وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ چوہدری اعتزاز احسن اور مولانا
فضل الرحمن میں سے کوئی ایک بھی دستبردار نہ ہوا اور پی ٹی آئی کے امیدوار
ڈاکٹر عارف علوی باآسانی صدارتی انتخاب جیت کر منصب صدارت پر پانچ سال کے
لیے فائز ہوگئے ۔ یہ سب کیسے ہوا۔اس کہانی کے پس منظر میں پیپلز پارٹی کے
قائدین کا کردار واضح نظر آتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مفادات کا کھیل
‘ پیپلز پارٹی سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔ شطرنج کی بہترین چالیں چلنے والے
آصف علی زرداری ہی سب پر بھاری نظر آتے ہیں ۔ اب بلاول بھی داؤ پیچ لڑانے
کے لیے میدان سیاست میں اتر چکے ۔ قومی الیکشن میں تحریک انصاف کی شاندار
کامیابی نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کو قریب کردیا ۔وہ شخص جس کی
زبان سے اکثر یہ الفاظ سننے کو ملتے رہے کہ سیاسی وعدے قرآن و حدیث نہیں
ہوتے ۔ وہ خود توسامنے نہیں آئے لیکن مسلم لیگ ن کو شیشے میں اتارنے کے لیے
اپنی دو نمبر قیادت کو آگے لگائے رکھا ۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت سپیکراور
ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن ووٹ ڈالے‘ جب وزیر اعظم کے انتخاب کی
باری آئی تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں بلکہ شہباز
شریف کو ملنے سے بھی مسلسل انکار کرتے رہے ۔اس توہین آمیز رویے پر ن لیگ کے
قائدین کا سیخ پاہونا فطری امر تھا ۔ بعد ازاں کسی مشورے کے بغیر چوہدری
اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کرکے ایک اور منافقانہ کھیل شروع
کردیاگیا ۔ ان کا پیغام محبت لیے پیپلزپارٹی کا مصالحتی وفد شہباز شریف سے
ملا اور اپنے امیدوار کے لیے حمایت مانگ لی ۔ شہباز شریف نے کہاہم پیپلز
پارٹی کے امیدوار کوووٹ دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اگر امیدوار تبدیل
کردیا جائے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو شاید آج منصب صدارت پیپلز پارٹی کے پاس
ہوتا لیکن آصف علی زرداری ایک ہی بات پر اڑ ے رہے کہ چوہدری اعتزاز احسن سے
زیادہ مستحق کوئی اور نہیں ۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے اگر کامیابی کا
ایک فیصدبھی یقین ہوتاتو زرداری خود صدارتی امیدوار ہوتے چونکہ انہیں پہلے
سے علم تھا کہ پیپلز پارٹی نے جس طرح ن لیگ سے بے وفائی کی تھی ن لیگ بھی
پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی ۔اس لیے انہوں نے اعتزاز احسن پر
ہی اصرار جاری رکھا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ن لیگ نے بھی اپنی حکمت
عملی بدلی اور مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار ڈیکلر کردیا ۔مولانا
فضل الرحمن چونکہ شکست کی وجہ سے دل برداشتہ تھے ‘صدارتی امیدوار بنتے ہی
پرجوش ہوگئے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کو
دستبردار کروا لے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور پی ٹی آئی کے
امیدوار ڈاکٹر عارف علوی آسانی سے صدر منتخب ہوگئے ۔ جس قدر شاطرانہ چالیں
چلنے میں زرداری مشہور تھے ‘ مولانا فضل الرحمان بھی کسی سے کم نہ تھے ۔
شہباز شریف کا تیر عین نشانے پر بیٹھا اورپیپلز پارٹی کی سولو پرواز نے ان
کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔کچھ لوگوں کایہ بھی خیال تھا اگر
اپوزیشن کا صدر بن جاتا تو عمران خان کو پھر ایک بہانہ مل جاتا کہ مجھے صدر
نے کام نہیں کرنے دیا ۔اب عمران خان کے راستے میں کوئی دیوار نہیں۔ نیا
پاکستان مکمل ہوچکا ۔اب پرفارمنس دینے کی باری عمران خان اور ان کی ٹیم کی
ہے ۔کہاجاتاہے باتیں کرنی آسان ہوتی ہیں لیکن ان پر عمل کرنا مشکل ہوتا
ہے۔بہرکیف کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور ان کی بہن
کے خلاف جو منی لانڈرنگ کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے
مسلسل تفتیش کررہی ہے ۔زرداری مقتدر حلقوں کی خوف سے زیادہ متحرک نہیں ہوئے
اور گھر بیٹھ کر ہی پیشین گوئیاں کرتے رہے ۔شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا
فیصلہ بھی کچھ ایسی ہی حکمت عملی کا مظہر تھا ۔کاروباری سمجھ بوجھ اور
شاطرانہ چالوں کے اعتبار سے زرداری اور بنئیے میں زیادہ فرق نہیں ہے دونوں
ایک ہی جیسی خوبیوں کے مالک ہیں ۔ ایک لڑکا چلتے چلتے زمین پر گر پڑا ۔
دیکھنے والے شخص نے بنیئے سے کہا تمہارا بیٹا زمین پر میں گرتے دیکھا اسے
زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ۔اس نے جواب دیا بینئیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا
ہے۔ اسی اثنا میں بیٹا بھی آگیا۔ بنیئے نے پوچھا تم زمین پر کیسے گرے ۔ اس
نے بتایا باپو.... زمین پر اشرفی پڑی نظر آئی اگر میں سب کے سامنے اٹھاتا
تو لوگ دیکھ لیتے میں نے گرنے کا بہانہ بنا کر وہ اشرفی اٹھالی اور کسی کو
پتہ بھی نہیں چلا ۔ بالکل یہی حال پیپلز پارٹی کے قائدین اور ان کے ٹولے کا
ہے۔ ان کی جیت اور ہار دونوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے ۔وہ سیاست
کے مہا گرو اور شطرنج کے بہترین کھلاڑی ہیں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا
کہ سندھ میں پہلے دو مافیا تھے جو ایک دوسرے کے مفادات سے ٹکرانے کی بجائے
اپنے اپنے دائرہ کار میں کرپشن ‘ قتل و غارت اور لوٹ مار کرتے ۔ ایک مافیا(
الطاف حسین )سے تو خدا خدا کرکے جان چھوٹ گئی لیکن دوسرے مافیا (زرداری
ٹولے) نے اپنے پنجے زمین میں کچھ اس طرح گاڑ رکھے ہیں کہ ان سے چھٹکارا
بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے کرپشن بھی کرتے اور کسی کو
بولنے بھی نہیں دیتے ‘اگر کوئی بات کرے تو برے کے گھر تک چھوڑکے آتے ہیں
جیسے آجکل شرجیل میمن کے کمرے سے ملنے والی شراب کو شہد کانام دے کر چیف
جسٹس کے چھاپے کو بھی ناکام بنا دیاگیا ہے اور سوشل میڈیا پر کتنے ہی جیالے
چیف جسٹس کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ
میں کس کی مجال ہے کہ وہ زرداری ٹولے کے حکم کی سرتابی کرے اور زندہ بھی
رہے ۔جیل ہو یا ہسپتال ہر جگہ ان کے ہرکارے موجود ہیں جو رات کو دن اور دن
کو رات میں بدلنے کے لیے ہر لمحے تیار رہتے ۔کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ
پپیپلز پارٹی شاید ہی کوئی رہنما ایسا ہو جو کرپٹ نہ ہو ‘ جس کا قبضہ مافیا
سے تعلق نہ ہو ‘ جو میٹر ریڈر سے اپوزیشن لیڈر نہ بنا ہو ۔ کسی ایک کی
ہسٹری نکال کر دیکھ لیں بند آنکھیں بھی کھلنے لگیں گی ۔شاید اسی وجہ سے
شرجیل میمن کے خلاف تحقیقات کو پنجاب میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے
۔ |