
میں امریکی سفارتخانے پر آگ لگا دی اور جانی نقصان ہوا، سال 1989 میں اسلام
آباد میں امریکی مرکز پر حملہ ہوا اور اس میں 6پاکستانی حاں بحق ہوئے۔ مارچ
1995ئمیں کراچی میں ایک حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 2امریکی ملازمین ہلاک اور
ایک زخمی ہوا۔ نومبر 1997ئمیں 4امریکی بزنس مین کراچی میں قتل ہوئے، مارچ
2002 میں اسلام آباد کے ایک چرچ میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے
سے اُڑا لیا جس کے نتیجے میں امریکی سفارتخانے کے 2اہلکار ہلاک ہوئے۔ مئی
2002ء میں امریکی سفارتخانے پر دہشتگروں کا ایک حملہ ناکام ہوا، اس کے بعد
بھی دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو گئے، نومبر 2005ئمیں کراچی میں امریکی
اور دیگر بزنس کے قریب ایک بم حملہ ہوا جس میں 3افراد ہلاک اور 15زخمی ہوئے۔
2مارچ 2006ء کو دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کا خود کش دھماکہ ہوا جس میں
امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر کو نشانہ بنایا گیا، کراچی میں ہونے والے
اس حملے کے نتیجے میں 3افراد ہلاک جبکہ 52 دیگر زخمی ہوئے تھے، ستمبر 2008ء
میں دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹرک سے میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر حملہ کیا گیا
اس حملے میں امریکی سفارتخانے کا ایک اہلکار ہلاک ہوا۔ اس مرتبہ ہمارے
حکمران تو میانہ روی کی پالیسی کی آڑ لے کر کوئی اپنے سیاسی مستقبل کو
بہتری کے لیے امریکہ سے مدد مانگ رہا ہے۔ کوئی وزارتِ عظمیٰ کے حصول کو
یقینی بنائے جانے میں کردار ادا کروانے کا خواہشمند ہے۔ ۔ امریکہ کے خلاف
محض بیان بازی تک محدود ہو کر کہہ رہے ہیں۔ امریکہ سے جنگ کا فیصلہ آرمی نے
کرنا ہے۔ آرمی چیف ہی صدر ٹرمپ کو گیدڑ بھبھکیوں اور گیدڑسنگھیوں کا ڈنکے
کی چوٹ پر جواب دیتے رہے ہیں جو کہ سِول حکومت کو بھی بھرپور طریقے سے دینا
چاہیے اس معاملے پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی پرعزم نظر آتے ہیں اس
سے قبل زرداری دور میں بھی وہ ڈپلومیٹک معمالات بڑے اچھے انداز میں دیکھ
چکے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلے کے بعد امریکی
محکمہ خارجہ نے اسلام آباد سے اپنی واضح توقعات کا اعادہ کیا تھا، اسی
دوران ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے اندر، عسکری اہداف کے
خلاف اسپیشل فورسز کے آپریشن کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ
خارجہ کے ترجمان نے امریکا کی نئی قومی سلامتی کی پالیسی پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا اگرچہ پاکستان خطے میں امریکی ترجیحات کے حصول کے لیے ایک اہم
ساتھی ہیں لیکن یہ انتظامیہ پاکستانی سرزمین سے آپریٹ کرنے والے عسکری
گروپوں اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن ایکشن کے لیے پاکستان سے واضح
توقعات وابستہ کیے ہوئے تھا۔ چند ماہ قبل کو افغانستان کے غیر اعلان شدہ
دورے کے موقع پر نائب امریکی صدر مائیک پنس نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے
پاکستان کو نوٹس دے دیا ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں
سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتحادی ایک دوسرے کو نوٹس نہیں دیا
کرتے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا افغانستان میں حتمی
طور پر امن کے لیے کوشاں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکا خطے میں سلامتی اور
استحکام کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور آئی
ایس آئی ایس اور طالبان پر فوجی ذرائع سے دباوٗ میں اضافہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ہم حقیقی امن کے لیے سفارتی ماحول بنانے میں مدد دیں گے جس سے
آخر کار جنگ ختم ہو جائے گی۔بڑی ہی کمپلیکس قسم کی بات ہے کہ کہنا کچھ اور
کرنا کچھ پالیسی میں یہ Tilt امریکہ کا وتیرہ رہا ہے جو کہ ممالک کے لئے
سمجھ سے باہر رہا ہے۔ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک ووڈ
روولسن مین سینئر ایسوسی ایٹ برائے جنوبی ایشیا مائیکل کو گل مین کے خیالات
بھی یہ ہی تھے کہ پاک امریکہ تعلقات خطرناک شکل اختیار کر رہے ہیں لیکن
پاکستان میں کسی بڑی مچھلی (دہشت گرد ہدف) کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستان
میں امریکی سپیشل فورسزکے آپریشن کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک
بھارتی اشاعت کے لیے اپنے مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ اس طرح کے آپریشن
کے لیے ممکنہ طور پر پاکستان سے انٹیلی جنس معاونت کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس طرح کے ایکشن سے پاکستان سے تعلقات کو
خطرات لاحق ہو جائیں گے جس میں نیٹو کی سپلائی بند ہونا اور خفیہ اطلاعات
میں تعاون کا معطل ہونا بھی شامل ہے جس سے امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچے
گا۔ دوسری جانب کوگل مین نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات پہلے ہی
بہت کشیدہ ہیں اور امریکا کی نئی سکیورٹی حکمت عملی سے ضروری نہیں کہ یہ
مزید بد ترین ہوں۔ اگر تعلقات میں مزید کشیدگی ہوئی ہے تو ایسا کئی ماہ کے
بعد ہوا جب امریکا اس بات کا جائزہ لے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے
سے کیا کام کیا ہے اور پھر فیصلہ کیا گیاکہ آیا پاکستان کے خلاف تادیبی
اقدامات کس نوعیت کے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اپنی ناراضگی کا
اظہار کر رہے ہیں اور امریکی اپنی تنقید پر قائم رہیں گے۔ ابھی تعلقات میں
سنگین بحران آرہاہے۔ اگر وہ بحران آیا تو وہ آنے والے چند ماہ میں ہو گا جب
امریکہ فیصلہ کرے گا کہ کس قسم کے سخت اقدامات کئے جائیں۔ نئی امریکی
پالیسی پر چین کے ردعمل کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ بیجنگ بلواسطہ
انداز میں جواب دے سکتا ہے۔ چین پاکستان کا اتحادی ہے اس لیے میرا خیال ہے
کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے گا خواہ وہ غیر محسوس انداز میں ہی کیوں نہ ہو۔
چین پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کی حمایت میں چند بیانات جاری
کر سکتا ہے۔پاکستان چین کی کالونی بن رہا ہے یا نہیں ایسے سوال کھڑے ہونے
کا جواز ہی نہیں ہے کیونکہ چین نے ایسے کئی انویسٹمنٹ دیگر ممالک کے ساتھ
بھی کر رکھی ہیں اس راہداری منصوبے کا مقصد چین کے لئے اپنی آسائش کا سامان
کرنے کے سِوا کچھ بھی نہیں کیونکہ لمبا روٹ لینے کی وجہ سے اس کا کئی گنا
خرچ بڑھ جاتا تھا جسے اب وہ اس کمی کو دور کر سکے گا۔امریکہ کے لئے بڑا دکھ
یہ ہے کہ پاکستان نے اس کی گائیڈ لائن کو کیسے جھٹلادیا جب ا س نے سی پیک
پر بیان داغ دئیے اور کہا کہ یہ اسے قابل قبول نہیں تو کیونکر پاکستان اس
سے پیچھے نہیں ہٹا اور اس کے حکم صادر کرنے کے بعد بھی کیسے سی پیک کو
بڑھاوا دیتا رہا۔اب پاکستان کو یہ فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کون اس کے
بُرے وقتوں کا ساتھی ہے جیسا کہ چین بھی جانتا ہے پاکستان نے مشکل ادوار
میں بھی دوستی مستحسن طریق سے نبھائی تھی فارن پالیسی میں کھینچی گئی سرخ
لائن کا مداوا کرتے ہوئے ڈپلومیسی کے اصولوں پر چلنا ہوگا تاکہ جنگ و جدل
کے خطرات سے بچا جا سکے۔ |