ویسے تو سرائیکی خطہ کے لوگوں کے ان گنت مسائل ہیں جس کا
ہر سرا معیشت سے ملتا ہے ۔ مسائل کیوجہ سے یہاں کے عوام غلط لوگوں سے
امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں کیونکہ تعلیم نہ ہونے کیوجہ سے ان کا سیاستی
شعور بہتر نہ ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ سیاستدانوں سے بار بار ڈستے رہتے ہیں۔
سرائیکی میں ایک مثال " لالچیاں دی بازار وچ ڈیوالے بکھ نی مردے" مشہور ہے
۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جہاں لالچی بہت ہوں وہاں قرض لیکر واپس نہ کرنے والے
بھوکے نہیں مرتے۔ اس مثال کو اگر میں اپنے خطہ کے سیاستدانوں پر پاکستان کی
بڑی پارٹیوں سے منسوب کروں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ پاکستان کی بڑی پارٹیاں
الیکشن کے قریب صوبہ سرائیکستان، بہاولپور صوبہ، ملتان صوبہ ، جنوبی پنجاب
صوبہ کی لالچ سرائیکیوں کے آگے لا کر رکھ دیتے ہیں ۔ جس پر یہاں کے لوگ
انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ ہمارے خطہ سے بہت سارے لوگ صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ،
وزیر اعلیٰ، گورنر، وزیر ، مشیر کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور آج بھی
کئی اہم عہدوں پر ہیں آج بھی وزیر اعلیٰ خطہ سرائیکستان سے ہے۔ مگر افسوس
کے ان لوگوں نے بھی سرائیکی قوم کو لالچ دے کر اسلام آباد، لاہور جا کر
بیٹھ گئے اور یہاں کے لوگوں کے حقوق کیلئے آواز بھی بلند نہ کی۔ صرف اپنے
عہدوں کے مزے لیتے رہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس خطہ کی حالت بدلنے میں
ہمیشہ بددیانتی کرتے رہے۔
یہ بات کوئی بھی ذی شعور جھٹلا نہیں سکتا کہ خطہ سرائیکستان پاکستان کے
پسماندہ ترین علاقہ میں شمار ہوتا ہے ۔ پاکستان بھر میں لوگ گندہ پانی پینے
پر مجبور ہیں اسی حوالے سے ایک یواین کے ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو
ایچ او) کی ایک 2017میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق خطہ سرائیکستان میں
زیر زمین پانی میں خطرناک وائرس سنکھیا کی تعداد بہت زہادہ ہے جس سے ڈیرہ
غازیخان، راجن پور،رحیم یار خان، مظفر گڑھ میں ہزاروں افراد خطرناک
بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جن میں ہیپاٹائٹس، ٹی بی،گلا، ناک و ددیگر
شامل ہیں اسی رپورٹ کے مطابق اسی خطہ کے لوگ ہیپاٹائٹس سے ہر سال دس ہزار
سے زائد لوگ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں کیا وہ انسان نہیں کسی کا،
کسی کا بیٹا، کسی کی ماں، کسی کی بیٹی، کسی کی بیٹی جب اس جہان سے جاتی ہے
تو دکھ اور درد کا صرف اسے ہی معلوم ہوتا ہے حکمرانوں کے تمام رشتے دار تو
نوٹ ہوتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں بھی یہ خطہ انتہائی پیچھے ہے الف
اعلان کی ایک رپورٹ کے مطاب مظفر گڑھ تمام اضلاع سے پیچھے ہے مظفر گڑھ میں
38.69فیصد تعلیم ہے جبکہ اپر پنجاب کا ایک ضلع بھی 60فیصد سے نیچے نہیں
جبکہ اس رپورٹ میں پانچوں کے پانچ اضلاع خطہ سرائیکستان سے جن کا تعلیم کا
معیار شرمناک ہے جبکہ بہترین معیار تعلیم میں خطہ سرائیکستان کا صرف ایک
ضلع بہاولپور شامل ہے جس کا تعلیمی معیار 73فیصد سے زائد ہے۔ تعلیمی اور
معیشت کے مسائل ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر اس خطہ میں معیشت
کی حالت ٹھیک ہوگی تو لوگ اپنے بچوں کو کیونکر تعلیم نہ دیں گے۔ اس خطہ کے
جتنے بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں سبھی کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر جو
انتہائی غربت دو چار ہیں وہ اپنے بچوں کو کیسے پڑھائیں اگر بچوں کو پڑھانا
بھی چاہیں تو ممکن نہیں کیونکہ آج کی مہنگائی کے دور میں کوئی بھی ایک فرد
گھر کی معاشی ضروریات پوری نہیں کرسکتا اس لیے اس خطہ کے لوگ اپنے بچوں کو
مزدوری پر لگا دیتے ہیں تاکہ کم از کم زندہ رہنے کیلئے دو وقت کی روٹی تو
میسر آسکے۔ اس لیے لوگ اپنے بچوں کو، ایمبرائیڈری سنٹرز، مکینیکل ورکشاپس،
الیکٹریشن و الیکٹرونکس سنٹرز، ہوٹلوں، گھریلو چاکری پر روانہ کر دیتے ہیں
تاکہ مسائل کو حل کیا جاسکے۔
میرے خطہ میں آجکل نشتر کے نام پر ایک مثال " جیندا چاتی ویندو، مویا انے
سو" بڑی شہرت پکڑ رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ زندہ لے کر جا رہے ہو مرا ہوا
واپس لاؤ گے۔یہ حالت ہے اس خطہ کے سب سے بڑے ہسپتال کی تو آپ اندازہ لگائیں
کہ صحت کی سہولیات کیا ہونگی۔ جب اس خطہ میں آئل ٹینکر حادثہ ہوا اور
200لوگ جل گئے تو ان کو بچانے کیلئے کوئی برن یونٹ نہ تھا جس وجہ سے اموات
کی تعداد 200سے زائد بتائی گئیں اور یہ تعداد میڈیا بتا رہا تھا جبکہ میری
ذاتی معلومات میں 300کے لگ بھگ لوگ جل کر مر گئے تھے۔ اسی طرح جب بھی کسی
مریض کو نشتر ہسپتال لے جایا جائے تو مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی سے دو گھنٹے،
ڈیرہ غازیخان سے تین سے چار، راجنپور سے 5-6گھنٹے لگتے ہیں۔ جب کبھی بہت
زیادہ ایمرجنسی ہو تو کیا اتنا لمبے سفر میں مریض کہاں تک ساتھ دے گا۔ اپر
پنجاب کے علاقوں میں ہر دو سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر معیاری ہسپتال
اورمعیاری سکول موجود ہیں جبکہ اس خطہ میں معیار تو چھوڑیں ہسپتال اور سکول
بھی دس دس کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔
اسی طرح اگر ہم غربت پر بات کریں تو خطہ سرائیکستان پنجاب میں تمام اضلاع
سے پیچھے ہے پنجاب حکومت کے اپنے ایک کرائے گئے سروے ڈسٹرکٹ بیس ملٹی
انڈیکیٹر سروے کیا گیا جس کی معاونت یونیسف نے کی اس رپورٹ کے مطابق پنجاب
کے پانچ بہترین اضلاع لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ
جبکہ پسماندہ ترین اضلاع میں مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخان، لودھراں، راجن پور
اور لیہ شامل ہیں۔حکومت پنجاب کے ہی صاف پانی کے سروے میں کہا گیا کہ پنجاب
میں 24فیصدافراد کو صاف پانی ملتا ہے۔ جن کی زیادہ تعداد اپر پنجاب سے ہے
جبکہ خطہ سرائیکستان میں مظفر گڑھ، خانیوال، ملتان، لیہ، بھکر ایسے اضلاع
ہیں جہاں صرف ایک فیصد افراد کو پانی ملتا ہے۔
ان تمام مسائل کے علاوہ بھی اس خطہ کے ہزاروں مسائل ہیں جو اس علاقہ کی
محرومی کی داستانیں سناتے ہیں، یہاں سے کئی ماؤں کے بچے کراچی، لاہور ،
سعودی عرب، اومان، قطر، دبئی کیلئے تو جاتے ہیں مگر وہاں یا تو قید ہو جاتے
ہیں یا پھر لاشیں واپس آتی ہیں اور پردیسیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اپنوں سے
دور رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے ہم صرف باتیں کر سکتے ہیں اگر حکمران اس خطہ کے
ساتھ متعصبانہ رویہ روا نہ رکھتے تو آج یہ علاقہ بھی محروم نہ ہوتا اور لوگ
شاید الگ صوبے کی بات ہی نہ کرتے۔ یہاں پر میں اس خطہ کے باشعور سرائیکی
رہنماؤں کو ضرور سلام پیش کرونگا۔ جولوگوں کے حقوق کیلئے لڑتے لڑتے اس جہاں
فانی سے رخصت ہو گئے ہیں جن میں بڑے نام، بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، استاد
فدا حسین گاڈی، ملک منظور احمد بھوہڑ، سیٹھ عبیدالرحمان،اکبر ہوتانی،ولائت
حسین گردیزی، قاری نورالحق قریشی،سید حسن رضا بخاری، مرید حسین راز جتوئی و
دیگر شامل ہیں آج انہی رہنماؤں کے افکار کو اپناکر جو رہنما اس خطہ کے حقوق
کی جنگ لڑ رہے ہیں ان میں بڑے نام صوفی تاج خان گوپانگ، عاشق خان بزدار،
رانا فراز نون،انجینئر شاہنواز خان مشوری، آصف خان، پروفیسرعامر فہیم،
عنایت اﷲ مشرقی، ظہور احمد دھریجہ، خواجہ غلام فرید کوریجہ، کرنل عبدالجبار
عباسی،ملک اﷲ نواز وینس، ڈاکٹر عاشق ظفر بھٹی، اکبر خان ملکانی،پرویز
قادر،حمید اصغر شاہین،حنیف جعفری رمدانی و دیگر بہت سے نام شامل ہیں۔
اس خطہ کے مسائل کے داستان کی فہرست تو بہت لمبی ہے اگر کوشش کرکے تمام
مسائل کا بھی حوالہ دیا جائے تو شاید ایک آرٹیکل میں لکھنا نا ممکن ہے مگر
پھر بھی کوشش کی ہے کہ لوگوں کے مسائل کو یک جگہ پر مکمل کر سکوں۔ امید ہے
جو کہنا چاہتا ہوں قارئین کو سمجھنے کیلئے کافی ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو۔ آمین
|