6 ستمبر تجدید عہدِ آزادی ارضِ پاک اور حرمتِ شہدا کا دن ہے!!

پینسٹھ کی جنگ کے ساتھ ستمبر کا حوالہ ، شہداء کی یاد اور یومِ دفاع لفظ پاکستان کے حقیقی معنوں اور پاکستانیت کے حقیقی جذبوں سے روشناس کرواتا ہے ۔ میرا پاکستان مدینہ ثانی ہے ، کوئی مانے نہ مانے ، ہاں البتہ آج تک کوئی بھی حکومت پاکستان میں نظامِ مدینہ پر قائم نہیں ہو سکی لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اس کے آئین میں ایسے قوانین موجود ہیں جو نظام پاکستانی کو ریاست مدینہ بنانے کیلئے کافی ہیں ۔ ہماری قوم اور حکمران اتنے ہی زیادہ بدبخت اور بے فہم ہیں جتنی فہم و فراست اور جذبہِ سرشاری رکھنے والے اس ریاست کی بنیاد رڈالنے والے اور پھر ان بنیادوں کی آبیاری کیلئے اپنا لہو سینچنے والے تھے۔ ایسے جوان واقعی ملک و قوم کی پگڑی ہیں مگر اس پگڑی کی لج پالنا اس دیس کے باشندوں کا شیوہ نہیں ۔ پاکستان کو جو پہلی بیوروکریسی نصیب ہوئی وہ عقیدتاََ اور ہر طرح سے قابل ترین بیوروکریسی تھی ۔ ایوب خان کے دور میں دونوں مرتبہ پانچ سالہ منصوبوں پر کام کیا گیا ، یہاں صنعت کاری کو فروغ ملا تھا ، دفاع کو مضبوط بنایا گیا حالانکہ اس وقت ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت یا گنجائش نہیں تھی اس کے با وجود جذبہ شہادت اور دلوں میں ایمان اس قدر مضبوط تھا کہ انہیں موت سے ڈر نہیں لگتا تھا اور شہادت کو خوشی سے گلے لگاتے تھے ۔ چھ ستمبر کو جہاں پاک افواج کے جوانوں نے قربانیاں دیں وہیں،میں اس وقت کی ملکی بیوروکریسی کے ایثار و جذبے کی جانب بھی آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا ۔ امید کروں گا کہ حالیہ ملکی بیوروکریسی تاریخ سے سبق سیکھے گی اور آئندہ اسی طرح کے جذبے کا مظاہرہ کرے گی ۔ کراچی کے حید رآباد تھل کے قریب ایک شہر حق نگر آباد تھا شاید اس کا نام اب بدل گیا ہو یا وہی ہو وہ ایک نامور بیورکریٹ عبد الحق کے نام سے منسوب تھا۔ بلکہ یہ کہیں کہ وہ شہر اسی کا ملیکت تھا جو تقسیم ہند کے وقت اﷲ کے فضل سے پاکستان کا حصہ بن گیا تھا ۔ عبد الحق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو سے مسلمان ہونے والا شخص تھا جس نے پاکستان کی خدمات کیلئے اپنے ادارے میں بیش بہا خدمات سر انجام دیں جن کی نظیر نہیں ملتی یہ الگ بات ہے کہ آج اصل ہیرو پسِ پشت ڈال دئیے گئے اور صرف چند لوگوں کو یاد رکھا جا تا ہے ۔ میں یہاں صرف ان کی ان خدمات کا ذکر کروں گا جو انہوں نے پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کیلئے انجام دیں۔ وہ اس وقت سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے طور پر ملک کی خدمت کر رہے تھے اور کراچی سے اسلام آباد دارالخلافہ کا منتقل ہونا بھی انہیں کی دو ر اندیشی اور سفارشات کی بدولت تھا ۔ کیونکہ کسی بھی ملک کا دارلخلافہ سمندر کنارے نہیں ہو سکتا اس میں عسکری خطرات کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عبد الحق ایک بڑا ذمہ دار تھا اور بڑے امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ اسے ملازمت کی ضرورت نہیں تھی اور اس نے آزادی کے بعد ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کو اپنی زمینوں پر نہ صرف آباد کیا ، زمینیں ان کے نام منتقل کروائیں بلکہ شہر کی آباد کاری کیلئے بھی اپنی تمام تر جائیداد یں خرچ کر دیں اور لوگوں کو اچھی زندگی سے بہرہ مند کروایا ۔ سب توفیقات تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتیں ہیں لیکن توفیق بھی مانگنے والے کو ملتی ہے ۔ اس کی خلقِ خدا سے یہ محبت تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس سے عظیم کام لیا اور پاکستان جیسے ملک کی خدمات کیلئے بھی اسے چنا ۔ انہوں نے چند مسلمان افسران محمود صاحب ، اور عارف صاحب جیسے لوگوں کے اصرار پر مقابلے کا امتحان پاس کیا اور کامیابی کے بعد ملک کی ترقی کیلئے ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ ان کے اخلاق کی وجہ سے نہ صرف ان کے اپنے اداروں بلکہ دیگر اداروں میں بھی ان کی اچھی ساکھ تھی ، اس وقت کے سعودی سفیر جو شاہ فیصل کے قریبی رشتے دار تھے بھی ان کے اخلاق و محبت کی وجہ سے ان کے دوست بن گئے اور وقتاََ فوقتاََ تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا، اس تعلق نے پاکستان کیلئے کام آنا تھا یہ بات لازمی قدرت جانتی تھی۔ پینسٹھ کی جنگ کے آثار نمودار ہونے لگے ، اقوامِ متحدہ کا پریشر پاکستانی اتحادیوں پر بڑھنے لگا ، خاص طور پر سعودی عرب کو امریکی سفیروں نے دھمکیاں دینی شروع کر دیں ، پیٹرولیم کے کاروبار کو خطرہ لاحق ہو گیا جس پر سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تھا ۔ سعودی عرب کے سفیر کو چند دن قبل ہی بدل دیا گیا ، جنگ شروع ہو گئی، ملک کیلئے عوام اور فوج نے شانہ بشانہ مال اور من، بدن سے حریف کے خلاف جنگ کی لیکن مال اتنا نہیں تھا کہ حملہ آور دشمن جو تعداد و طاقت میں کئی گناہ بڑا تھا کا مقابلہ کیا جا سکتا ۔ اسلامی ممالک سے رابطے کئے گئے ، سعودی عرب نے ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا تھا مگر مجبور ہو گیا ، اور پاکستان کو تیل و دولت سے امداد کرنے سے گریزاں رہا ۔جب صدر ایوب خان کو اس بات کا علم ہوا تو انہیں بڑی تشویش لاحق ہوئی ، انہوں نے تمام سیکرٹریز کی میٹنگ طلب کی جس میں عبدالحق بھی شامل تھا،ان کے ساتھ مشاورت ہوئی تو عبد الحق نے شیخ عبدا ﷲ سے اپنے مراسم کے بارے میں بتایا اور یہ کام اپنے ذمے لے لیا کہ سعودی حکومت کو وہ کسی بھی صورت قائل کر لے گا۔ عبدالحق نے شیخ عبداﷲ سے رابطہ کیا جو یہاں کے سفارت خانے سے واپس جانے کے بعد سعودی عرب کے وزیر داخلہ بن گئے تھے ، انہوں نے عبدالحق کو بتا یا کہ سعودی حکومت پر بہت زیاہ پریشر ہے وہ سر عام امداد دینے سے قاصر ہے لیکن عبد الحق کے اصرار پر سعودی حکومت پسِ پردہ امداد دینے کیلئے رازی ہو گئی اور پاکستان کو روسی ساخت کا اسلحہ خرید کر دینے اور تیل کی فراہمی جیسی دیگر ضروری اشیاء کی امداد باہم پہنچائی جس کی وجہ پاکستان کا دفا ع یقینی ہو سکا ۔ عبد الحق ہندوستان کے ایک ذمہ دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جس کے والد کا نام کرتار سنگھ تھا، اور عبد الحق کا نام اوتار سنگھ رکھا گیا ، لیکن عبد الحق کی معرفت کی جانب پیش رو اور تگ و دو اسے اﷲ کے دروازے پر لے آئی اور اس نے معرفت کے ایک لمبے سفر کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور اس کی وجہ سے اس کے قریبی کئی اور لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا ۔ عبد الحق نے آزادی کے بعد اپنی تمام جائیداد ، مال و زر مہاجرین کی خوشحالی کیلئے وقف کر دیا اور اس کا صلہ کبھی حکومت سے نہیں مانگا۔ اسی طرح چیف سیکرٹری محمود اور سیکرٹری عارف جیسے لوگوں کی کہانیاں بھی ملتی ہیں جنہوں نے بغیر اجرت ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے دن رات تگ و دو کی ۔ 1965 کی جنگ میں کامیابی کا راز ہی یہی تھا کہ پاکستان سے محبت کا جذبہ صرف عوام میں ہی نہیں بلکہ اس وقت کے اداروں کے تمام ملازمین میں بھی اسی طرح تھا ، ان کیلئے پاکستان سے محبت ایمان کا حصہ تھا کیونکہ یہ ریاست کلمہ حق کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی اور اس چمن کو وجود میں لانے اور کھڑا کرنے کیلئے علمائے حق، مسلمان ماؤں ، بیٹیوں ، بچوں اور بوڑھوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا ۔ 6 ستمبر تجدید عہدِ آزادی ارضِ پاک اور حرمتِ شہدا کا دن ہے ۔ کسی بھی ریاست کے ستون اس کے ادارے ہوتے ہیں اور اگر ستون ہی کھوکھلے ہو جائیں تو عمارت کا کھڑا رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ جہاں پاک فوج اور عوام ملک سے محبت میں بے دریغ قربانیاں دے رہی ہیں وہی اداروں سے سے بھی درخواست ہے کہ قابل لوگوں کی قابلیت کو کیش کیا جائے ۔رشوت، چاپلوسی ، سفارش اور خوشامد آنہ ناسوروں کو جڑ سے نکال پھینکیں اور اپنی تمام تر قوت ملک کی بقاء ترقی اور خوشحالی کیلئے سرف کریں ۔ آج ملک کو محب وطن سپاہیوں کی ضرورت ہے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah: 33 Articles with 27516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.