دہشت گردی، تنہائی اور بھوک (طالبان اور افغانستان)

طالبان کے زیر انتظام ، افغانستان کا اصل چہرہ۔۔جہاں دہشت گردی، بھوک اور تنہائی نے علاقائی استحکام کو شدید خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔
دہشت گردی محض گولہ بارود اور گولیوں کی گونج نہیں ، بلکہ انسانی معاشرے میں خوف ، انتہا پسندی اور نفرت کی وہ منظم یلغار ہے جو معاشرے کے ضمیر ، تہذیب اور مستقبل پر حملہ آور ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو صرف انسانی جانوں کا نہیں بلکہ قوموں کے اعتماد ، ثقافت اور ترقی کے خوابوںں کا بھی قاتل ہے۔جہاں دلیل دم توڑ دے اور اختلاف کو کفر کا فتوی مل جائے ، وہاں دہشتگردی نظریات سے نکل کر سروں کی فصل کاٹتی ہے۔افسوس اور تشویش اس امر کی ہے کہ برصغیر اور خاص طور پر افغانستان اور اس کے گردو نواح کا ماحول دہشت گردی کی ایسی مکدر فضا کی نذرہو چکا ہے جہاں عرصہء دراز سے مذہب، قومیت، سیاست اور معیشت کےنام پر معصوم انسانیت کو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔
خطہء افغانستان ،جو 1994 ءسے طالبان کی آماجگاہ بنا ، بد قسمتی سے آج انہیں طالبان نے افغانستان کو دہشتگردوں کے کھیل کا میدان بنا دیا ہے۔القاعدہ ، داعش خراسان (ISIS-K))اور تحریک طالبان پاکستان(TTP) جیسے گروہوں نے اس پورے خطے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس ملک کو بڑے دہشتگرد گروہوں کی پناہ گاہ ہونے کی حیثیت سے شدید انسانی اور سفارتی بحران کا سامنا ہے۔30 جولائی 2025 ءکوامریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرنو SIGAR) (کی شائع شدہ تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2020ء کے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کے حوالے سے یہ رپورٹ ایک تاریک منظر نامہ پیش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے جس سے افغانستان کا مستقبل سفارتی و معاشی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہوچکا ہے۔ شدت پسندوں کی فعال پناہ گاہوں کی وجہ سے بین الاقوامی امداد کا توازن ٹوٹ رہا ہے۔اور طالبان کی جابرانہ حکمرانی نے افغانستان کو دنیا سے الگ کر دیا ہے۔جس کا سب سے برا اثر افغانستان میں بسنے والے معصوم شہریوں پر پڑ رہا ہے ۔ جو ایک طرف جابرانہ نظام کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ،دوسری جانب غیر ملکی سفارت کاری نہ ہونے کے سبب کئی دہائیوں سے ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلنے سے قاصر ہیں۔
(SIGAR) رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2020 ء کے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے۔دوحہ معاہدہ محض ایک کھوکھلا دستاویز بن چکا ہےاس معاہدے میں طالبان نے بظاہر تو خطے میں امن کا نعرہ لگایا تھا مگر پس پردہ دہشتگردی کو مضبوط سہارا بھی دیا۔ اسی بنا پر اس خطے نے غیر ملکی پابندیوں کی صعوبت بھی جھیلی۔ حالیہ امریکی رپورٹ میں طالبان کے لئے واضح وارننگ ہے کہ طالبان 11/9 سے دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں کر رہے بلکہ اسے پروان چڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ افغانستا ن دوبارہ سابقہ اندھیر وں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی تعداد تقریباً 6000 سے 6500 جنگجوؤں پر مشتمل ہےجو مشرقی افغانستان میں طالبان کے زیر سرپرستی موجود ہیں۔القاعدہ کے مجازی رہنما سیف العدل ، افغانستان میں نیٹ ورک کو دوبارہ منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دیگر ممالک میں خلیاتی ساخت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مشرقی افغانستان میں تحریک طالبان کی موجودگی، اور طالبان کی سرپرستی علاقائی استحکام کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔ خاص طور پر پاکستان جو اس کے تشدد کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔طالبان کی کارروائیوں سے اس کی ساکھ اور سالمیت دونوں متاژ ہوتی ہیں۔طالبان نے انتہا پسند نیٹ ورکس کوختم کرنے کی بجائے انکی جڑیں مضبوط کی ہیں اور مزید وسعت دی ہے۔جس کی بنا پر افغانستان عالمی جہادیت کا نیا اعصابی مرکز بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔
طالبان رہنما بین الاقوامی سطح پر تو مقبولیت چاہتےہیں مگر اندرون ملک خواتین اور اقلیتوں پر قرون وسطی کی پابندیاں نافذ کر کےسفارتکاری کو یک طرفہ منافقت بنا دیا ہے۔غیر آئینی اور پامالی بنیادوں پر خواتین کا استحصال ، اقلیتوں اور سول سوسائٹی پر سخت پابندیوں کا اطلاق کیسا نظام عدل ہے؟ جبکہ دوسری جانب یہی طالبان نظام باضابطہ سفارتی شناخت کا متمنی بھی ہے۔اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کرنے والے طالبان نے خواتین کے نہ صرف حقوق کو پامال کر دیا ہے بلکہ عقلی اصولوں کے برعکس محض جذباتیت ، انتقام، انتہا پسندی اور منافرت نے خواتین کی معاشرتی و معاشی ترقی کی ہر امید کو بھی خاکستر کر دیا ہے۔تعلیم جو اسلام کی رو سے عورت کا بنیادی حق ہے ،لڑکیوں کو سکول جانے سے روک کر ان سے وہ بنیادی حق بھی چھینا جا رہا ہے۔طالبان جس نام نہاد اسلام کے نفاذکی بات کرتےہیں وہ اسلام کے حقیقی اصولوں کے برعکس ہے ۔ان کا مقصد محض ریاستی دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں۔
افغانستان کے معاشی اور اقتصادی پہلو کا احاطہ کیا جائے تو طالبان کی سفاکیت کی وجہ سے امریکی امداد بند ہونے اور اقوام متحدہ کے پروگرام مفلوج ہونے کے بعد 2 کروڑ 80 لاکھ افغان اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں ۔(SIGAR) رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والا انسانی بحران اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ پالیسی کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔سول سوسائٹی کو دبا کر اور بین الاقوامی اصولوں کو ٹھکرا کر طالبان نے قحط کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 3.7بلین ڈالر امریکی امداد مختلف بین الاقوامی چینلز کے ذریعے افغانستان پہنچائی جا چکی ہے تاہم اس کا اثر مستحکم نہیں ہوا۔حالیہ امریکی رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بین الاقوامی مالی بہاؤ، قیمتی انسانی امداد جیسے اناج، طبی سہولیات اور دیگر پروگراموں کے جاری رہتے ہوئے بھی طالبان کی مالی اور سیاسی قوت کو بڑھا رہے ہیں۔ چنانچہ اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر بین الاقوامی امداد کا سلسلہ ختم ہوا تو افغانستا ن کے عوام کا متقبل کیا ہوگا؟
امریکی رپورٹ نے داعش خراسان (ISIS-K) کو افغان سرزمین سے جنم لینے والا سب سے بڑا بین الاقوامی دہشتگرد خطرہ قرار دیا ہے جس کے ٹھکانے بدخشاں ، نورستان اور کنڑصوبوں میں ہیں۔ طالبان کے دعووں کے مطابق داعش خراسان مربوط وجود نہیں رکھتے مگر یہ ایک ایسی بھیانک حقیقت ہے جس سے طالبان نہ لڑنے کی سکت رکھتے ہیں نہ ساکھ۔داعش خراسان در حقیقت (Islamic State of Iraq and Syria-ISIS) کی ایک علاقائی شاخ ہے ،جو خاص طور پر افغانستان اور وسطی ایشیا میں فعال دکھائی دیتی ہے۔سابق طالبان ،تھریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور وسطی ایشیا کے دیگر جہادی گروپوں کے منحرف ارکان نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔داعش عراق و شام کی مرکزی قیادت نے اسےاپنی "ولایت " یعنی شاخ کے طور پرتسلیم کیا۔داعش خراسان ، طالبان سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں اور طالبان کے برعکس زیادہ وحشیانہ اور سخت گیر طرزعمل رکھتے ہیں۔ داعش اور طالبان کا باہمی اختلاف افغانستان او ر ملحقہ خطے کو حالیہ تناظر میں اور بھی زیادہ تشویشناک صورتحال کی پیش گوئی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
(SIGAR) کی حالیہ رپورٹ ایک بلند و بالا الارم ہے کہ افغانستان سنبھل نہیں رہا بلکہ شدت پسندوں کے کنٹرول میں انسانی حقوق ، امن یا شراکت داری کی پرواہ کئے بغیرسخت سے سخت ترہوتا جا رہا ہے۔دوحہ میں ہونے والی بات چیت کا نتیجہ کچھ نہ نکلا ۔ طالبان غیر ملکی فنڈز تو چاہتےہیں مگر داخلی اصلاحات کے بغیر ۔اسی دوغلی پالیسی نے انہیں دنیا کی نظر میں کھوکھلا کر دیا ہے اور آج دنیا طالبان کے اس رویے اور جھوٹے وعدوں سے تنگ آچکی ہے۔آج افغانستان کی باگ ڈور ریاستی مدبرین کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ مسلح نظریاتی شدت پسندوں کے ہاتھ میں ہےجن کے پاس سوائے جبر و تشدد اور جذباتی نعروں کے حکمرانی کا کوئی نقشہء راہ موجود نہیں ہے ۔
بلاشبہ طالبان کا حالیہ امیج افغانستا ن کو تو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے ہی چکا ہے ، مگر اندیشہ اس بات کا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں کے خلاف امریکی اور بین الاقوامی کارروائیاں جنوبی ایشیا کی ساخت اور شناخت دونوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ دہشت گردی ، تنہائی اور بھوک جو اس وقت افغانستان کا اصل چہرہ بن چکے ہیں اور اس ،تاریخی، مذہبی اور ثقافتی ورثے کی پامالی کے ضامن بن چکے ہیں، افغانستان کا دامن ان مسائل سے کیسے پاک ہو گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خطہ طالبان کی انتہا پسندی، خودغرضی، اور انانیت کی آڑ میں اقوام عالم کے لئے قصہء پارینہ بن جائے۔
تحریر: پروفیسر وسیم آکاش

 

Waseem Akaash
About the Author: Waseem Akaash Read More Articles by Waseem Akaash: 8 Articles with 5146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.