بلوچستان میں حقیقی ترقی کے ثمرات عوام تک تبھی پہنچ سکتے
ہیں کہ جب وہاں کے لوگوں کے اذہان سے احساس محرومی کو حتم کیا جائے۔ احساس
محرومی ایک ہی قوم کے افراد کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتا ہے اور انہیں
دشمنوں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔اس کی واضح مثال بنگلہ دیش کا سانحہ
بھی ہے جسے بھلانا ممکن نہیں مگر ہم نے پھر بھی بھلا دیا اور بلوچستان کے
معاملے میں پھر اسی روش پر چل پڑے ۔ مجھے یاد ہے کہ 2009 میرے آفس کولیگز
میں ایک کا تعلق بلوچستان سے تھا۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ لاہور میں رہائش
پذیر تھے۔معمولی درجے کی ملازمت مگر بقول ان کے انہیں بلوچستان میں یہ بھی
میسر نہیں تھی۔ اس لئے انہیں لاہور شفٹ ہونا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو
اگر ہمارے لوگوں کے مسائل دیکھنے ہیں تو ادھر کا چکر لگا کر دیکھیں تو پھر
آپ کو پتہ چلے گا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں کی جارہی
ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو کہ ان کے حقوق غصب کرتے ہیں اور پھر نعرہ بھی
ملکی سلامتی کا لگاتے ہیں۔
ملکی سلامتی نعروں سے نہیں، حب الو طنی کے سچے جذبات کی آبیاری سے جنم لیتی
ہے اور پھر تشکیلی صورت اختیار کرتی ہے۔ افسوس ہمارے سیاست دانوں کی حب
الوطنی کا معیار ان کے مفادات سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔
ماضی کے ادوار پر نظر ڈالیں تو ہمیں بلوچیوں کے ساتھ بھی اپنی حکومتوں کا
یہی رویہ نظر آتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو ان کے اپنے علاقے کے وسائل سے
تو محروم رکھا گیا مگر دوسرے علاقے کے لوگوں کوان کے وسائل پر تصرف کا حق
دیا گیا۔ اس مثال کو اس بچے کی طرح بھی لیا جاسکتا ہے کہ جس کے اپنے گھر
میں تو دودھ کی نہریں بہتی ہوں مگر اسے اپنے دودھ کے لئے باہر نکلنا پڑے۔
اب اگر ایک قدم آگے بڑ ھایا ہے تو خدا کرے کہ یہ واقعی وہ قدم ہوجو کہ
بلوچیوں کے لئے خوش آئند ہو۔گوادر کی ترقی کی باتیں ہو رہی ہیں اور اسے
بلوچستان اور بلوچیوں کی ترقی کے لئے سنگ میل قرار دیا جا ریا ہے۔حقیقتاً
اگر ایسا ہو تو اس قوم کا احساس محرومی ختم کرکے اسے پاکستان کے دیگر صوبوں
کے لوگوں کے ساتھ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔احساس محرومی بچوں کو گھر سے نکلنے پر
مجبور کر دیتا ہے۔یہ اور بات ہے یا بعد کی بات ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد
کوئی بچہ در بدر ہوتا ہے یا کسی اچھے ٹھکانے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ یا تو
حالات ہوتے ہیں جو بچے کو قدم گھر سے باہر نکالنے پر مجبور کر دیتے ہیں یا
پھر ایسے لوگ جو اس کے دماغ میں زہر بھرتے رہتے ہیں۔
ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو کچھ تو نظراندازی
نے بددل کیا اور رہی سہی کسر ان کے دل ودماغ میں زہر بھرنے والوں نے پوری
کردی۔بلوچستان میں بھی ہم اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔یہاں کے لوگوں
کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے بھی دشمن کو ایک ساز گار فضا میسر ہے۔
گوادر پراجیکٹ سے اگر اس خطے کے لوگوں کو خوش حالی کی کچھ امید قائم ہوئی
ہے تو اس امید کو یقین میں بدلنا ہماری حکومتوں کا کام ہے۔جنہیں اپنے
مفادات کے یقیننی تعین کے بغیر اس خطے کے لئے سوچنا اور کام کرنا
ہوگا۔اگرچہ موجودہ دور کی حکومت دن رات گوادر پراجیکٹ سی پیک منصوبے کو
بلوچیوں کی قسمت بدل دینے والا منصوبہ قرار دے رہی ہے اور صرف بلوچیوں کی
ہی نہیں،بلکہ پورے پاکستان کی قسمت بدل دینے والا شگون قرار دیا جاریا
ہے۔کیا اس امر پر واقعی یقین کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات کو وقت ثابت کرے گا۔
حکومت کے اعلانات کے مطابق گوادر پراجیکٹ خطے کے لئے مثالی کردار کرے
گا۔وزیر اعظم کے مطابق اس پراجیکٹ کی وجہ سے پاکستان ایشیا کا ٹائیگر اور
بلوچستان پاکستان کا ٹائیگر بنے گا۔اتنے بڑے پراجیکٹ کی تکمیل سے یہ توقع
تو رکھنی چاہیے کہ یہ کم از کم بلوچیوں کی قسمت تو بدلے گاجو کہ برسوں سے
زیادتیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
بہترین یونیورسٹیوں،جدید ہسپتال،گلیوں اور سڑکوں کے لئے کروڑوں کے فنڈز اگر
صرف اعلانات تک محدود نہ رہیں تو اس علاقے کے لوگوں کو بھی جائز مراعات مل
سکتی ہیں جو کہ انہیں برسوں پہلے ملنی چاہیے تھیں۔اگر وہ انہیں مل جاتیں تو
علیحدگی پسندوں کے گروہ جنم نہ لیتے جن کے دل میں پاکستان کے لئے نفرت کے
ذخیرے ابل رہے ہیں اور انہوں نے اس ذخیرے میں کئی لوگوں کو ڈبویا اور وہ
بھی اپنے ہی وطن میں علیحدگی کے راستے پر چل پڑے۔جس کی وجوہات میں وہی
محرومیاں ہیں جن کا سامنا انہوں نے سالوں کیااو اس بات کا شکوہ بھی کیا مگر
ان کے شکوے دور نہیں کیے گئے یہاں تک کہ ان لوگوں کے محروم جذبات سے فائدہ
اٹھانے کے لئے ملک دشمن عناصر نے اپنے اپنے حربے آزمائے اور پھر انہی لوگوں
نے اپنے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا لئے جن کا کام ملک کا دفاع کرنا تھا۔۔وطن
کے باسی جب اپنے ہی وطن کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو اس کے پیچھے ہمیشہ بڑے
ٹھوس محرکات ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے عسکریت پسندوں کو بھارت اور اسرائیل سپورٹ کرتے ہیں۔اس میں
پیسے کا عمل دخل بھی موجود ہے مگر طویل عرصہ سے محرومیوں کی داستان اپنی
جگہ ہے۔ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ہم آزادی اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ
ہماری آزاد ریاست کو تابع اور محکوم بنا دیا گیا اور ہمارے لئے غلامی میں
رہنا ناممکن ہے۔
عسکریت پسندوں کی اس سوچ کے پس پردہ محرکات ڈھکے چھپے نہیں۔جب اپنے ہی ملک
میں آپ کو روزگار،تعلیم،صحت اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جائے اور اس
کے مقابلے میں دوسرے صوبوں کو بہتر سہولیات میسر ہوں تو ملکیت اور غلامی کے
تصورات جنم لیتے دیر نہیں لگتی۔پھر حاکم اور محکوم بھی واضح ہوجاتے ہیں۔
اب اگر بلوچستان پر توجہ دی جارہی ہے یا پھر بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت
کے باعث ہم اس پر توجہ دینے پر مجبور ہوگئے ہیں تو ہمیں ماضی کی تمام
غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا،،اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم عسکریت پسندوں کی
تعداد کو بڑھنے سے نہیں روک سکتے اور نہ ہی کسی آپریشن سے کنٹرول کر سکتے
ہیں۔
بجلی کے منصوبے،سڑکوں کی تعمیر،تعلیم وصحت کی بہتر سہولیات۔۔۔انہیں یہ
احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ اس پاکستان کا حصہ ہیں جس کے دوسرے صوبوں کو بھی
یہی سہولیات میسر ہیں۔
اگر بلوچستان کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے تو اس میں اس کی سونے جیسی زمین
کا دخل زیادہ ہے لیکن اب یہ حکومتوں کا فرض ہے کہ اس سونے سے زیادہ قیمتی
زمین میں مالکان کو بھی حصہ دار بنایا جائے۔لوگوں کے حقوق کی بات کرنے سے
زیادہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔باتیں تو برسوں سے کی جارہی ہیں۔
بلوچستان کے لوگوں کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا۔اگر ان تحفظات اور اندیشوں
کو دور نہ کیا گیا تو یہ منصوبہ جاتی عمل بھی ان لوگوں کی نظر میں متنازعہ
بن سکتا ہے۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے لوگ پانی کی کمیابی کے مسئلے سے
بھی دوچار ہیں۔معاش سے زیادہ پانی کی فکر ،انہیں ترقی کی کس نہج پر لے کر
جا سکتی ہے۔پانی کی اس کمی کو دور کرنے کے لئے ڈ یم تو بنائے جا رہے ہیں
مگر ان کا حشر صدر مشرف کے سمندری پانی سے نمک نکالنے کے ناکام منصوبے جیسا
ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان پر ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہ
یہ نہ تو تاخیر کا شکار ہوں اور نہ ان کی ناکامی کا اندیشہ ہو۔
ریاست کے باغیوں کی تعداد میں اگرچہ فوجی آپریشن کے بعد خاطر خواہ کمی آئی
ہے۔مگر اس مسئلے کا مستقل حل سسٹم کو ٹھیک کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔مدارس کی
رجسٹریشن ونگرانی، ہتھیاروں کی آزادانہ نقل وحرکت کو روکنا، سرحدوں پر
نگرانی ،بلوچستان میں خفیہ گزرگاہوں کو روکنا بہت ضروری ہے۔
بلاشبہ ہماری فوج کی گرفت اب خاصی مضبوط ہے مگر ہمیں دشمن کی تمام چالوں کا
توڑ کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم
بلوچستان کی علاقائی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی علاقائی سیاست کو بھی مدنظر
رکھیں۔اس کی پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر ہم بلوچیوں میں حقیقی اپنائیت کو فروغ
دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ |