کچھ صدیوں پہلے کا تو نہیں بلکہ پانچ سال پہلے کی بات ہے
جب ہم نے میڈیکل کالج میں قدم رکھا
عموماً ہر میڈیکل سٹوڈنٹ کی زندگی کا یہ وہ دور ہوتا ہے جب رشتہ دار اورنان
میڈیکوز دوست آپ کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور گھر میں کام کرنے والی
ماسی سے لے کر گلی محلے کے حمام اور کریانہ کی دکان والے اپنی کمزوری کی
وجہ اور گھٹنوں میں درد کی دوا پوچھتے نظر آتے ہیں...
کالج میں جہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی وہیں چند مہینوں میں کچھ سب
اسٹیجز اور اسٹیجز دینے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چاہے آپ کے اردگرد
لڑکوں کی جتنی بھی اقسام پائی جاتی ہوں “صنفِ نازک” کی ہر قسم ان پر بھاری
ہے اور اگر آپ میل کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں تو میل پروفیسر حضرات ازراہِ
محبت یا نفرت آپ کا تبادلہ “شودر” کیٹیگری میں کر دیتے ہیں...
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر آپ ہاسٹلائٹ ہیں تو جہاں “ڈے اسکوٹر”
آپ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور ہاسٹل لائف کی کہانیاں سنتے نظر آئیں گے
وہیں پروفیسر حضرات “ہاسٹل” کا نام سن کر ناک پر رومال اور منہ سے “لاحول
ولا قوت” پڑھتے ملیں گے....
ایک دو سال کے تیزی سے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا اور قت کے بدلنے کا تب
پتہ چلتا ہے جب اپنے اردگرد کچھ نئے مگر جانے پہچانے چہرے دیکھنے کو ملتے
ہیں،ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا،وہ تو بھلا ہو ہمارے ایک دوست کا جس نے
بتایا کہ “پیپل آر سیم”،بس ذرا رنگ اور روپ نکھار نکال لیا گیا ہے اور لوگ
اب “اِنوسنٹ جَٹ اور “پاپا کی پرنسز” کے دور سے نکل کر اپنا “لیول اَپ” کر
چکے ہیں، چنانچہ ہمارے دور کے گبھرو جوان بھی “جتوئی علی شاہد”،”ارسلان
مالک دولہ” اور “شاہد کبیرا” کے نام سے ابھرے اور ایسا اُبھرے کہ ابھرتے
ہوئے سورج کو بھی شرمانا پڑا.....
چوتھے اور پانچویں سال میں جہاں “کلینیکل ایکسپوئیر” سے واسطہ پڑا وہاں یہ
بات بھی “کرِسٹل کلیئر” ہوگئی کہ جو شخص اُٹھانے کا فن جانتا ہے،(اب چاہے
وہ کتابیں ہوں یا کوئی اور چیز) کامیابی اس انسان کے قدم چوم ہی لیتی ہے...
خیر جہاں پانچ سال کا سفر پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے وہیں ہر میڈیکل سٹودنٹ
اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے لمحات،کالج “کورٹ یارڈ” کے ہنگامے،”بیچ پارٹییز”
پروفیسر حضرات کی ڈانٹ اور ہاسٹل میس کا شور شرابا کبھی نہیں بھول
پاتے!!!!!
(ڈاکٹر عادل محمود)
(لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج) |