نومولود کے لئے نام رکھنے میں نجومیوں اور کاہنوں سے تجویز لینا

سوال : ہمارے یہاں ایسا ہوتا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک شخص کے پاس جاکر اس سے نام کی تجویز لیتے ہیں ، وہ صاحب سوٹ کرنے والے ناموں کی ایک لسٹ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ سارے نام اس بچہ پر سوٹ کرتا ہے ان میں سے کوئی ایک اختیار کرلو ، اس عمل سے متعلق میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا اسلام کی روشنی میں ٹھیک ہے ؟(سائلہ : نبیلہ جمیل ، سعودی عرب )
جواب : لوگوں کے درمیان نومولود کا نام رکھنے میں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے کہ بچہ کی پیدائش پر نجومیوں اور کاہنوں کے پاس آتے ہیں اور ان سے نام کی تجویز کرتے ہیں ، یہ کاہن ونجومی ستاروں ، سیاروں، برجوں اور تاریخ پیدائش و گردش ایام کے حساب سے نام تجویز کرتے ہیں ۔یہ کام شریعت کی روشنی میں ممنوع، ناجائزاور شرک کے قبیل سے ہے ۔
اولا : اسلام نے ہمیں نومولود کی پیدائش پر اس کے ساتویں دن نام رکھنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں اپنے بچوں کا اچھا سا نام رکھنا چاہئے ، اچھے ناموں میں انبیاء ، رسل، صحابہ وصحابیات اور سلف صالحین کے نام ہیں ۔ ان ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرلیں ، گویا ضروری نہیں ہے کہ پورے گاؤں میں نیانام ہو جیساکہ آج کل لوگوں کا رواج ہے، ایک گاؤں میں سو عبداللہ ہوجائے ، سوفاطمہ ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ معنی عمدہ اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو کوئی بھی نام رکھ سکتے ہیں ۔
ثانیا: اسلام میں نیک فال لینا درست ہے جبکہ بدفالی (بدشگونی) لینا شرک ہے کیونکہ نیک فال اللہ کے ساتھ حسن ظن ہے جبکہ بدفالی توکل اور توحید کے منافی ہے ۔ توحید پرستوں کے لئے قطعی روا نہیں کہ کسی بھی معاملہ میں بدشگونی لے چاہے نام کا معاملہ ہو یا کوئی اورمعاملہ ۔
بدشگونی کی ممانعت اورنیک فال لینے سے متعلق چند احادیث :
(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً(صحیح البخاری:7405)
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے ۔جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہوجاتا ہوں ۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔
(2)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لاَ طِيَرَةَ، وَخَيْرُهَا الفَأْلُ قَالَ: وَمَا الفَأْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:الكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ(صحیح البخاری:5755)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بد شگونی کی کوئی حیثیت نہیں، اس میں بہتر نیک فال ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! نیک فال کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ”اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے۔
(3)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ:كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يُعجبُهُ الفَألُ الحسَنُ، ويَكْرَهُ الطِّيرةَ(صحيح ابن ماجه:2864)
ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو نیک فال (اچھے شگون) اچھی لگتی تھی ،اور فال بد (برے شگون) کو ناپسند فرماتے ۔
بدشگونی لینا شرک ہے ، فرمان رسول ﷺ:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ثَلَاثًا وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ(صحيح أبي داود:3910)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدشگونی شرک ہے ، بد شگونی شرک ہے ۔ تین بار رسول اللہ ﷺ فرمایا ۔اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے ‘ مگر اللہ عزوجل اسے توکل کی برکت سے زائل کر دیتا ہے ۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں کسی بھی صورت میں بدشگونی نہیں لینی چاہئے مگر افسوس کہ ہمارے سماج میں بہت ساری چیزوں میں نحوست سمجھی جاتی ہے اور بہتیرے سماجی مسائل ہیں جن میں مسلمان مردوخواتین بدشگونی لیکر اپنے نامہ اعمال خراب کرتے ہیں ۔
ثالثا: نومولود کا نام رکھنے کے لئےہمیں کسی کاہن ونجومی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اگر ہمیں اسلامی نام جاننے کی ضرورت ہے تو جو عالم ہیں ان سے انبیاء ، صالحین اور اتقیاء کے نام پوچھ سکتے ہیں لیکن کسی ایسے فرد کے پاس جانا ناجائز و شرک ہے جو مستقبل کی بات بتاتا ہو، کہانت کرتا ہو، کفارومشرکین اور عہدرسالت کے نجومیوں اور کاہنوں کی طرح ستاروں اور ان کی گرشوں سے بدفالی لیتا ہو یا آج کل کے پاکھنڈی باباؤں کی طرح خاندان، تاریخ پیدائش اور دیگر چیزوں کی معلومات لیکربے دینی والی قیاس آرائی کرتا ہو ۔ اور ایسا کرنے والا کفر کا مرتکب اورمحمد ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت کا منکر ہےاور دین اسلام اس عمل سے بری ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى كَاهِنًا قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِهِ فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ ثُمَّ اتَّفَقَا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ( صحيح أبي داود:3904)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا جو غیب کی خبریں دیتا ہو اور پھر اس کی تصدیق کی ‘ یا اپنی بیوی کے پاس اس کے ایام حیض میں گیا ‘ یا اس کی دبر میں مباشرت کی تو وہ محمد ﷺ پر نازل کردہ دین سے بری ہوا ۔
ایسا عمل چونکہ کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس کے مرتکب کو توبہ کرنا چاہئے اور آئندہ اس عمل سے باز رہنا چاہئے۔
رابعا: نبی ﷺ کے اقوال وافعال سے معلوم ہوتا ہے کہ جن صحابہ کے نام اچھے نہیں تھے انہیں بدل دئے اور بعض صحابہ کے ناموں سے نیک فال بھی لیا ہے جیساکہ صلح حدیبیہ کی مناسبت سے قریش کی جانب سے سہیل بن عمرو بطور نمائندہ آیا تو آپ ﷺ نے اس کے نام سے نیک فال لیا اور صحابہ سے کہا : لقد سَهُلَ لكم مِن أمرِكم (صحيح البخاري:2732)یعنی تمہارا مسئلہ آسان ہوگیا ہے۔
اس لئے اس حد تک معاملہ درست ہے کہ بچوں کے اچھے نام رکھیں اور اچھے نام صرف اسلامی ہیں ، اچھے ناموں سے نیک فال بھی لے سکتے ہیں بلکہ زندگی کے تمام مسائل میں حسن ظن سے ہی کام لینا چاہئےاور بدشگونی، نحوست اور توکل علی اللہ کے منافی امور سے بچنا چاہئے ۔ تاہم نام رکھنے کے لئے لوگوں میں مشہور باباؤں، پنڈٹوں، ہاتھ دیکھنے والوں، غیب کی خبریں اور مستبقل کی باتیں بتانے والوں ، جادو اور کہانت کے ذریعہ کرتب وکرشمے دکھانے والوں کے پاس جانا اسلام کی رو سے سخت منع ہے ۔ یہ لوگ سادہ لوح عوام کے نہ صرف پیسے لوٹتے ہیں بلکہ ان کا دین وایمان بھی لوٹتے ہیں ۔اس لئے توحید کے متوالو! ایسے بے ایمانوں کے پاس جاکراپنے ایمان وعمل ضائع نہ کرو۔ واللہ اعلم بالصواب

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.