کپتان اور تبدیلی کا سفر

پاکستان میں کرپشن لوٹ مارلاقانونیت کاراج تھا۔تھانہ کچہری ہر سرکاری ادرے میں امیر اور شفارشی رشوت دینے والوں کو سلام پیش کیاجاتاچائے اورکرسی پیش کی جاتی جب کہ حق پرہونے کے باوجودغریب اور مڈل کلاس کوآنکھیں دیکھانااور بے عزت کرکے بغیرکام کیئے بھگادینامعمول کاحصہ بن چکاتھا۔ہرسرکاری ادارے میں کرپشن آفیسر اعلی سے چپڑاسی تک فرض عین اور اپنا حق سمجھاجانے لگاحکومتیں آتی گیئں اور یہی رواج عا م رہا ہرفرد کا حکومت اور سرکاری اداروں سے اعتماداٹھتاچلا گیا،ہرطرف ڈاکوراج عزتیں غیرمحفوظ کاروبار غیر محفوظ ہونے لگے ۔جس کی لاٹھی اس بھینس کاقانون جنگل سے بھی بدتر نظام زندگی ہرکسی کے چہرے پرپریشانی کے آثاردیکھنے کوملتے ایسے میں تبدیلی اور نظام کی بہتری خوشحالی جیسے الفاظ مذاق بن چکے تھے۔قوم کی خوش قسمتی کہ ایک بھیانک غلطی وزیراعظم کی بیٹی سے ہوئی جس نے ریاست کے اہم راز افشا کردیئے یہ سمجھ کر کہ اقتدار اور بادشاہت ہمارے پا س ہے۔ کون ہے جو ہمیں پوچھنے والا پیداہوا ہے ایسے میں قوم کے بیدار مغز گمنام مجاہد نے اپناکردار اداکرناشروع کیاہوتے ہوتے اپنے آپ کو ڈان اقتدار کابادشاہ سمجھنے والا جیل کی سلاخوں پیچھے چلاگیا اس نے اپنے خاندان اور اپنے چندسو ساتھیوں کے ساتھ مل کرلوٹ مارکابازار گرم کیاہواتھا یہاں تک کہ اقتدار اور مال کے حوس میں وطن سے تجزیہ نگاروں کے مطابق غداری تک کامرتکب ہوگیاتھاقوم بھٹو کے نعروں سے بھی تنگ آچکے تھے ایسے میں ایک امید کی کرن ایک مسیحابن کرآنے والاایک کھلاڑی ایکدم سے چھاگیا اس نے تبدیلی کانعرہ لگایا جوبچے بچے کی زبان پرگیا جوان کیا بوڑھے کیاخواتین کیاسب نے اس کاساتھ دیا اور کیاخوب ساتھ دیااس کھلاڑی نے قوم کو یقین دلایا میں ہی ہوں جس کاتمہیں برسوں سے انتظار تھامیں ہوں وہ تمہارامسیحا جس کی تم برسوں سے راہ دیکھ دیکھ کرتھک چکے ہومیں ہی ہوں تمہاری وہ امید جوتمہارے اندر ہی اندر دم توڑنے کوہے میں ہی ہوں تمہاری وہ آواز جو اب تمہارے اپنے گلوں میں ہی دبنے کوہے میں ہی ہوتمہارا وہ انتظار جواب خواب لگنے کوہے ۔میری بدقسمت قوم جو اپنے ساتھ ہونے والا ظلم اورنا انصافی بھولنے میں ایک منٹ نہیں لگاتی اورپھر لوٹنے والوں کومحافظ چننے کی غلطی بار بار دوہراتی ہے اس بار سب کچھ مختلف تھاوہ فرسٹ کلاس طبقہ وہ نوجوان وہ عام افرادجن کو سیاست سے سروکار نہیں ہوتاتھا وہ بھی کھلاڑی کی آواز بنے وہ بھی نکلے میدان میں اور خود کھلاڑی بنے چند کرپٹ ماحول عادی لوگوں نے کہا یہ تو بچے ہیں سیاست ان کے بس کی بات کہالیکن بچو ں نے ماحول کویکسر بدل دیا جو سوچ رہیں تھے کہ تانگے کی سوریاں پوری ہونابھی مشکل ہے آج اسی ٹرین کے مسافر ہیں جس کی سواراں سائیکل پھر تانگہ اور پھر ٹرین میں تبدیل ہوچکیں تھیں ۔آج جب اس کاخواب پورا ہوا اور وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ گیا جوابھی بھی اس کے چاہنے والوں کوخواب محسوس ہوتا ہے ۔اب دیکھنا یہ اقتدار اورطاقت اس کے پاس آپہنچی ہے جس نے اس قوم کے سوئے ہوئے افراد کو بھی جگایا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ امیدوں پر کیسے پورا اترتا ہے اس کے سامنے چیلنجزتوبہت ہے لیکن گیم میکروہی ہوتا ہے ہیرووہی ہوتا ہے جو چیلنجزکوچیلنج کرکے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپورا کرتاہے ۔ قوم نے اجتماعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو حقیقی طور پرمسترد کرکے کپتان کے حق میں فیصلہ سنادیاہے اب کپتان کا فرض ہے قانون کی اہمیت اور افادیت کو بحال کرئے اداروں میں انتہا کی کرپشن کو لگام ڈالے اور اب وقت ہے مہنگائی کے سیلاب کے آگے مضبوط پل باندھے ۔بچوں اور خواتین سے زیادتی جیسے بڑے جرائم کے خلاف سخت قانون سازی اور غریب امیر سب کے لیے ایک ایک جیسے قانون کانفاذ عملی معنوں میں کروائے ۔پرعزم نوجوانو ں پرمشتمل مختلف محکموں کے لیئے ٹاسک فورسز بنائیں جائیں جس سے رشوت خور اورکرپٹ افراد کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں کمی آئے گی کپتان صرف اپنے وعدے پورے کرنے میں ہی کامیاب ہوگیا توبہت سی سیاسی جماعتیں مجبوری یا خوشی خوشی کپتان کی جماعت میں ضم ہوجائیں گی اور کپتان دنیا کا دوسرا مہاتیرمحمد ثابت ہوں گا اور تاحیات وزیراعظم کااعزاز بھی اپنے نام کرسکتاہے بہرحال قوم نے اپنا تبدیلی کا مشن پورا کردیا اب آنے والا وقت بتائے گا کہ قوم کی محنت رائیگاں گی یاقوم کو اس کا پھل خوشحالی اور پرامن سب کے لیئے برابر قوانین کی صورت میں مل جاتاہے

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 36848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.