آر پار تجارت کے 10 سال

کشمیر کی جنگ بندی لائن کے زریعے آزاد اور مقبوضہ جموں و کشمیرکے مابین 60سال بعدشروع ہونے والی تجارت کے دس سال 21 اکتوبر2018کومکمل ہورہے ہیں۔گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے یہ تجارت بند رہی اور اس کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ 2015 سے دسمبر 2017تک چکوٹھی سے 3432کروڑ روپے بھارتی کرنسی میں تجارت ہوئی۔یہ بات محبوبہ مفتی حکومت کے وزیر انڈسٹریز نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں بتائی۔ اب وہاں گورنر راج ہے۔سابق وزیر بتا رہے تھے کہ اوڑی چکوٹھی سے مقبوضہ کشمیر کے تاجروں نے 1274کرو ڑ روپے کی تجارت ان تین برسوں میں ہوئی اورآزاد کشمیر کے تاجر اس پوائینٹ سے 1093کروڑ کی تجارت کر سکے۔ تین سال میں چکاں دے باغ پونچھ ٹریڈنگ پوائینٹ سے مقبوضہ کشمیر کے تاجروں نے 402کروڑ روپے اور آزاد کشمیر کے تاجروں نے 662کروڑ روپے کی تجارت کی۔مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے بھارتی وزارت داخلہ سے مزید 21اشیاء کی تجارت کی منظوری کے لئے کہا ۔ اس کا فیصلہ پاک بھارت سفارتی پروٹوکول کے عمل سے ہونا ہے۔ سرینگر حکومت سات مزید پوائینٹ سے تجارت کرنے کی سفارش کرتی ہے۔ اس کا اظہار مقبوضہ اسمبلی میں کیا گیا ۔ یہ سب بھی پاک بھارت حکومتوں نے کرنا ہے ۔۔ ورکنگ گروپس نے بھی اس کی سفارش کی ہوئی ہے۔ دس سال گزرنے کے باوجود بینکنگ سہولیات فراہم نہیں کی جا سکی ہیں۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں جموں و کشمیر بینک اور بینک آف آزاد کشمیر سے خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ تجارت لا تعداد حدود و قیود میں لپٹی ہوئی ہے۔دس سال بعد تجارتی سرگرمیوں کی تازہ صور ت حال کیاہے؟اس تجارت میں کس کو نفع ہوا اور کسے نقصان پہنچا؟پاکستان اور بھارت نے کیا کھویااورکیا پایا؟سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ اس سارے عمل سے کشمیریوں کو کیا ملا؟اس طرح کے متعدد سوالات جواب طلب ہیں۔اس سلسلے میں مظفر آباد ،میر پور،راولپنڈی اور اسلام آباد کی منڈیوں میں صورت حال کا جائزہ لینے سے درست معلومات سامنے آجاتی ہیں۔سرینگر،جمو ں یا دیگر بازاروں میں کیا صورت حال ہے۔اس بارے میں یہاں کے عوام کے پاس معلومات پہنچنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر سے آزاد کشمیراورپاکستان کا مواصلاتی رابطہ ہندوستانی حکومت نے بند رکھا ہوا ہے۔جس کی وجہ سے آر پار تجارت کو سب سے بڑا دھچکا لگ رہا ہے۔فون سروس کی یک طرفہ بندش تجارت کی کامیابی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مال بردار ٹرکوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ کسٹم حکام مال بردار ٹرک ضبط کر لیتے ہیں۔ جن میں کروڑوں روپے مالیت کا سامان گل سڑ جاتا ہے ۔ اس کے خلاف ٹریڈرز نے طویل احتجاج کیا۔ 25دن تک یہ تجارت بند رہی۔ اس کے بعد تاجروں نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو ایف بی آر کے چیئر مین سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنے مسائل رکھے۔ چیئر مین صاحب کی یقین دہانی پر اب منگل سے یہ تجارت دوبارہ شروع ہو گی۔ مزید یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک ٹرکوں کے سکینرز نصب نہیں کئے گئے ہیں۔ سلام آباد اور چکاں دے باغ میں یہ نصب ہونا تھے۔ مگر ابھی تک اراضی کا حصول بھی ممکن نہ بن سکا۔ آر پار تجارت کے حوالے سے میں نے دارالحکوت مظفر آبادمیں چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں ،تاجر لیڈروں اور متعلقہ حکام سے تفصیلی بات چیت کی۔ سخت قواعد و ضوابط اورتجارتی اقدار کے منافی اقدامات سے دونوں اطراف کے عوام کے درمیان بعض رنجشیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔اعتماد سازی کے لئے شروع تجارت کو بد اعتمادیکا سامناہے۔جس کے باعث بعض آزادی پسند حلقوں کی مخالفت کی بنیادی وجہ سمجھ آتی ہے۔ کشمیر کے دو حصوں میں فی الحال تجارت دو مقامات یا ٹریڈ پوائینٹس سے ہو رہی ہے۔(1)تیتری نوٹ چکاں دا باغ ٹریڈ پوائینٹ سے راولاکوٹ اورپونچھ کے درمیان اور(2)چکوٹھی سلام آباد(اوڑی) ٹریڈ پوائینٹ سے سرینگر اورمظفر آباد کے درمیان ۔ دو طرفہ تجارت کا آغاز دس سال قبل21 اکتوبر2008ء کوہوا تھا۔21 اکتوبر2008ء سے30جون2009ء تک657ٹرک سامان مظفر آباد سے سرینگر کے لئے روانہ کیا گیا۔جبکہ اس عرصہ میں 483ٹرک سرینگر سے مظفر آباد آئے۔ اس عرصہ میں27ٹرک سامان راولاکوٹ سے پونچھ اور 392ٹرک سامان پونچھ سے راوالاکوٹ پہنچا۔جموں و کشمیر کے دو منقسم خطوں کے درمیان تجارت دو ٹریڈ پوائینٹس سے بارٹر سسٹم کے تحت ہو رہی ہے۔یعنی سامان کے بدلے سامان۔ گو کہ بارٹر سسٹم سے کشمیری اس سے قبل بھی کسی حد تک آشنا تھے۔ مثلا وہ کشمیری شالیں فروخت کر کے راولپنڈی سے نمک اور آسام سے نمکین چائے کی پتی لاتے رہے ہیں۔ان برسوں میں کتنی مالیت کی تجارت ہوئی۔درست اعداد و شمار کوئی نہیں جانتا۔کیوں کہ اس تجارت میں کرنسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔بظاہرٹرکوں کا حساب رکھا جا رہا ہے۔اس کی بھی تازہ تفصیلات جمع نہیں کی گئی ہیں۔یہ تجارت بظاہرمنقسم رشتہ داروں کے درمیان ہو رہی ہے۔ جو آپس میں اشیاء کا تبادلہ کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر سے دال مونگی ،پستہ،اناردانہ،قالین ،آم،چاول،کجھوریں،جڑی بوٹیاں،پشاوری چپل،جائے نماز،ٹوپیاں،جلغوزہ،انجیر،کشمش ،تربوز،سیب،ناشپاتی،تکئیے،وغیرہ جیسی اشیاء سرینگر اور جموں کے بازاروں میں پہنچیں۔جبکہ مقبضہ جموں و کشمیر سے پیاز،مصالحے،کڑھائی والی ملبوسات،ناریل،راجماش،زعفران،قالین،شال،پیپر ماشی،گاجر،کیلا،وغیرہ آزاد کشمیر کے مارکیٹس میں وارد ہوئیں۔کبھی آزاد کشمیر سے مونگی دال کے بدلے جموں و کشمیر سے راجماش دال (لوبیا)کی خوب تجارت ہوئی ہے۔مناسب طریقہ کار اور ضابطہ اخلاق موجود نہ ہونے کے باعث آر پار تجارت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے بڑا مسلہ کسی کرنسی پر عدم اتفاق کا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے آر پار تجارت کو ڈالر میں جاری رکھنے پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔اسلام آباد اور نئی دہلی کی حکومتیں کشمیر کے سٹیٹس پر ٹریول یا ٹریڈ کو اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہتیں۔پاکستان میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ڈالر میں تجارت کی گئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ تجارت کشمیری خاندانوں کے درمیان نہیں بلکہ انٹر نیشنل تجارت ہے۔اس سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت متاثر ہو گی۔جنگ بندی لائن کو بین الاقوامی سرحد سمجھا جائے گا۔جموں و کشمیر میں پاکستانی کرنسی اور آزادکشمیر میں بھارتی کرنسی میں تجارت دونوں ملکوں کو قبول نہیں ہے جبکہ دونوں ملکوں کی کرنسی کی قدر میں نمایاں فرق بھی مشکلات کا ایک سبب ہے۔بھارت کے ایک روپیہ کی قدر ان دنوں پاکستان کے ایک روپے ستر پیسے کے برابر ہے۔جس مال بھرے ٹرک کی قیمت سرینگر میں ایک لاکھ ہو گی اسی ٹرک کی قیمت مظفر آباد یا راولپنڈی میں ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ ہو جائے گی۔کرایہ اور منافع اس کے علاوہ ہو گا۔آزاد کشمیر کی حکومت نے دارلحکومت مظفر آبادکے سول سیکریٹریٹ میں پہلے ٹریڈ اینڈ ٹریول کا خصوصی شعبہ قائم کیا ۔ اس کے انچارج نے اس تجارت کو مشکلات کے باوجود کامیاب قراردیا۔پھرآزادحکومت نے باقاعدہ طور پر ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی قائم کر دی جس کا پہلا ڈائریکٹر جنرل پاکستانی فوج سے ریٹائر ہونے والے بریگیڈئر محمد اسماعیل کو بنایا گیا تاکہ تجارت کو نظم و ضبط کے دائرے میں لایا جاسکے۔

تجارتی پوائینٹس پر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے،مال بردار ٹرکوں کا سکینر نصب نہیں کیا گیا ۔مال کی بوریوں کو اتار کر سکینگ کی جاتی ہے ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کام کی رفتار مزید متاثر ہوتی ہے۔ لوڈ ان لوڈ کرنے کے عمل سے پیسہ اور و قت دونوں کا زیاں جبکہ مال بھی خراب ہو جاتا ہے۔کراسنگ پوانٹس پر مال کو لوڈاور سٹور کرنے کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔آزاد کشمیر کی حکومت آر پار تجارت کے متعلق رپورٹ پاکستانی وزارت خارجہ،وزارت تجارت اور وزارت امور کشمیر کو باقاعدگی سے بھیجتی ہے۔لیکن تجارت اور سفری عمل کو بہتر بنانے کے لئے یک طرفہ طور پرکوئی اقدامات نہیں کئے جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ آر پار تجارت کو ایک مذاق سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔تاجر برادری کو تجارتی اوقات کے بارے میں بھی تحفظات ہیں۔تجارت دونوں مقامات پرپہلے ہر پیر اور منگل کو ہوتی تھی۔صبح 9سے 11بجے تک کا وقت جنگ بندی لائن سے مال بردارٹرکوں کی کراسنگ جبکہ اسی شام 6بجے تک ان لوڈ اور واپسی کے لئے مقرر کیا گیا ۔شام 6بجے تک جو ٹرک ان لوڈ نہ ہو اسے مال سمیت واپس کر دیا جاتا جس سے پھل اور سبزیاں وغیرہ سڑ جاتی ۔اور تاجر کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑتا ۔فعال اور موثر تجارتی طریقہ کاروضابطہ اخلاق کی عدم موجودگی میں آر پارتجارت سست روئی کی شکار رہی۔اب منگل تا جمعہ ہفتہ میں چار دن تجارت کے لئے مقرر ہیں۔ ٹرکوں کی تعداد بھی 35مقرر ہے۔دونوں جانب کشمیریوں کی معیشت کو بھی اس سے کوئی فروغ نہیں مل سکا ہے۔ عوام کا جوش و خروش بھی پہلے جیسا دکھائی نہیں دیتا ۔مظفر آباد اور راولپنڈی کی مارکیٹس پربھی اس کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہو سکے ہیں۔آر پار تجارت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اسے کمیشن مافیا کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔فروٹ کی تجارت کی اجازت ہے تو اس میں ہر قسم کے فروٹ کو شامل کیاجائے۔حکومت اگر اپنے ٹرکوں سے مال کی خود شپ منٹ کرے اور تاجروں سے چارجز وصول کئے جائیں تو بہتر ہو گا۔ تجارت کے اس عمل میں دونوں اطراف کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے بنکوں کو معاون کے طور پر شامل کیا جائے تو نتائج اچھے بر آمد ہو سکتے ہیں۔امید ہے ایف بی آر چیئر مین کی یقین دہانیوں کے بعد یہ تجارت یہاں کے تاجروں کے لئے مسائل پیدا نہ کرے گی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555593 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More