آپریشن سر بکف اور انسداد دہشت گردی

دہشت گردوں کی حالیہ کارروائیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا کامیاب آہریشن کے حوالے سے تبصرہ
کالم
عنوان: آپریشن سربکف اور انسداد دہشت گردی
تحریر: پروفیسر وسیم آکاش

سر زمین پاکستان ایک آزاد مسلم ریاست ہے، جسے خطے میں خاص تشخص اور مقام دلوانے کےلئےمسلمانان بر صغیر نے جانوں کے نذرانے پیش کیے اوریہ وطن عزیز آج تقریباً آٹھ دہائیوں بعد بھی اپنی سالمیت اور وقار پر سمجھوتہ کئے بغیر دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر جیسے خطرات سے نہایت سنجیدگی سے نمٹ رہا ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا معاشرتی زہر ہے جو صرف انسانی جانوں کا نہیں بلکہ قوموں کے اعتماد ، ثقافت اور ترقی کے روشن خوابوں کا بھی قاتل ہے۔قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے فوجی آپریشنز نے دہشت گردی کے ایجنڈے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ثابت کیاہے ۔ ضرب عضب، رد الفساد اور حالیہ آپریشن سر بکف ۔خطے میں امن و استحکام کے لئے کی گئی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔دہشتگردوں کے خلاف افواج پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہر آپریشن قربانی ، حوصلے اور عزم کی داستان ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ اور مضبوط کل کی بنیاد بھی رکھتا ہے ۔ پاکستان نےیہ جنگ محض بندوقوں سے نہیں بلکہ عوام کے اعتماد اور اتحاد سے جیتی ہے۔
آپریشن سر بکف نے سر زمین پاکستان میں موجود دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دیاہے کہ پاکستان انہیں اپنے عوام کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ حالیہ آپریشن بنیادی طور پر مساجد پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملوں کا منظم اور مضبوط جواب ہے۔باجوڑ اور دیگر قبائلی اضلاع میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ۔خاص طور پر فوجی قافلوں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔TTPاور اس سے منسلکہ گروہوں کی سرگرمیاں دوبارہ بڑھنے لگی تھیں ۔آپریشن سے پہلے علاقے میں بڑا حملہ ہوا جس میں کئی سکیورٹی اہلکار اور شہری شہید ہوئے۔یہ حملہ ایک واضح اشارہ تھا کہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانے محفوظ ہیں اور ان کے پاس وسائل بھی موجود ہیں۔ تاہم 29 جولائی 2025ء کو صبح 9 بجے لوئی موند، تحصیل بصر، ضلع باجوڑ میں آپریشن سربکف کا آغاز کیا گیا۔جہاں وفاقی اور صوبائی انتظامیہ نے 16 دیہات میں سیکشن 144 کے تحت تین روزہ کرفیو نافذ کیا۔31 جولائی تک کے اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں 17 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے تھےجبکہ 14 زخمی اور 4 گرفتار کر لیئے گئے ۔ان میں زیادہ تر افغان شہری تھے جو خوارج کی فتنہ انگیز تنظیم سے وابستہ تھے۔تاہم یہ آپریشن مستند انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیاگیا ۔جس میں صرف تصدیق شدہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ بے گناہ شہری محفوظ رہیں۔
یہاں یہ بات ضرور واضح کرتا چلوں کہ افواج پاکستان کا مقصد ہرگز شہریوں کے حقوق کی پامالی نہیں بلکہ ان کی جان ومال اور سکیورٹی خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا گیا۔تاہم باجوڑ کے عوام اس حوالے سے خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ صبح 5 بجےسے شام 5 بجے تک سخت کرفیو کے باوجود مقامی افرادنے پاک فوج سے بھرپور تعاون کیا ،ان کانظم و ضبط اور حمایت علاقے میں امن قائم کرنے میں سکیورٹی فورسز کی معاون ثابت ہوئی۔ ۔عوام کی حفاظت کے لئے مساجد کےلاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کئے گئے۔شہریوں کوگھروں میں رہنے اور آپریشن میں تعاون کرنے کی تلقین کی گئی جس سے جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔ مقامی افراد کی معاونت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ باجوڑ کے عوام شرپسند گروہوں سےتنگ آچکے ہیں۔اور وہ ہر صورت فتنہ خوارج سے نجات چاہتے ہیں۔
اس کے برعکس ریاست مخالف عناصر نے جھوٹی خبریں پھیلا کر نفرت کو ہوا دی اور تاحال دے رہے ہیں۔دہشت گرد آپریشن کے دوران مقامی گھروں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے اور مزاحمت کرنے والے شہریوں پر حملے بھی کر رہے ہیں۔ایک بزرگ شہری کو صرف اس لیئے گولی مار دی گئی کہ انہوں نے انہیں پناہ دینے سے انکار کیا۔بلاشبہ یہ عمل دہشتگردوں کےاصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ماموند تحصیل سے موصول ہونے والی حالیہ تصدیق شدہ فوٹیج سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد شہری گھروں کو ڈھال کے طورپر استعمال کر رہے ہیں۔ایک واقعے میں ایک خاتون نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جو ان کے شہری تحفظ اور جنگی اخلاقی اصولوں سے کھلے انحراف کو ظاہر کرتاہے۔
مگر اب مقامی آبادی فتنہ خوارج کےٹھکانوں کے خطرے سے باخبر ہے، اس حوالے سے وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں۔
آپریشن سربکف کے واقعاتی تناظر میں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس آپریشن کے خلاف PTM (پشتون تحفظ مومنٹ ) کامنفی پراپیگنڈہ اور اشتعال انگیز ی کو ہوا دینا دہشت گردوں کو ڈھال دینے کے مترادف ہے۔اور یہ عمل یقیناً پاکستان کی ساکھ کو کمزور کرتا ہے۔آپریشن کا ہدف براہ راست TTPکے دہشتگرد تھے ، عام شہری نہیں ۔جبکہ پی ٹی ایم مسلسل مسلح دہشتگردوں اور عام شہریوں کے درمیان فرق کو دھندلا رہی ہے۔ پی ٹی ایم کا بیانیہ غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے انتہا پسندوں کی حفاظت کرتا ہے نہ کہ پشتون عوام کی جان و مال کی۔پاک فوج ملک کے ہر انچ اور خصوصاً باجوڑ کے علاقوں کو عرصہ دراز سے دہشت گردی سے بچاتی چلی آرہی ہے۔ لہذا پاک فوج کی جانب سے لگائے گئے کرفیواور رابطوں کی بندش جنگی حکمت عملی کا معمول کا حصہ ہیں۔ کسی قسم کا ظلم یا جبر نہیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب دہشت گردوں کو چھوٹ ملتی ہے تو اس سے فائدہ صرف ملک دشمن عناصر ہی اٹھاتے ہیں۔پی ٹی ایم کو واضح کرنا ہوگا کہ اس جنگ میں وہ کس کاساتھ دے رہی ہے۔ ان کی طرف سے کیا گیا پراپیگنڈا مقامی امن کے لئے نہیں بلکہ بیرونی ایجنڈوں کے لئے کام کرتا ہے۔
PTMجس کا باقاعدہ آغاز 18-2014 کے درمیانی عرصے میں ہوا۔لیکن اس کی جڑیں 2014 کے بعد شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے نتیجے میں سامنے آنے والے مسائل سے ملتی ہیں۔منظور پشتین اور ان کے چند ساتھی جنہوں نے ابتدا میں فوجی چیک پوسٹوں ، لاپتہ افراد، بارودی سرنگوں اور پشتون علاقوں میں فوجی موجودگی پر سوالات تو اٹھائے مگر دہشت گرد حملوں کے حوالے سے ہمیشہ خاموشی اختیار کی اورحکومتی موقف کی حمایت کی بجائے مخالفت کی فضا قائم کر کے اندرونی خلفشار کو ہوا دی۔اور یہ بات پاکستان کی امن و سلامتی کو
خطرے میں ڈالنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان آرمی کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر(DG-ISPR) متعدد بار اپنی پریس کانفرس میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کا بیانیہ اور ٹی ٹی پی کا ایجنڈا ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر (Release Pashtoon Prisoners)اور (Stop Pashtoon Genocide) جیسے ہیش ٹیگز اکثر ٹی ٹی پی ہمدرد اور پی ٹی ایم کارکنان بیک وقت استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ غیر ملکی میڈیا میں پی ٹی ایم کے ترجمان اکثر پاکستان مخالف انسانی حقوق کی مہمات میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔جنہیں بعض اوقات بھارتی اور افغان میڈیا بھی بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔پی ٹی ایم کے بیانیہ سے فوج مخالف جذبات بڑھتے ہیں جو ٹی ٹی پی کو بھرتی اور عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔جبکہ اس سے پی ٹی ایم کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ فوجی آپریشنز اور چیک پوسٹوں پر عوامی ناراضی کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں بدلتی ہے۔اور یہ بات علاقائی بدامنی اور عدم استحکام کو فروغ دیتی ہے۔اور ملک دشمنوں کو سازشوں کے لئے ہموار ماحول فراہم کرتی ہے۔
سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیاں اور علاقائی امن و امان کو قائم رکھنے میں عوام کا کردار اس بات کا متقاضی ہے کہ خطے کو پرامن رکھنے کےلئے دہشت گردی کے خلاف زیرہ ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے۔اور علاقائی ساکھ کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ ملک و قوم کی سلامتی کے لیئے پاک فوج کا کردار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔ پاکستان کےخلاف بھارتی دہشت گردی کا حالیہ منہ توڑ جواب اس بات کی روشن دلیل ہے کہ پاکستان کبھی علاقائی خود مختاری اور سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ ، چائنہ اور دیگر ممالک کی طرف سے پاک افواج کی فوری اور مثبت کارروائیوں پر خراج تحسین پیش کرنا ، پاکستان کے تشخص اور وقار کو دنیائے عالم میں نئی پہچان دے چکا ہے۔
دہشت گردی ہو یا کسی بھی حوالے سے ملک دشمن سازشیں ، پاکستان نے ان کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم کر رکھا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج ، ملک کے ہر گوشے میں شہریوں کے حقوق اور جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہے۔ مگر کسی بھی صورت میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو اس پاک سرزمین پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمیشہ زیرو ٹالرنس پالیسی کو ہی مد نظر رکھا جائے گا۔دہشت گرد یہ جان لیں:کہ یہ پاکستان ہے، یہاں امن کا پہرہ دینے والے پا ک فوج کے شہید بھی ہیں اور غازی بھی ۔ جو قوم اپنے شہیدوں کے کفن کو پرچم سمجھتی ہے، اسے کسی دہشت گردی کا خوف شکست نہیں دے سکتا۔جس پاک فوج نے اٹھہتر برس سے اپنے خون سے سرحدوں کی حفاظت کی ہے، وہ دہشت گرد وں کو اپنی حدود میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دے گی۔دہشت گردوں کی مانگی ہوئی گولیاں تو ختم ہو سکتی ہیں مگر پاک فوج کے جواں مرد سپاہیوں کے حوصلوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔آپریشن سر بکف ۔۔ دہشت گردوں کے لئے ایک بار پھر واضح پیغام ہے، کہ اس پاک سرزمین میں امن کو للکارنے والا ہمیشہ تاریخ کے کچرہ دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔دشمن کی بندوق میں گولی ہو یانفرت ،پاکستانی سکیورٹی فورسز دونوں کو مٹاکر امن کا پرچم لہراتی رہیں گی اور دہشت گردوں کے خلاف ہر محاذ پر برسر پیکار رہیں گی۔

 

Waseem Akram
About the Author: Waseem Akram Read More Articles by Waseem Akram: 9 Articles with 5199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.