یکم محرم شہادت عمر فاروق رضی اللہ تعالی

لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کی پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے (1) مہاجرین (2) انصار(3) اعراب(4)وہ اہل عرب جو اور شہروں میں جا کرآباد ہو گئے ہیں۔ (5)اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی،پارسی جو اسلام کہ رعایا تھے) پھر ہرایک کے حقوق کی تصریح کی۔

قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبداللہ اپنے بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ مجھ پر کتنا قرض ہے ۔معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم ۔فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں تو کل قریش سے -لیکن قریش کے علاوہ کسی اور کو تکلیف نہ دہنا-( یہ صحیح بخاری کی روایت ہے)لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کا مکان خرید لیا جس سے قرض ادا کیا گیا-( فتح الباری
حضرت عُمر رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد فوت ہوئے اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے -نماز جنازہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی- 
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا - اور آفتاب عالم تاب خاک میں چھپ گیا-
اللہ اکبر

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی۔آپ کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔
آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و*کنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے.
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.
ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا
عمر ابن الخطاب ، رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمايا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
مزید ایک موقع پر فرمايا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا فاروقِ اعظم کی مثال فرشتوں میں جبریل امین کی طرح ہے جو خدا تعالی کا عذاب دنیا میں خدا کے دشمنوں پر لاتے ہیں اور پیغمبروں میں اسکی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے اپنی نا فرمان قوم کے بارے میں فرمایا و قال نوح رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا ترجمہ: اور نوح علیہ السلام نے عرض کی اے پروردگار زمین پر کافروں کو بستا ہوا نہ چھوڑ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جنہوںنے فرعون اور فرعونیوں کے بارے میں فرمایا تھا: ربنا اطمس علی اموالہم و اشدد علی قلوبہم فلا یؤمنوا حتی یرو العذاب الالیم ترجمہ: اے مولا ان کے مالوں کو مٹا ڈال ان کے دلوں میں سختی پیدا فرما وہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھیں۔
اس سےفاروقِ اعظم کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے جس طرح نوح اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کفار کے حق میں سخت تھے اسی طرح آپ بھی کفار پر سخت تھے اشداء علی الکفار آپ کا خاصہ تھا۔ آپ کے فضائل بے شمار ہیں۔
حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ابھی ابھی میرے پاس جبریل امین آئے میں نے ان سے کہا اے جبریل آج عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال خدا تعالیٰ کے احکامات کی تبلیغ کرتے رہے اگر میں بھی اتنا عرصہ دنیا میں رہ کر فاروق اعظم کے فضائل بیان کروں تو ان کے فضائل ختم نہ ہوں۔ (ص ۸۰ الصواعق المحرقہ ص۴۶ تاریخ الخلفاء)
آپ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ یک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ اپنے فرزند کوبلا کر کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤاوراس کہو کہ عُمر آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن آج میں عُمر رضی اللہ عنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دوں گی۔ عبداللہ واپس آئے ۔لوگوں نے حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اورکہا کیا خبر لائے؟ انہوں نے فرمایا جو آپ چاہتے تھے ۔ فرمایا کہ یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔
یکم محرم کو ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھارہے تھے۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔
اس نے ایک دن حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ مغیرہ بن شعبہ نے مجھ سے بہت بھاری محصول مقررکیا ہے ۔ آپ کم کرا دیجئے ۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے تعداد پوچھی ۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم (قریبا سات آنے ) حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو کونسا پیشہ کرتا ہے ۔ بولا کہ بخاری، نقاشی ، آہنگری۔ فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم کچھ بہت نہیں ہے ۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا آیا۔
دوسرے دن حضرت عُمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا ۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں سیدھی ہو چکتی تو حضرت عُمر رضی اللہ عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کرتے تھے ۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عُمر رضی اللہ عنہ امامت کے لئے بڑھے اور جونہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہ گھات سے نکل کر چھ وار کئے ۔ جن میں سےایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے فورا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف کا ہاتھ پکڑکر اپنی جگہ کھڑا کردیا اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔27 ذوالحجہ 23 ھجری 644 عیسوئ)
عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سامنے بسمل پڑے تھے ۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بلاآخر پکڑ لیا گیا اور ساتھ ہی اس نے خود کشی کرلی۔
حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کو لوگ اٹھا کر گھر لائے ۔ سب سے پہلے انھوں نے پوچھا کہ میرا قاتل کون تھا؟ لوگوں نےکہا کہ فیروز فرمایا کہ الحمد للہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعوٰی رکھتا تھا.
چنانچہ ایک طبیب بلایا اس نے نیسند اور دودھ پلایا اور دونوں چیزیں زخم کی راہ باہرنکل آئیں اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیے۔
اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا ، وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا ۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سے درخوست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے معاملے پر مدتوں غور کیا تھا اوراکثر سوچا کرتے تھے ۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں ۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطان و پہچان ہیں۔
غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہووہ خلیفہ منتخب کرلیا جائے -
جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ علی، عثمان،زبیر،طلحہ،سعد بن وقاص، عبدالرحمن بن عوف رضوان اللہ عنھم تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457988 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More