آزاد کشمیر میں آبی بجلی کے دو منصوبوں کے تباہ کن ماحولیاتی اثرات

آزاد کشمیر کا دارلحکومت مظفر آباددریائے نیلم سے محروم ہونے کے بعد آئندہ تین سال میں دریائے جہلم سے بھی محروم ہو جائے گا ۔ نیلم دریا پر قائم کر دہ960میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے '' نیلم جہلم پاور پراجیکٹ'' کی تکمیل سے نوسیری کے مقام سے مظفر آباد کے دومیل علاقے تک دریائے نیلم المعروف کشن گنگا ایک گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی بدبو دریا کے دونوں جانب محسوس کی جا سکتی ہے۔وادی نیلم میںنوسیری کے مقام پر دریا کا پانی ایک سرنگ میں موڑ دیا گیا ہے اور قلیل مقدار میں پانی کو اپنے بہائو کے مقام کی طرف چھوڑا جا رہا ہے۔مظفر آباد کی تمام سیوریج دریائے نیلم میں ہی ڈالی جاتی ہے اور اسی دریا سے مظفر آباد میں پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے۔دریائے جہلم پر بھی کوہالہ ہائیڈرو پراجیکٹ کے نام سے 1100میگا واٹ کے منصوبے پر کام جاری ہے جو تین سال بعد2021ء میں مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت 'مظفر آباد بارہمولہ روڈ پہ واقع سراں نامی علاقے سے دریائے جہلم کو ایک پہاڑی سرنگ میں ڈال دیا جائے گا جوکوہالہ سے 7کلومیٹر'اپ سٹریم' برسالہ کے مقام پر ختم ہو گی اور اسی جگہ پاور سٹیشن بھی قائم کیا جائے گا۔یہ دونوں منصوبے واپڈا کی ملکیت ہیں۔یوں اس منصوبے کی تکمیل سے مظفر آباد اور گرد و نواح کے وسیع علاقے نیلم دریا کی طرحدریائے جہلم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔بجلی پیدا کرنے کے نیلم جہلم منصوبے سے نوسیری سے لیکر مظفر آباد تک اکثر پہاڑی چشمے خشک ہو چکے ہیں اور اس منصوبے سے ماحولیات کی تباہ کاریاں با آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔

'نیلم نیلم منصوبے' کی تکمیل سے نوسیری سے مظفر آباد تک نیلم دریا کی ہیت ایک گندے نالے میں تبدیل ہونے سے پینے کے پانی ،سیوریج اور ماحولیات کی تباہی کے دیگر اثرات درپیش ہونے کی صورتحال میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا ۔اجلاس میں چیف سیکرٹری سمیت آزاد کشمیر حکومت کے اعلی افسران بھی شریک ہوئے۔متعلقہ محکموں کے سربراہان کی طرف سے اس تمام معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔تمام سیاسی نمائندوں نے اس اہم معاملے پر وزیر اعظم آزاد کشمیر کو اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بتایا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اس سنگین صورتحال سے آگاہ کریں گے اور انہیں تحریری سفارشات بھی پیش کی جائیں گی۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اجلاس میں کہا کہ '' پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی، پاکستان ہماری امیدوں کا محور و مرکز ہے، وزیراعظم پاکستان کے پاس یہ معاملہ لے کر جائوں گا ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ ہماری بات سنیں گے، اس میں جس کی بھی کمی کوتاہی رہی اس میں ساری حکومتیں شامل ہیں، اب ہم نے آگے دیکھنا ہے، اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے، دانشمندی سے بات کرنی ہے، کوئی بھی بات جس کا ہندوستان فائدہ اٹھائے وہ نہیں کرنی پاکستان میں لوگ ہماری بات سننے کے لئے بیٹھے ہیں، اس مسئلے کے حل کے لیے کلرک کے پاس بھی جانا پڑا تو جائوں گا،حکومت پاکستان کبھی بھی آزادکشمیر کے عوام کے مسائل سے صرف نظر نہیں کرے گی ،پاکستان کے ساتھ ہمارا نظریاتی تعلق ہے طریقہ اور سلیقے کے ساتھ آبی و ماحولیاتی مسائل کا تدارک کرائیں گے ،دریائے نیلم کا رخ تبدیل ہونے سے مظفرآباد میں سنگین بحران نے جنم لیا ہے ۔''

اجلاس میں شریک رہنمائوں، نمائندگان کی طرف سے کہا گیاکہ نوسیری سے مظفر آباد تک تین جھیلیں قائم کرنے سے بھی درپیش مسائل درست نہیں ہوں گے، نوسیری سے نیچے بھی آبادی آتی ہے، دارالحکومت کے پانی کا مسئلہ بہت سنگین مسئلہ ہے اس پر توجہ دیں، سیوریج ٹریٹ منٹ پلانٹ،ماحولیاتی آلودگی ،آبی آلودگی روکنی ہو گی نئی واٹر سپلائی سکیمز ڈیزائن کرنی پڑیں گی، ہمارے چشمے خشک ہو گئے کوہالہ پراجیکٹ کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہئے،مظفرآباد کے ان سنگین مسائل پراب مظاہرے لندن تک پہنچ گئے ہیں، وزیراعظم پاکستان مظفرآباد آکر دیکھیں آزادکشمیر کے عوام کو کن مشکلات کا سامنا ہے حالیہ آبی و مالیاتی بحران سیاسی قیادت کے لیے سوالیہ نشان ہے ،ہماری اپنی نالائقی ہے، زلزلہ کے معاملات بھی اسی طرح رہے سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کے 105منصوبہ جات میں سے صرف 30پر عملدرآمد ہوا ، مظفر آباد کو بچانا ہے تو کوہالہ پراجیکٹ کو بند کرنا ہو گا ،نوسو میگا واٹ کے لیے مظفرآباد کی ساری نیچر کو تبدیل کر دیا گیا ،ا لوڈ شیڈنگ ابھی تک جاری بلکہ زیادہ ہو گئی ہے، ہمارے ساتھ اچھا سلوک ہونا چاہئے تھا، پاکستان کو سرسبز و خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہم اپنے گھر بھی برباد نہیں کرنا چاہتے، ہم سب نے اس معاملے پر اپنا حصہ ڈالا ہے،یہاں اگر نفرت کی بات شروع ہو گئی تو پھر حالات شائد خراب ہو جائیں گے ،یہاں واپڈا والوں کے ملازم نہیں، ان کے مقبوضہ لوگ نہیں ہیں، ہم پاکستان کے حامی لوگ ہیں مگر اپنے گھر نہیں جلانا چاہتے، اعداد و شمار کے بجائے یہ بتایا جائے کہ زمین پر کیا ہوا ،وزیراعظم پاکستان سے رابطہ کر کے انہیں عوام کی تشویش اور سنگین مسائل سے آگاہ کیا جائے اورکوہالہ پراجیکٹ پر کام بندکروایا جائے، ہم سب اس میں قصوروار ہیں ،ایل او سی کے دونوں اطراف میں رہنے والے پاکستان کے وفادار ہیں ،مظفرآباد میں پانی کا مسئلہ ہوا ہے، چشمے پہلے ہی ختم ہو گئے ہیں،نیلم دریا کی حالت سب کے سامنے ہے، سیوریج ٹینکس سے بدبودار ہوا آ رہی ہے ، کوہالہ پراجیکٹ کو ہم سٹاپ نہیں کر سکتے ، اس کی شرائط پر بات کر سکتے ہیں، اپنی بات منوا سکتے ہیں ،نیلم جہلم کے اوپر واٹر باڈیز پریشر بنا تو واپڈا نے پیسے جاری کرنا شروع کر دیئے آزاد حکومت نے 4جھیلیں تجویز کیںاب 3باڈیز پر بات آ گئی ہے، اگر واپڈا پیسے نہیں دیتا تو اپنی اے ڈی پی سے اس پر اخراجات کریں تاکہ یہ کام فوری طور پر شروع کیا جا سکے،ہوا کا راستہ بند ہو گا پانی نہیں ہو گا تو درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا، واپڈا نے اب تک کتنے پیسے دیے اور کہاں خرچ ہوئے، پارک کے پیسے وصول ہوئے لیکن واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے کیوں نہیں آئے، وزیراعظم پاکستان کو دعوت دیں تو یہاں ضرور آئیں گے، یہ مظفرآباد کے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے،آزاد کشمیر متنازعہ علاقہ ہے بغیر معاہدے اور اسمبلی کو اعتماد میں لئے کام شروع کر دیا جاتا ہے تویہ ہماری نا اہلی ہے، اگر اس طرح کا کام ہندوستان کرتا تو ہم اس پر بہت بڑا پروپیگنڈا کرتے، پاکستان کی محبت میں ہم بات نہیں کرتے۔

تقریبا دو عشرے پہلے تک مظفر آباد میں دریائے نیلم کے کنارے وادی نیلم کے پرفضا ماحول کا منظر پیش کرتے تھے اور شہریوں کو نیلم دریا کے کنارے پر فضا پکنک پوائنٹ مہیا کرتے تھے۔ لیکن انسانی شر انگیزی سے یہ دریا بھی محفوظ نہ رہا اور اس کی تباہی کا عمل مقامی سطح پر ایک فرض کے طور ادا کرنے کی ایسی رسم چل نکلی کہ جس سے اس دریا کو کافی نقصان پہنچا اور اس کے کنارے انسانی قبضے،ناجائز تعمیرات اور گندگی کے مقامات بنتے چلے گئے۔نوسیری سے مظفر آباد تک دریائے نیلم میں پانی کی نمایاں کمی سے دریا کی خالی ہونے والی زمینوں پر قبضے کی کاروائیاں بھی تیزی سے جاری ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف کوئی کاروائی ہوتے نظر نہیں آ تی۔

واپڈا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے حوالے سے ماحول،پانی،سیوریج سمیت24منصوبوں کے لئے پانچ ارب روپے مختص کئے گئے جس میں شجر کاری،سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ،لاہار گلی نوسیری روڈ،پنجکوٹ پل،چھتر کلاس پارک،واٹر شیڈ منیجمنٹ،انوائرمنٹل منیجمنٹ،ووکیشنل ٹرننگ انسٹیٹیوٹ،،گریٹر واٹر سپلائی پلانٹ،واٹر سپلائی سکیمیںشامل ہیں۔واپڈا حکام کے مطابق ان کل24منصوبوں میں سے 19منصوبوں کے فنڈز،دو ارب روپے واپڈا نے آزاد کشمیر حکومت کو ادا کر دیئے ہیںاور باقی6منصوبوں کے فنڈز منصوبوں کے منظور شدہ پلان موصول ہونے پر ادا کئے جائیں گے۔یہ سارے منصوبے آزاد کشمیر حکومت نے مکمل کرنے ہیں اور اس کے فنڈز (واپڈاکے پاس) محفوظ ہیں۔واپڈ ا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے کے اثرات کے امور سے آزاد کشمیر حکومت کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ان منصوبوں کے لئے فنڈز کی فراہمی واپڈا کے ذمے قرار پائی اور اس کی تکمیل آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے ہر منصوبے کی طرح '' نیلم جہلم پاور پراجیکٹ'' کے لئے بھی واپڈا کی طرف سے ماحولیات کے تحفظ اور متاثرین کے حقوق کے حوالے سے کاغذی کاروائی پوری کی گئی لیکن پاکستان کے ہر ایسے منصوبے کی طرح عملی طور پر متاثرین اور ماحولیات کو قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اس کی ایک نئی مثال منگلا ڈیم کی توسیع کا منصوبہ بھی ہے جس کے متاثرین اب بھی کئے گئے وعدوں کے پورا کئے جانے کی خود فریبی پر مبنی امید سے متاثرہ حالت میں وابستہ ہیں۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بانڈی پوری کے قریب 330میگا واٹ کے کشن گنگا پاور پراجیکٹ کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے پانی کی کمی اور ماحولیات کی تباہی کے حوالے سے جو اعتراضات اٹھائے گئے،ان اہم امور کو خود نیلم جہلم منصوبے میں بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔انڈیا کے کشن گنگا پاور پراجیکٹ سے اسی سال مئی سے بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے۔انڈیا کے کشن گنگا بجلی منصوبے سے بھی مقبوضہ کشمیر کے بانڈی پورہ کے علاقوں میں اسی طرح کے تباہ کن ماحولیاتی نتائج درپیش ہیں جس کا سامنا اب نیلم جہلم بجلی منصوبے سے آزاد کشمیر کے مظفر آباد ڈویژن کو کرنا پڑ رہا ہے ۔

ہم ایسے بے حس اوروحشی طبیعت لوگ ہیں کہ جو کئی دریا دشمن ملک کو بیچ ہی نہیں دیتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں سے دریا کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتے ہیں۔اس کی ایک زندہ مثال دریائے نیلم ہے ۔ نیلم کبھی ایک دریا تھا لیکن اب اسے دریا کہنا '' کسر نفسی'' سے کام لینا ہی نہیں بلکہ غلط بیانی بھی کہلا سکتا ہے ۔ہمارا معاشرتی مزاج ایسا ہے کہ ہم کسی خرابی کے تدارک کی بروقت فکر نہیں کرتے ، خرابی کے تدارک کے موثر ذرائع استعمال نہیں کرتے لیکن جب خرابی کے نتائج درپیش ہوتے ہیں تو ہم اس کا ماتم بھر پور طور پر کرنے کو قومی فریضہ قرار دیتے ہیں۔لیکن ماتم جتنا بھی کیا جائے،اس سے مرنے والا واپس نہیں آ سکتا، ہاں شاید کچھ لوگوں کے ضمیر اس سے مطمئن ہو جاتے ہوں کہ '' ہم نے تو اپنا فرض پورا کر دیا''۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ دریائے نیلم نوسیری کے مقام پر زیر زمین سرنگ میں داخل ہو کر اپنا وجود ختم کر دیتا ہے۔ نوسیری سے آگے ،اس کے قدرتی بہائو کے راستے مظفر آباد کے دومیل دریائے جہلم میں شامل ہونے کے مقام تک یہ دریا نہیں رہتا ،ایک نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب مظفر آباد شہر کے لئے چاہے نیلم نالے میں پانی کی سطح قائم رکھنے کے لئے رکاوٹی پشتے تعمیر کر بھی دیئے جائیں،تب بھی یہ دریا نہیں رہے گا، ہاں ایک جھیل سی بن سکتی ہے لیکن اسے کوئی دریا نہیں کہے گا۔ہم پڑھے لکھے ،باشعور لوگ ہیں،دنیا کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل ہمارا ایک عام آدمی بھی شد و مد سے پیش نہیں کرتا۔یہاں براہمن کا وہ طریقہ واردات یاد آجاتا ہے کہ کسی کو قتل کر کے اس کے لاش پہ ماتم کرتے ہوئے واویلا کیا جائے کہ '' ہائے، ہمارے پیارے کو کون ظالم مار گیا''۔دریائے نیلم اب نیلم نالہ بن چکا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ دریائے نیلم کو اب نیلم نالہ کہا،لکھا اور سمجھا جائے۔ لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانے کی عادت کہیں ہمیں مجبور نہ کر دے کہ ہم ہٹ دھرمی سے پھر بھی اصرار کرتے رہیں کہ نہیں ہے تو یہ دریا ہی ، بس اس میں پانی ذراکم ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611593 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More