چیچہ وطنی کا بیٹا رانا وقاص (حصہ دوم)

‏دل کو درکار ہیں دلاسے نئے
ہوسکے تو اک ملاقات اور کر
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
میری ملاقات 2006 سے 2011 تک مسلسل رہی جب ملتا اسکی زبان سے میرے لیے ڈاکٹر صاحب نکلتا جو اپنا ہی الگ رنگ ؤ انداز رکھتا تھا میرے ساتھ بلکہ میں انکی گاؤں میں ڈاکٹری کرتا تھا میرا ایک چھوٹا سا کلینک تھا اسکا ماموں رانا عمر سعید پنجاب پولیس, چوہدری محمد اسلم, رانا عرفان, رانا زرین خاں کے علاوہ , رانا عباس, رانا فرخ نوید, اور مقامی گاؤں کی فٹ بال ٹیم کے کوچ راۓ اکمل کھرل اسکے دوست, چاہنے والے, اسکے لیے ہر پل دعا گو رہنے والے تھے.... میں جب انکے گاؤں کی فٹ بال ٹیم کا مستقل رکن بنا تو اسکا انوکھا کھیل, طریقہ گفتگو, چال ڈھال اپنی الگ اہمیت تھی.... میں نے اپنے تعلق کے دوران اسکو بہترین انسان, اچھا کھلاڑی, ساتھ نبانے والا, غریب کا خیال رکھنے والا محسوس کیا, مجھے آج بھی یاد ھے کہ جب بھی فٹ بال میچ کے لیے تیار ھو, کٹ کر میدان میں اترتا تھا تو لوگوں کی زبان سے ماشاءاللہ کی آواز بلند ھوتی تھی صرف اسکی جوانی و خوب صورتی کو دیکھ کر اور اکثر راۓ اکمل کھرل صاحب کو انکی نذر بھی اترتے دیکھا...
میٹرک کے جیسے ہی وہ کالج کی حدود میں داخل ھوا تو کالج کے نوجوانوں کو اپنا لیڈر, محسن, دوست, مددگار, مل گیا اور پھر رفتہ رفتہ حالات ؤ واقعات نے اسکی شخصیت کا رخ ہی بدل دیا اور وقاص, رانا وقاص, لالہ وقاص زبان زد عام ھوگیا,,,
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
دو ستمبر شام سات بج کر سنتالیس منٹ بلال کو ایک مسیج ملتا ہے کہ مجھے کال کرو ۔ یہ مسیج وقاص کی طرف سے تھا ۔ بلال جواب نہیں دے پاتا دوبارہ مسیج آتا ہے بلال تم جتنا جلدی ہو سکتا ہے مجھے اپنے پاس بلا لو ۔
میں تمھارے پاس آنا چاہتا ہوں۔
بلال نے جواب دیا تم فکر نا کرو انشاء اللّه جلد ہی تم یہاں یورپ میں میرے پاس ہو گے
وقاص اس وقت ایک دوست کے گھر ولیمہ کی دعوت میں موجود تھا ۔ وقاص نے پاس بیٹھے دوست سے کہا مجھے شادی ھال میں چھوڑ اؤ ۔
شادی ھال پچاس سکیند کے فاصلے پہ تھا ۔ دوست نے بائیک نکالا ۔ وقاص کھڑا گیٹ پہ انتظار کر رہا تھا ۔ اچانک اسکی نظر ایک داڑھی والے شخص پہ پڑی جسے وقاص پہلے بھی دو بار دیکھ چکا تھا ۔وقاص نے اپنے دوست کو کہا کہ یہ بندہ پچھلے کافی دن سے میرا پچھا کر رہا ہے ۔ دوست نے کہا پوچھ لیتے ہیں ۔وقاص کہنے لگا نہیں ابھی چلتے ہیں پھر اگر نظر آیا تو پوچھ لیں گے ۔
وہ آدمی فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا ۔جوں ہی بائیک 20 سیکنڈ کا فاصلہ طے کر کے آگے بڑھا ۔ سامنے سے بارہ لڑکےAK 47 کے ساتھ حملہ آور ہو گے ۔
وقاص نے بجاے بائیک کو وہاں سے لے جانے کے دوست کو دھکا دیا اور وہ آگے جا گرا ۔ اسے کہا تم نکلو یہ لوگ مجھے مارنے آے ہیں ۔
وقاص کے پاس اس وقت لا سنس پسٹل تھا ۔ اس سے پہلے کہ وقاص اپنی جان بچانے کے لئے فائر کرتا وقاص پہ فائر ہو چکا تھا ۔
جو اسکے بازو میں لگا ۔
وقاص نے اپنے بچاؤ میں فائر کیا جو سامنے ایک لڑکے کی ٹانگ میں لگا اسکے ساتھ ہی مسلسل فائرنگ شروع ہو گیئی ۔گولیاں وقاص کے سینے کو پار کر رہی تھی ۔ وقاص قریبی حمام کی دیوار کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔
حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور وقاص جو اب زندہ نا تھا ۔ گولیاں اسکی لاش پہ چل رہی تھی ۔
وقاص کو 42گولیاں لگی ۔ جس لڑکے کو وقاص کی گولی لگی شہزاد اور اسکے اپنے ساتھیوں نے اسی لڑکے کو AK47 سے برسٹ مارا تا کہ دونوں طرف سے 302 کا مقدمہ ہو ۔ لیکن اس لڑکے کو آٹھارہ AK47 کی گولیاں لگی جب کہ وقاص کے پاس پسٹل تھا ۔
8بج کر پانچ منٹ پہ بلال کو خبر ملتی ہے کہ وقاص کا قتل ہو گیا ہے ۔
بلال جو چند منٹ پہلے وقاص سے بات کر رہا تھا ۔ اسی جگری دوست کی موت کی خبر سن کر بے حال ہو جاتا ہے ۔
وقاص نے فرسٹ ستمبر کی رات کو تہجد کی نماز پڑھی تو سو گیا خواب میں میں کچھ ایسا دیکھا کہ صبح اٹھتے ہی اپنی بہین جو لاہور میں رہائش پذیر ہے اسے کال کر کے کہتا ہے میں بہت خوش ہوں ۔ اللّه مجھے نوازنے والا ہے ۔
وقاص یا اسکا رب جانتے ہیں کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا ۔
وقاص 22 دسمبر 1991 کو چیچہ وطنی میں پیدا ہوا ۔ گریجویٹ تھا ۔اور اپنے کالج میں طلبہ کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش تھا ۔جلد ہی سٹوڈنٹ فیڈ ریشن کا صدر بن گیا ۔ اسے دلوں میں گھر کرنا آتا تھا ۔ ایک بہادر اور حق کی خاطر ڈٹ جانے والا انسان تھا ۔ نفیس خوش اخلاق اور چھوٹے بڑے ہر انسان کی تمیز کرنے والا وقاص جھوٹ فریب اور برائی کے خلاف چٹان کی طرح کھڑا ہو جاتا ۔
آج سے تقریبا تین سال پہلے ایک دن وقاص اور اسکے دوست سڑک کے کنارے کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکی جو اکیڈمی میں جا رہی تھی اسکا ایک لڑکے کو پیچھا کرتے دیکھا ۔ وقاص نے اس لڑکے سے کہا تمہاری بھی بہین ہو گی اگر اسکے ساتھ ایسا ہو تو کیا کرو گے ۔
وہ لڑکا وہاں سے چلا گیا اور اپنے دوستوں کو ساری بات بتای ۔ یہ ایک گروپ میں دس سے بارہ لڑکے تھے انہیں شہزاد کندھاری لیڈ کر رہا تھا ۔ شہزاد کندھاری ڈکیت ہے جو شراب جوا اور برے اعمال میں پیش پیش ہے ۔
اگلے دن پھر شہزاد کے گروپ کے اسی لڑکے نے لڑکی کا پیچھا کیا ۔وقاص اور اسکے دو دوستوں نے اس لڑکے کی پٹائی کر دی ۔
جب شہزاد کندہاری کو معلوم ہوا تو اس نے وقاص سے ملنے کی بات کی ۔ وقاص اکیلا تھا اور شہزاد اپنے ساتھ سولہ بندے لے کر گیا معافی مانگنے ۔ وقاص نے کہا تم پوری فوج کے ساتھ مجھ نہتے پہ حملہ کرنے آے ہو یا معافی مانگنے ۔
وقاص بحریہ ٹاؤن لاہور میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ موجود تھا ۔ اس وقت شہزاد کے بندوں نے حملہ کر دیا ۔ وقاص کو کافی چوٹیں ایں ۔ لیکن وقاص بچ گیا ۔
دو مارچ 2018 کو وقاص پہ دوبارہ حملہ ہوا اور اسکی ٹانگ میں گولی لگ گیئی ۔ وقاص کے دوستوں نے شہزاد کے اس بندے کو پکڑ لیا اور پٹائی کی ۔
وہ بھاگ نکلا لیکن ان لوگوں نے وقاص کو مارنے کا منصوبہ بنا ڈالا اور آخر دو ستمبر 2018 کو وقاص کو مارنے میں کامیاب ہو گے ۔ لوگ جاے وقوعہ پہ پہنچ گے اور وقاص کو ہسپتال پہنچایا لیکن وقاص یہ دنیا چھوڑ کر جا چکا تھا خبر پہنچی تو گھر میں صف ماتم بچھ گیا ۔ گھر کا بیٹا شادی میں شرکت کرنے گیا تھا لیکن خون میں لت پت کفن میں لپٹا گھر کو لوٹ کر آیا ۔
افسوس ایک ماں کی گود اجڑ گیئی ۔ایک باپ نے جب اپنے کندھے پہ بیٹے کا جنازہ اٹھایا تو کمر ٹوٹ گیئی ۔بھائی نے جب کندھا دیا تو اسکا بازو جدا ہو گیا ۔ بہیں کا راج دھلا را دنیا ویران چھوڑ گیا ۔
ایک وقاص نہیں قتل ہوا پورا خاندان جیتے جی مر گیا ۔
اور قاتل ابھی بھی فرار ہیں.
تحقیق اور تحریر سدرہ ہاشمی صاحبہ کی ھے جسکو کچھ تبدیلی کے ساتھ آپکی نظر کیا ھے صرف اور صرف اپنے من کے درد کو ختم کرنے کی غرض سے.......
آباد مجھ میں تیرے سوا اور کون ہے؟
تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557936 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More