خودی اور جذبہ خودی بہت ہی گہرا فلسفہ ہے اور اس
فلسفہ کا اثر اقبال کی شاعری پر جا بجہ حاوی ہے اسی فلسفہ کے زریعے اقبال
نسل نوع کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ فلسفہ خودئ پر عمل پیرا ہو کر
اپنے اندر مرد کامل کی خصوصیات پیدا کریں۔ جیسے انہوں نے نہایت خوبصورتی سے
اپنی شاعری میں پیرو کر ہم تک پہنچایا ہے۔
جیسے اقبال یوں فرماتے ہیں
"میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر"
خودی ودیعت وجدان یا شعور کا روشن نقطہ ہے،خودی انسان کا مرکز حیات اور اس
کی شخصیت ہے،خودی قوت ادراک و فکر ہے، خودی شعور تخلیق ہے،خودی قوت ارتقاء
ہے اور خودی انسانی قوتوں کا وہ جوہر ہے جس نے اسے آدم سے انسان بنا کر
سجود ملاک بننے کا شرف بخشا۔
جزبہ خودی کے تحت ہی انسان زمین کی بستیوں سے اٹھ کر عرش کی بلندیوں تک
پہنچتا ہے قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو جب وہ پہچانتا ہے تو اسے اندازہ
ہوتا ہے کہ اسے کہ اندر لامحدود قوت تسخیر موجود ہے۔ انہی صلاحیتوں کو اگر
وہ استعمال میں لائے تو کامیابی یعقینی ہو جاتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں
کرتا تو بے حقیقت وجود بن کر رہ جاتا ہے۔
بقول اقبال
"تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی جو نہ رہی تو رسوائ"
جو لوگ بلند نصب العین اور مسلسل تگ و دور کو اپنی زندگی کا مشن بناتے ہیں
وہ اپنی خودی کے نقوش جہاں میں ثبت کروا کے اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔
تاریخ انسانیت پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کی تاریخ نے
بھی انہی ہستیوں کو دوام بخشا جنہوں نے خودی میں خود کو پیرو کر متاع حیات
قربان کر دیں لیکن اپنا سر کسی کے سامنے خم نہیں کیا۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچہھے بتا تیری رضا کیا ہے
اسی طرح حدیث پاک میں میں ارشاد ہے
"جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا"
یعنی کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آج کہ اس دور میں جہاں ہم بے پناہ مسائل
میں بری طرح گہیرے ہوئے ہیں خود کو پہچاننے کی کوشش کریں-
خودی انسان کی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کا نام ہے اور شخصیت کی تعمیر کا راز
اسی میں پوشیدہ ہے کہ اس کے دل میں بلند نصب العین کے حصول کی تڑپ ہو۔
لہذا ہمیں چاہئے اس شوق سفر اور خودی کے راستے کو اپنا کر اپنی زندگیوں کو
کامیابی سے ہمکنار کریں
|