پاکستان بھر میں شجرکاری مہم شروع ہو چکی ہے۔ وزیراعظم
عمرا ن خان کی شروع کردہ مہم میں حکومتی اہلکار اور عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لے
رہے ہیں۔ درخت پیڑ پودے صحت مند اور محفوظ زندگی کی نشانی ہیں۔ اور اگر پھل
دار درخت لگائے جائیں تو ملک میں پھل اور میوہ جات کی فراوانی ہو سکتی ہے۔
ہر موسم میں ہرے بھرے رہنے والے درخت بھی ضروری ہیں مگر پھل دار درخت کے
فوائد زیادہ ہیں۔ اس سے لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہو سکتی ہے اور
ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو سکتی ہے۔ عمراں خان کو موقع مل رہا ہے۔ وہ اپنے
آپ کو ثابت کر سکتے ہیں۔ ان کا میڈیا ٹرائل ہوا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح
کام نہ کر سکیں جیسا کہ ان کا عزم ہے۔یا وہ رکاوٹوں کا بہانہ پیش کر کے سب
کے منہ بند کر دیں۔ پاکستان نے پیپلز پارٹی کو بھی آزما لیا، مسلم لیگ ن کو
بھی دیکھ لیا۔ مسلم لیگ ق کا زمانہ بھی گزر گیا۔ ان کا ایک اور دور سامنے آ
رہا ہے۔ چوھدری صاحب پنجاب اسمبلی کا ایوان چلا کر اپنی صلاحتیں منوا رہے
ہیں۔ یہ کریڈٹ عمران خان کو دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤ س کے
اخرجات کم دیئے ہیں۔ گاڑیوں کی نیلامی ہو رہی ہے۔ وزیراعظم ہاؤ س ملک کا سب
سے بڑا ریسرچ سنٹر بن رہا ہے۔ ان کے رفقاء کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا
رہا ہے وہ سب عمران خان کی پالیسی اور اعلانات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مگر
شجرکاری مہم کے حوالے سے ملک گیر سطح پر جو مہم چلی ہے وہ انتہائی خوش
آئیند ہے۔ اس کی تعریف ہونی چاہیئے۔ کیوں کہ درخت لگیں گے تو ماحول صاف
ستھرا ہو گا۔ بارانی علاقوں میں بھی درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ تا ہم زمین کے
مطابق درختوں اور پودوں کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ درخت زمین کے کٹاؤ میں
بھی کمی لا سکتے ہیں ۔ سالانہ ہزاروں ایکڑ اراضی کٹاؤ کی وجہ سے سمندر کی
نذر ہو جاتی ہے۔ درخت سایہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ مال مویشیوں کے لئے پتے،
چارہ بھی ان سے ہی ملتا ہے۔ جن علاقوں میں زیادہ درخت ہوں، وہاں کے لوگ مال
مویشی بھی پال سکتے ہیں۔ جو دودھ، اون ، گوشت کا زریعہ ہیں۔ اس سے بھی عوام
کی مالی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ شجرکاری معیشت کو
بڑھاتی ہے۔ تا ہم پھلدار درخت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان درختوں ہر سال
موسم سرما میں کٹائی کی جاتی ہے۔ کشمیر میں سیب کے درختوں کی ہر سال نومبر
دسمبر میں کٹائی کی جاتی ہے۔ اس کٹائی کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جن علاقوں
میں برف باری ہوتی ہے، اس کٹائی کی وجہ سے برف کے بوجھ تلے دب کر ٹہنیاں
اور شاخیں ٹوٹتی نہیں ہیں۔ اس لئے درخت محفوظ رہتا ہے۔ اسے زخم نہیں لگتا۔
اس کٹائی کا بھی فائدہ ہے کہ لکڑیاں بالن کے کام آسکتی ہیں یا ان سے لکڑی
کی دیگر اشیاء جیسے کہ ٹوکریاں، چھاج وغیر تیار کی جاتی ہیں۔ لکڑیوں کا
فرنیچر بھی دیدہ زیب ہوتا ہے۔ یہ سب نقش نگاری کے بھی کام آتی ہیں۔ لکڑی کا
فرنیچر بھی خوبصورت ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں لوگ لکڑی کے مکان تعمیر کرتے
ہیں۔ یہاں تک چھتیں بھی لکڑی کی ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں صوفے ، میز ، کرسیاں،
الماریاں، کھڑکیاں ، دروازے بھی لکڑی سے تیار کئے جاتے ہیں۔
شجرکاری مہم میں ہر کسی کو بھر پور حصہ لینا چاہیئے۔ اس میں فوج نے بھی
بھرپور حصہ لیا ہے۔ جس سے اس ادارے کے اخلاص کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ کام رضاکارانہ ہے۔دیگر ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتے
ہیں۔اسلام نے درخت لگانا جنت میں گھر تعمیر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ
کام حکومت کا ہی نہیں ہر فرد کا ہے۔ ہر انسان کم از کم پانچ درخت لگائے تو
پاکستان شجرستان بن سکتا ہے۔ہر سو ہریالی آ سکتی ہے۔ ماحول انسان دوست بن
سکتا ہے۔ یہ قومی خدمت بھی ہو گی اور گھریلو آمدن میں اضافہ بھی ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان نے پانچ سال میں 10ارب درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا۔
انہوں نے ہری پور میں درخت لگا کر اس کی ابتدا کی ہے۔ اس کا دنیا کے لئے
بھی فائدہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے گلوبل وارمنگ بھی کم ہو
گی۔ پاکستان کا یہ کردار منفرد ہے ۔ دیگر ممالک بھی اس طرح شجرکاری مہم
شروع کر سکتے ہیں۔ ہر ملک اپنی آب و ہوا اور موسم کے مطابق اس میں اپنا حصہ
ڈال سکتا ہے۔ اب موسمیات محکمہ کے مشیر ملک امین اسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ
کس طرح اس مہم کو کامیاببنا سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ وفاق کے پی کے ماڈل کے
طور پر شجرکاری میں حصہ لے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں 200کے قریب
مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں عوام کو مفت درخت دستیاب ہوں گے۔ لوگ درخت
حاصل کر کے انہیں اپنے گھروں، آس پاس ، باغات اور ڈھلوانوں پر لگا سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے مکھنیال علاقہ میں دیودار کا پودا لگا کر اس مہم کو عزم کے
ساتھ شروع کیا ہے۔ دیودار اب ملک میں نایاب ہو رہا ہے۔ یہ سطح سمند سے ایک
خاص بلندی پر پایا جاتا ہے۔ اس کی لکڑی انتہائی قیمتی ہوتی ہے۔ جو خاص
فرنیچر اور دیگر کاموں کے لئے بروئے کار آتی ہے۔ مہم کا آغاز پاکستان کے
لئے درخت لگاؤ نعرے سے کیا گیا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ صرف درخت لگانا
ہی کوئی کام نہیں۔ بلکہ درخت لگا کر اس کی حفاظت اس سے بھی بڑا کام ہے۔ تا
کہ درختوں کو سویرے پانی دیا جائے۔ ان کے گرد جنگلا کھڑا کیا جائے۔ تا کہ
انہیں بچے یا مال مویشی اکھاڑ نہ سکیں۔ اگر درخت لگا کر ان کی مناسب حفاظت
بھی یقینی بنائی گئی تو اسے کامیاب شجرکاری مہم قرار دیا جانا آسان ہو گا۔
اگر عوام پھلدار درخت لگائیں تو یہ انشاء اﷲ سب کے لئے نفع بخش ثانت ہوں گے۔
کارب یا انسان کے لئے مضر صحت گیسیں درختوں کی غذا ہیں جب کہ انسان کے لئے
فائدہ مند غذا آکسیجن ہے جو درخت اخراج کرتے ہیں۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ
درخت لگانا بھی عین عبادت ہے ۔ درختوں سے ہمارا ماحول انسان دوست بنتا ہے۔
انسان دوست ماحول ہی آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ |