تحریر:مولانا ہدایت اﷲ خان
"اﷲ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لیے کیے گئے عمل کو پْرخلوص اعمالِ صالحہ
کہا جاتا ہے اور اِس جذبے کو کہ جس نے اِس عمل پر اْبھارا اخلاص کہتے
ہیں۔بندہ مؤمن اپنی زندگی میں بے شمار نیک اعمال کرتا ہے اور یقیناً اْس کی
طلب،اْس کی چاہت،اْس کا مقصد صرف رضائے الہٰی ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی بندہ
اِس جذبے کے تحت نیکی نہیں کرتا کہ وہ اپنے نیک اعمال سے رضائے الہٰی کے
برخلاف کچھ حاصل کرے گالیکن عجیب معاملہ ہے کہ پھر بھی ہماری نیکیاں ہیں کہ
ہمیں اْن میں دلچسپی معلوم نہیں ہوتی،اْس کے اَثرات اور ثمرات سے ہم محروم
رہتے ہیں آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟ہماری تعلیمات تو بتاتی ہیں کہ نیکیاں
بْرائیوں سے روکتی ہیں لیکن ہم نیکیاں بھی کرتے ہیں اور بْرائی کا بازار
بھی سج رہا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے عمل میں مخلص نہیں ہیں ہم نیکی تو کرتے ہیں لیکن
مالک کی رضاء کے لیے نہیں بلکہ لوگوں میں نیک نامی کے لیے ہاں اگر وہ نیکی
قبول ہوبھی جائے تو اور اچھی بات ہے لیکن ہماری ترجیح رضائے الہٰی ہرگز
نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ ہمارے نیک اعمال اپنا ثمر نہیں دکھا پاتے۔اﷲ تعالیٰ
کی بارگاہ میں وہی عمل مقبول ہوتا ہے جو صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہو یعنی
اْس میں شہرت کا جذبہ نہ ہو،دنیا کمانے کی لالچ سے پاک ہو،نیک نامی مقصود
نہ ہو اگر کوئی جذبہ ہوتو وہ صرف یہ کہ میں اپنے اِس عمل کے ذریعے اپنے
مالک کو راضی کرلوں،یقیناً ایسے اعمال مالک کی بارگاہ سے مقبولیت کا پروانہ
پاتے ہیں۔بارگاہ الہٰی میں جو اعمالِ صالحہ مقبولیت حاصل کرلیں وہ اپنے
اثرات بھی دکھاتے ہیں،انسان میں تقویٰ کی کیفیت بڑھ جاتی ہے،حْبِّ الہٰی
میں اضافہ ہوتا ہے،سنّت کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے،اخلاق سنورجاتے ہیں۔
ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم جو بھی نیک عمل کریں اْس کے صلے کی تمنّا
مخلوق سے نہ کریں بلکہ مالک الملک سے اْن کی مقبولیت چاہیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں
اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور ہمارے اعمالِ صالحہ کی حفاظت فرمائے
آمین۔ |