حضرت علی ہجویری کا اسمِ گرامی علی کنیت ابوالحسن اور لقب
گنج بخش ہے۔ آپ نے داتا گنج بخش کے نام سے شہرت پائی اس بارے میں روایت عام
ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے یہاں چلہ کر
کے اور معتکف رہ کر فیض حاصل کیا تو یہ شعر پڑھا
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
اس پر آپ کا نام گنج بخش مشہور ہو گیا لیکن آپ کی اپنی کتاب کشف الاسرار سے
ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی یہ نام مشہورہو چکا تھا۔ چنانچہ
کشف الاسرار میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اے علی! خلقت تجھے گنج بخش کہتی ہے
حالانکہ تیرے پاس ایک حبہ بھی نہیں۔ گنج بخش تو اسی کو سزاوار ہے جو مالک
الملک ہے۔
آپ کے والد گرامی کا اسم شریف عثمان الجلابی ہے۔ آپ نے غزنی کی دو بستیوں
ہجویر اور جلاب میں ابتدائی عمر گزاری اسی لیے آپ رحمہ اﷲ ہجویری اور جلابی
بھی کہلائے۔
حضرت علی ہجویری رحمہ اﷲ کا سلسلہ نصب آٹھویں پشت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ
سے جا ملتا ہے۔ آپ ماہ ربیع الاوّل 373ہجری میں شہر غزنی کی ایک بستی ہجویر
میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخِ ولادت تذکروں میں درج نہیں ہے۔ آپ نے ابتدائی
تعلیم ہجویر میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دُور دراز سفر طے
کیے۔ آپ کا خاندان علم و فضل میں لاثانی تھا۔ حصولِ علم کے لیے خراسان‘
نشاپور‘ آزذربائیجان‘ طوبی‘ سرخس‘ سمرقند‘ شامرو‘ بسطام‘ فرغانہ‘
ماورالنہر‘ قستان‘ طبرستان‘ خوزستان‘ بخارا‘ کرمان‘ اہوواز‘ دمشق‘ فارس‘
بغداد‘ جبل لکام‘ وادی بیت الجن‘ کوفہ‘ بصرہ‘ ترکستان‘ منیبر‘ املا‘ شمالی
ہند وغیرہ کا سفر کیا۔ دورانِ سفر ان ممالک کے علاوہ مشائخ اور اولیاء اﷲ
رحمہم اﷲ سے ملاقاتیں کیں اور اپنے عہد کے ممتاز اہلِ علم سے استفادہ حاصل
کیا۔ سیروسیاحت کی وجہ سے آپ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ آپ نے اپنی پہلی
تصنیف بارہ سال کی عمر میں لکھی۔ آپ کی چند کتابیں درج ذیل ہیں:
-1 کشف المحجوب -2 کشف الاسرار -3 منہاج الدین -4 دیوان ہجویری -5 الرعیتہ
المخلوق اﷲ -6 کتاب الفناء و بقاء -7 اسرار اطرق الموئنات -8 نورالقلوب -9
کتاب البیان لاہلی الصبان -10 شرح کلام منصور اس وقت کشف المحجوب اور کشف
الاسرار کے سوا آپ کی کوئی بھی تصنیف محفوظ نہیں۔ کشف المحجوب ایک روسی
مفکر ژوضکی کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
کشف المحجوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ میں ایک بار ایک باطنی اُلجھن میں
گرفتار ہو گیا۔ ایک روحانی راز تھا جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا تھا اس کے
انکشاف کے لیے میں نے بڑی ریاضت کی مگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اس سے
پہلے بھی ایک بار ایسا ہوا تھا اور میں نے حل کے لیے حضرت ابو یزید رحمتہ
اﷲ علیہ کے مزار پر چلہ کشی کی تھی اس چلہ کشی کے نتیجے میں میری وہ باطنی
مشکل حل ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس بار بھی میں آپ کے مزار پر منکشف ہو گیا
لیکن تین ماہ تک اعتکاف میں بیٹھے رہنے کے باوجود مجھے کامیابی نہیں ہوئی
اس دوران میں ہر روز تین مرتبہ نہانا اور تین ہی مرتبہ طہارت کرتا کامیابی
کی کوئی صورت نہ دیکھ کر میں نے خراسان جانے کے لیے رختِ سفر باندھا‘ راستے
میں ایک گاؤں میں قیام کیا یہاں صوفیوں کا ایک گروہ مقیم تھا۔ یہ لوگ رسم
پرست تھے۔ انہوں نے مجھے سادہ جامہ پہنے دیکھ کر کہا کہ یہ ہماری جماعت سے
متعلق نہیں اور واقعی میں ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا۔ انہوں نے
مجھے قیام کے لیے جو جگہ دی خود اس سے بلند جگہ پر قیام کیا خود تو نہایت
لذیذ ونفیس غذائیں کھائیں اور مجھے ایک سوکھی روٹی کھانے کو دی وہ لوگ میرا
مضحکہ اُڑاتے‘ خربوزے کھا کر مجھ پر پھینکتے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اے
خداوند کریم! اگر ان کا لباس (گودڑی) وہ نہ ہوتا جو تیرے دوستوں کا ہوتا ہے
تو میں ان کی یہ زیادتی کسی صورت برداشت نہ کرتا۔
باوجود یہ کہ رسم پرست صوفی مجھے ہدف طنز و ملامت بنا رہے تھے لیکن انبیاء
و اولیاء کی ایک بہت بڑی سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے میرے دل کو بڑی مسرت ہو
رہی تھی اور اس وقت مجھ پر یہ راز سربستہ کھل گیا کہ بزرگانِ طریقت کم
فہمیوں کی زیادتیاں کیوں برداشت کرتے ہیں اورمجھے معلوم ہو گیا کہ ملامت
برداشت کرنا بھی روحانی مدارج کی بلندی کا زینہ ہے اور اس میں بھی مفادات
ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ میں علاقہ شام میں سفر کرتا ہوا
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کے روضہ پر پہنچا جب میری آنکھ لگ گئی تو میں نے اپنے
آپ کو مکہ معظمہ میں پایا اتنے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بنی حبشہ کے
دروازے پر تشریف فرما ہوئے اس وقت آپ ایک سن رسیدہ شخص کو اس طرح بغل میں
لیے ہوئے تھے جیسے کوئی کسی بچے کو لیے ہوتا ہے میں فرطِ محبت سے بے قرار
ہو کر آپ کی طرف دوڑا اور آپ کے پائے مبارک کو بوسہ دیا۔ میں بڑا حیران تھا
کہ یہ ضعیف شخص کون ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قوتِ باطنی سے
میرے اس استعجاب کا حال معلوم کر لیا اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ
تمہارے امام ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ اس سے مجھے یہ بات معلوم
ہوئی کہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہے جن کے
اوصاف شرع کے قائم رہنے والے احکام کی طرح قائم و دائم ہیں۔
آپ تحریر فرماتے ہیں کہ قیامِ عراق کے زمانے میں میں نے بہت کشادہ دستی سے
کام لینا شروع کر دیا۔ نتیجتاً میں قرض کے بوجھ تلے دب گیا۔ ہوتا یہ تھا کہ
جب کسی کو کوئی ضرورت پیش آتی وہ مجھ سے امداد طلب کرتا اور میں کسی نہ کسی
طرح اس کی مدد کرتا اس طرح لوگوں کے مطالبات روز بروز بڑھنے لگے اور قرض
خواہوں نے الگ تنگ کرنا شروع کر دیا۔
عراق کے ایک سردار نے جو میرے اس حال سے واقف تھا‘ مجھے لکھا کہ تم نے جو
طریق اختیار کیا ہے اس سے پیدا شدہ پریشانیاں عبادت اور ذکرِ الٰہی میں
مانع نہ ہو جائیں۔ یوں اندھا دھند روپیہ خرچ کرنا اچھا نہیں ہے۔ خداوند
تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہے اور اس کے سوا کسی میں یہ
قدرت نہیں ہے کہ وہ ہر بندے کی کفالت کر سکے۔ میں نے اس نیک دل سردار کی اس
پُرحکمت بات کو پلے باندھ لیا اور پھر اس تنگی سے چھٹکارا حاصل کیا۔
مؤرخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ آپ 431 ہجری 1030-40 عیسوی میں
سلطان مسعود غزنوی (سلطان محمود غزنوی کے فرزند) کے دورِ حکومت میں اپنے
مرشد حضرت ابوالفضل کے حکم پر رشد وہدایت کے لیے لاہور تشریف لائے۔
آپ کی لاہور آمد کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ جس وقت آپ کو آپ کے مرشد
نے لاہور جانے کا حکم دیا تو آپ کو حیرانی ہوئی اور آپ نے انکساری سے عرض
کیا کہ حضور! لاہور میں تو ہمارے پیر بھائی اور مرید کامل حضرت شاہ حسین
زنجانی رحمتہ اﷲ علیہ پہلے سے موجود ہیں؟ حضرت ابوالفضل نے فرمایا ’’اے
علی! تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے
لاہور چلے جاؤ۔ حکم مرشد کے بعد آپ اپنے وطن غزنی تشریف لے گئے اور لاہور
جانے کی تیاری کی اور شیخ احمد حماد سرخی اور شیخ ابوسعید ہجویری کے ہمراہ
دشوار گزار پہاڑوں سے ہوتے ہوئے اجنبی ملک ہند کی طرف روانہ ہوئے۔ اﷲ کے یہ
تینوں برگزیدہ بندے انتہائی مشقت اُٹھاتے ہوئے پہاڑی راستے عبور کرتے ہوئے
پشاور پہنچے پھر پنجاب کے دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے 431 ہجری 1039-40عیسوی
کو لاہور پہنچے۔ رات کا وقت تھا۔ صبح ہوئی تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک
جنازہ لیے جا رہے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ شاہ حسین زنجانی رحمتہ
اﷲ علیہ کا جنازہ ہے۔ یہ سُن کر آپ مرشد کے فرمان کی حکمت اور تہہ تک
پہنچے۔
ان دنوں غزنی پر سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کی حکومت
تھی۔ سلجوقیوں نے جن کا حکمران سلطان الپ ارسلان سلجوقی تھا‘ نے حملہ کر
دیا اور مسعود غزنوی کو شکست دی۔ مسعود غزنوی لاہور آتے ہوئے جہلم کے کنارے
مارا گیا اس وقت بہت سے علماء فضلاء اور مقامی لوگ بھی دیگر علاقوں کی طرف
ہجرت کر گئے اس وقت دریائے راوی کا بہاؤ بھاٹی دروازہ کے قریب تھا اب جس
جگہ اقبال پارک (مینارِ پاکستان) ہے اور بڈھا راوی نالہ کی صورت میں بہتا
ہے اس وقت یہ دریائے راوی کی گزرگاہ تھی بلکہ بادشاہی مسجد کی تعمیر کے ایک
عرصہ بعد تک بھی یہی گزرگاہ رہی اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ دریائے راوی کے
بائیں کنارے اور بھاٹی دروازے کے قریب ایک ٹیلے پر قیام فرمایا۔ بہرکیف
حضرت داتا علی ہجویری عبادت و ریاضت اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے جس
جگہ آپ کا مزار مبارک ہے یہاں آپ نے ایک مسجد تعمیر کروائی اور رشد و
ہدایت‘ دین کی تبلیغ کے کارنامے سرانجام دینے لگے۔
مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات آپ نے خود کیے اور خود ایک مزدور کی طرح
خانہ خدا کی تعمیر میں حصہ لیا۔ یہ مسجد ایک بڑے دالان پر مشتمل تھی‘ چھت
اس کی لکڑی کی تھی۔
شہزادہ دارالشکوہ کی کتاب سفینۃ الاولیاء کے مطابق 431 ہجری میں اس مسجد کی
تعمیر ہوئی۔ شہزادہ دارالشکوہ لکھتا ہے کہ جو مسجد آپ نے تعمیر کروائی اس
کا محراب دوسری مساجد سے قدرے جنوب کی طرف مائل تھا۔ علمائے وقت نے اس پر
اعتراض کیا کہ قبلہ درست نہیں۔ آپ نے علماء کو دعوت دی اور خود امام بن کر
نماز پڑھائی نماز کے بعد آپ نے حاضرین سے فرمایا کہ اب دیکھو کعبہ شریف کس
طرف ہے……؟ تمام حجابات درمیان سے اُٹھ گئے اور خانہ کعبہ سامنے نظر آنے
لگا۔ قبلہ کو سامنے بالمشافہ موجود پا کر تمام علماء معذرت خواہ ہوئے اس
کرامت کی بدولت آپ کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی۔ آپ نے مسجد سے ہی شمع
اسلام فروزاں کی اور پورے برصغیر میں اسلام کی روشنیاں منور کیں۔ اورنگ زیب
عالم گیر کے زمانے میں جب دریائے راوی میں سیلاب آیا تو اس مسجد کو ناقابلِ
تلافی نقصان پہنچا۔
آپ کی لاہور تشریف آوری کے وقت اس شہر کی آبادی بہت کم تھی۔ عمارتیں زیادہ
بلند نہ تھیں اس وقت لاہور کا نام محمود پور تھا۔ ہندوستان میں بے شمار
ریاستیں تھیں۔ شمال کی جانب غزنوی حکومت تھی۔ تقریباً تمام ریاستوں کے حاکم
ہندو ’’راجپوت‘‘ تھے۔ شہر لاہور میں ہندو راجپوتوں کی اکثریت تھی لاہور کا
نائب حاکم بھی ایک ہندو راج پوت راجہ تھا جس کا نام ’’رائے راجو‘‘ تھا۔
خدائے واحد کو ماننے والا کوئی نظر نہ آتا تھا‘ سب بت پرست تھے۔ ذات پات کی
تفریق کی وجہ سے قومیں ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں۔ لاہور شہر کے اردگرد
کی زمینیں ہندو ارائیوں کی ملکیت تھیں۔
ہندو دھرم عین عروج پر تھا۔ البیرونی لکھتا ہے کہ ان کے نکاحوں میں بھی بے
شری اور بے حیائی کے تعلقات موجود تھے۔ چنانچہ پنچھیرے سے کشمیر کے آس پاس
کے علاقے تک جو سلسلہ کوہ تک پھیلا ہوا ہے وہاں کے لوگوں میں عام ہے کہ چند
بھائیوں کے درمیان اگر وہ حقیقی ہوں تو ایک عورت کا مشترکہ ہونا فرض ہے۔
نکاح کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ نکاح جو باپ یا بیٹے کی بیوہ کے ساتھ کیا
جاتا تھا اس عمل سے جو بیٹا پیدا ہوتا اسے مرنے والے کے نام سے موسوم کیا
جاتا اور اس کی نسل بڑھانے کا ذریعہ جانا جاتا۔ مختصر یہ کہ مذہب کے نام پر
ہر قسم کی بے حیائی جاری تھی۔ لوگوں کی اخلاقی حالت نہایت خراب تھی۔ شراب‘
زنا‘ ہم جنس پرستی اور جوا جیسی دیگر بُرائیاں عام تھیں۔
حضرت علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ نے لاکھوں غیر مسلموں کو متاثر کیا اور وہ
مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بھاٹی دروازہ لاہور جو راج پوتوں کے قدیم قبیلے بھاٹی
یا بھٹیوں سے منسوب ہے‘ یہ لوگ زمانہ قدیم میں یہاں آباد تھے۔ آپ کی لاہور
آمد کے بعد اسلام کی روشنی پھیلنا شروع ہوئی اور تبلیغ دین سے بہت سے لوگ
حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے اور اس کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے بھاٹی دروازے
کا نام ہجویری دروازہ رکھ دیا۔ بھاٹی یا بھٹی راج پوتوں نے اس کا بہت بُرا
منایا اس وقت لاہور کا راجہ جے سنگھ راج پوت تھا۔ بھٹی راج پوتوں نے بھائی
دروازے کا نام جے سنگھ دروازہ رکھ دیا جب واقعہ کی اطلاع حضرت علی ہجویری
رحمتہ اﷲ علیہ کو ملی تو آپ نے ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے عمائدین کو
بُلوایا اور فرمایا کہ نام بدلنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا جب تک کہ دِلوں میں
انقلاب نہ آئے پھر آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ جو بھی نام رکھ لیں‘ ہم کو منظور
ہوگا پھر فرمایا اور اگر اس دروازے کا پرانا نام جو بھاٹی دروازہ ہے وہی
رہنے دیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ ہجویری کی نسبت بھٹی قوم کا اس دروازے پر
زیادہ حق ہے جو یہاں صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ راجہ جے سنگھ آپ کے اس فیصلے
سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اسلام قبول کر لیا اور پھر تقریباً تمام بھٹی
راج پوت دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔
لاہور کا نائب حاکم بھی ایک راج پوت جس کا نام رائے راجو تھا‘ نے بھی حضرت
داتا گنج بخش کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔ آپ نے رائے راجو کا اسلامی نام
عبداﷲ اور لقب شیخ ہندی عطا فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد سب سے پہلے مزار
شریف اور اردگرد کا چبوترا حضرت شیخ ہندی ہی نے تعمیر کروایا۔
ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے کسی کو بھی اس سے مضر نہیں۔ وہ لوگ نیک
ہوں یا ان کا دامن گناہوں سے آلودہ ہو۔ وہ پیغمبر ہوں یا اولیاء اﷲ‘ ہر
انسان کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے۔
قدیم تاریخی کتابوں کے اوراق اس بارے میں خاموش نظر آتے ہیں کہ حضرت داتا
گنج بخش رحمتہ اﷲ علیہ کتنے دن بیمار رہے اور آپ نے کس مہینے کی کس تاریخ
کو وصال فرمایا لیکن آپ کا عرس مبارک ہر سال صفر کی 19 تاریخ کو ہوتا ہے اس
لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ کا وصال بھی اسی مہینے میں ہوا ہوگا۔ پیدائش کی
طرح آپ کے یومِ وصال پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہت سے محققین اور تذکرہ
نگاروں نے آپ کا سال وصال 465 ہجری سے اتفاق کیا ہے۔ علاوہ ازیں مزار مبارک
کے اندرونی دروازے پر جو قطعہ درج ہے اس پر بھی سالِ وصال 465 ہجری درج ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا گنج بخش نے اپنی زندگی کے 34 سال دنیا
کے اس قدیم تاریخی شہر لاہور میں گزارے اور پھر چند روز علالت کے بعد اس
جہانِ فانی سے کنارہ کر گئے۔ آپ نے اپنے حجرہ میں ہی وصال فرمایا پھر آپ کے
خلیفہ حضرت عبداﷲ لقب بہ شیخ ہندی نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس مقام
پر جہاں آپ نے وصال فرمایا‘ دفن کیا گیا۔ آپ کا مزاج آج بھی اس جگہ مرجع
خلائق ہے اور آسمان آپ کی لحد مبارک پر شبنم افشانی کرتا ہے۔
بے شمار اکابرین جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری‘ حضرت بابا فرید
الدین گنج شکر‘ حضرت شیخ بہلول دریائی‘ حضرت شیخ حسن علائی‘ حضرت مجدد الف
ثانی‘ حضرت شیخ حسین (المشہور مادھول حسین) حضرت شاہ عنایت قادری رحمہم اﷲ
علیہم اجمعین سمیت بے شمار اولیائے اﷲ نے آپ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر
فیض و برکت حاصل کیا۔
آپ کے مزارِ مبارک پر سب سے پہلے بادشاہ (وصال کے آٹھ سال بعد) ظہیرالدولہ
ابراہیم غزنوی نے حاضری دی اس کے بعد خاندانِ غلاماں‘خاندانِ خلجی‘ خاندانِ
تغلق‘ خاندانِ لودھی کے جتنے بادشاہ لاہور آئے‘ انہیں آپ کے مزار شریف پر
حاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہی پھر خاندان مغلیہ کے تیسرے بادشاہ جلال الدین
اکبر نے بھی آپ کے تیسرے بادشاہ مبارک پر اپنی عقیدت کے پھول چڑھائے۔ مزار
کی طرف جانے کا راستہ فرش دروازہ چوکھٹہ دائیں اور بائیں جانب کے چبوترے
بھی شہنشاہ جلال الدین اکبر نے ہی تعمیر کروائے اور حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کا حجرۂ اعتکاف بھی پختہ کروایا۔
نور الدین جہانگیر‘ شہاب الدین شاہجہاں‘ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر اور
شہزادہ دارالشکوہ جوایک صوفی منش شہزادہ تھا جس کی تصوف کے موضوع پر کئی
کتابیں ملتی ہیں‘ سمیت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی آپ کے مزار پر حاضری دی۔
سفینۃ اولیاء میں شہزادہ دارالشکوہ لکھتا ہے کہ چالیس روز متواتر یا چالیس
جمعرات تک اگر کوئی شخص حضرت داتا صاحب کے مزار مبارک پر حاضری دے اور خدا
کو یاد کرتے ہوئے اپنی حاجت بیان کرے اور آپ کی روح سے مدد چاہئے تو وہ
اپنے دل کی مراد پائے گا۔ اپنے بارے میں شہزادہ ؟؟ میں چالیس روز متواتر
حضرت کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوتا رہا اور جو میرے دل کا مقصد تھا‘ وہ اﷲ
تعالیٰ نے حضرت داتا صاحب رحمہ اﷲ کے طفیل پورا کر دیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ جس کے دور میں بہت سی مساجد اور مزاروں کو نقصان پہنچا
وہ سکھ مذہب سے ہونے کے باوجود آپ سے عقیدت اور محبت رکھتا تھا اور آپ کے
مزار مبارک کا نہایت ادب و احترام کرتا تھا۔ ہر ماہ نذرانے بھیجتا اور عرس
کے موقع پر ایک ہزار روپے نقد دیتا۔ اپنے دورِ حکومت میں اس نے کئی مرتبہ
مزار شریف اور گردونواح کی مرمت کروائی۔ مہارانی چندر کور (رانی مہاراجہ
کھڑک سنگھ) نے احاطہ مزار کے اندر ایک شان دار دالان تعمیر کروایا۔ رنجیت
سنگھ اکثر اوقات خود بھی دربار شریف پر حاضری دیتا۔ بادشاہ کے علاوہ لاہور
اور دیگر علاقوں کے حکام ‘ صوبے دار‘ نواب‘ ناظم وغیرہ بھی آپ کے مزار شریف
پر حاضری دیتے اور یہ سلسلہ صدیوں سے آج تک جاری ہے اور ان شاء اﷲ جاری رہے
گا۔
1287ھ 1873ء میں حاجی نور محمد نامی ایک بزرگ نے آپ کے مزار شریف پر سبز
گنبد تعمیر کروایا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ 1968ء میں گنبد کے اندر دراڑ آ
گئی جسے میجر ابراہیم نے مرمت کروایا۔
1354ھ 1940ء میں مولوی فیروز دین (بانی فیروز سنز) نے چوبی جالیوں والی جگہ
سنگِ مرمر لگوایا۔ 24 دسمبر 1974ء کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو
نے دربار کے صدر دروازے کی ڈیوڑھی میں سونے کے دروازے کا افتتاح کیا۔ 28
جنوری 1978ء میں جدید توسیعی و تعمیراتی منصوبہ کا سنگِ بنیاد صدرِ پاکستان
جنرل محمد ضیاء الحق نے رکھا۔ منصوبہ 1989ء میں مکمل ہوا۔ مارچ 1992ء میں
افتتاح وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے کیا اس کمپلیکس کا بہترین
اثاثہ خطاطی کا کام ہے جسے سنگِ مرمر پر کندہ کیا گیا ہے جو پاکستان میں
اپنی نوعیت کا ریکارڈ کام ہے۔ اسے پاکستان کیلی گراف آرٹسٹس گلڈ نے اطہر
طاہر سابق سیکرٹری اوقاف کی سرپرستی میں سرانجام دیا یوں تو اس میں پاکستان
کے متعدد خطاطوں نے حطہ لیا مگرتقریباً اسی فیصد کام پاکستان کے نامور خطاط
خورشید عالم گوہر قلم نے سرانجام دیا۔ آپ کا مزار شریف بھاٹی دروازہ کے
سامنے بائیں جانب راوی روڈ پر واقع ہے۔ حضرت علی ہجویری ان زندہ جاوید
ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے عظیم علمی کارنامے پوری طرح محفوظ نہیں رہ سکے
پھر بھی جو کچھ ہم تک پہنچ سکا اس سے آپ کی عظمت آشکارہ ہو جاتی ہے کہ
صوفیاء متقدین و متأخرین میں آپ کی مثال تلاش کرنا آسان نہیں۔ مزار شریف
محکمہ اوقاف کے زیرانتظام ہے۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنے کتاب کشف المحجوب میں ولی اور شان ولایت کے حوالے
سے لکھتے ہیں -:
حضرت ابوعلی جرجانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدۂ حق میں باقی ہو اس کے لیے یہ
ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات کی کوئی بات کرے یا اﷲ کے سوا کسی اور سے
آرام و سکون پائے۔‘‘
حضرت جنید رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’؟؟ وہ ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا اس لیے کہ خوف اس چیز سے ہوتا ہے جس کے
آنے سے دل ناگواری محسوس کرتا ہو یا وجود پر اس کا بوجھ پڑتا ہو یا جو
محبوب اس کے ساتھ ہے اس کے جدا ہونے سے ڈرتا ہے اور ولی صاحبِ وقت ہوتا ہے‘
ویسے ہی اس کو امید (رجا) بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ امید اس پسندیدہ چیز کی
ہوشی ہے جس کا انسان دوسرے آئندہ وقت میں خواہش مند ہو یا ناپسندیدہ چیز کے
دفع ہونے اور مٹنے کی امید ہوتی ہے اور اسے کوئی غم بھی نہیں ہوتا اس لیے
کہ ہم وقت کی کدورت سے پیدا ہوتا ہے جو شخص رضا کے مقام پر فائز ہو یا
موافقت کو اپنا مسلک بنا چکا ہو‘ وہ غم کس چیز کا کھائے گا؟‘‘
حضرت ابوعثمان مغربی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’ولی لوگوں میں مشہور ہوتا ہے مگر دنیا کا اسیر نہیں ہوتا۔‘‘
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:
’’ولی پوشیدہ ہوتا ہے‘ مشہور نہیں ہوتا‘‘ یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو شہرت سے
پرہیز کرے اس لیے کہ شہرت میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعثمان رحمتہ
اﷲ علیہ کے نزدیک شہرت جائز ہے اس صورت میں کہ فتنے کا باعث نہ ہو اس لیے
کہ فتنہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے اور ولی تو اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے‘
جھوٹے پر ولایت کے لفظ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے‘ جھوٹے کے ہاتھ پر کرامت
کا ظہور بھی محال ہے تاکہ اس سے فتنہ نہ پھیلے۔‘‘
یہ دونوں اقوال پھر اسی بات سے متعلق ہو جاتے ہیں کہ ولی کو اپنے ولی ہونے
کا علم نہیں ہوتا کیونکہ اگر اسے اپنے ولی ہونے کا علم ہو تو وہ مشہور ہوگا
اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ جانتا ہو تو مفتون ہوگا اس کی تشریح خاصی طویل
ہے۔
حضرت ابراہیم ادھم رحمتہ اﷲ علیہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ ’’کیا تم ولی اﷲ
بننا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’ہاں!‘‘ آپ نے فرمایا ’’دنیا و آخرت کی رغبت
چھوڑ دے اس لیے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطراﷲ تعالیٰ سے روگردانی
کرنا ہے اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اﷲ سے روگردانی
کرنا ہے اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض
بھی باقی نہ رہے گا لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا
نہیں ہوگی۔ چنانچہ اس کے اعراض پر بھی فنا نہیں ہو گی لہٰذا اپنے آپ کو
دونوں جہان سے فارغ کر کے اﷲ کی دوستی کے لیے تیار کرو اور دنیا و آخرت کو
اپنے دل میں راہ نہ دو اور خدا کی طرف دِلی توجہ کرو‘ تیرے اندر یہ اوصاف
پیدا ہو جائیں تو ولایت دُور نہیں۔‘‘
حضرت ابو یزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپ
نے فرمایا ’’ولی وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے امرونہی پر قائم رہے۔‘‘ اس لیے کہ
جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہوگی اس کے دل میں اﷲ کے حکم کی عظمت
بھی زیادہ ہوگی اور اس کا جسم بھی اسی اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کی نہی سے دُور
ہوگا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ کا بیان ہے کہ:
’’ایک دفعہ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک ولی اﷲ موجود ہے‘ میں
اس کی زیارت کے لیے روانہ ہوا اس کی مسجد میں پہنچا تو اتفاق سے وہ بھی گھر
سے مسجد میں آیا۔ آتے ہی اس نے مسجد میں تھوکا‘ میں وہیں سے بغیر سلام و
کلام کے واپس ہو گیا۔ میں نے کہا ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی
پابندی کرے تاکہ حق تعالیٰ اس کی ولایت کی حفاظت کرتا رہے اگر یہ شخص ولی
اﷲ ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا۔ مسجد کی عزت و حرمت کا خیال کرتا‘ اﷲ
تعالیٰ اسے اس بات سے محفوظ رکھتا۔ اسی رات میں نے خواب میں آنحضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بایزید! تم نے جو
کام کیا ہے اس کی برکتیں تمہیں پہنچ گئی ہیں اس سے اگلے دن ہی میں اس درجے
کو پہنچ گیا جس پر تم سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہو۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ شیخ ابوسعید رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس
نے مسجد میں پہلے بایاں پاؤں رکھا۔ آپ نے فرمایا اسے واپس کرو کیونکہ جو
شخص محبوب کے گھر داخل ہونے کے آداب بھی نہیں جانتا‘ وہ ہمارے کام کا نہیں۔
ملحدین کا ایک گروہ ہے جو طریقت سے اپنا تعلق جتلاتا ہے اور کہتا ہے کہ
خدمت (عبادت) اس وقت تک کرنی چاہیے کہ بندہ ولی ہو جائے جب ولی ہو جاتا ہے
تو اس سے ہر قسم کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے‘ یہ گمراہی ہے‘ راہِ حق میں ایسا
کوئی مقام نہیں جہاں خدمت (عبادت) یا خدمت کا کوئی رُکن بندے سے اُٹھ جائے۔
’’کرامات‘‘
واضح رہے کہ تکلیف شرعی کے دائرے میں رہ کر ولی سے کرامات کا صدور جائز ہے
اور اہلسنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے۔ نیز یہ عقل کے نزدیک بھی ناممکن
اور محال نہیں اس لیے کہ یہ باتیں اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں داخل ہیں اور ان
کا اظہار بھی شریعت کی کسی اصل کے خلاف نہیں اور اس طرح کی باتیں وہم سے
بھی بعید اور خارج نہیں ہیں۔ کرامت صداقت ولی کی نشانی ہوتی ہے‘ جھوٹے سے
اس کا صدور جائز نہیں اور اس سے سوائے جھوٹے دعوے کے اور کیا ظاہر ہو سکتا
ہے؟ اور کرامت ایک ایسا خلافِ عادت فعل ہے جو ولی سے مکلف ہونے کی صورت میں
ظاہر ہوتا ہے اور جو معرفتِ الٰہی سے استدلال کی روشنی میں سچ کو جھوٹ سے
الگ کر سکے‘ وہ ولی ہے۔ اہلسنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ کرامت درست ہے
مگر معجزے کی حد تک نہیں مثلاً خلافِ عادت دعاؤں کا قبول ہونا یا اس سے کسی
مراد کا حاصل ہونا وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ سچے ولی کے ہاتھ پر دائرۂ شریعت
میں رہتے ہوئے کسی خلافِ عادل فعل کے ظہور میں آخر قباحت کیا ہے؟ اگر کہا
جائے کہ کرامات قدرتِ الٰہی سے باہر ہیں تو یہ گمراہی ہے اگر یہ کہا جائے
کہ اس کی قدرت اور اختیار میں تو ہیں مگر ولی کے ہاتھ پر ان کے ظہور سے
نبوت کا ابطال ہوتا ہے اور اس کی خصوصیت باقی نہیں رہتی تو یہ بھی غلط ہے
اس لیے کہ ولی کی خصوصیات کرامات سے ہے اور نبی کی خصوصیت معجزات سے۔
اگر یہاں کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ولی کی کرامت ناقصِ عادت ہوتی
تو وہ نبوت کا دعویٰ کرتا‘ یہ غلط ہے اس لیے کہ قول کی سچائی ولایت کی شرط
ہے اور خلافِ حقیقت دعویٰ کرنا جھوٹ ہے اور جھوٹا ولی نہیں ہو سکتا اگر ولی
نبوت کا دعویٰ کرے تو یہ معجزے پر دست اندازی ہے اور یہ خالص کفر ہے اور
کرامت سوائے مومن مطیع کے اور کسی کو میسر نہیں ہوتی‘ جھوٹ طاعت نہیں‘
معصیت ہے لہٰذا کرامت نبی کی نبوت کی حجت اور اس کی دلیل ہے‘ کرامات اور
معجزات کے درمیان کسی قسم کا تشابہ نہیں رہتا اس لیے کہ پیغمبر اپنی نبوت
کا ثبوت معجزات کے ثبوت سے دیتا ہے اور ولی بھی اپنی کرامت سے نبی کی نبوت
کا اثبات کرتا ہے۔
اُمت کی کرامت درحقیقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معجزہ ہے چونکہ آپ کی
شریعت باقی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی حجت اور دلیل بھی باقی رہے لہٰذا
اولیائے کرام رحمہم اﷲ رسول کی صداقت کے گواہ ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ کسی
غیر کے ہاتھ پر کرامت کا صدور ہو اس بارے میں حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اﷲ
علیہ سے ایک حکایت بیان کی جاتی ہے جو یہاں انتہائی مناسبِ حال ہے۔
حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اﷲ علیہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں حسبِ عادت
خلوت کی خاطر جنگل میں گیا۔ اچانک گوشے سے ایک شخص باہر نکل آیا اور اس نے
میری صحبت میں رہنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے اس پر نگاہ ڈالی تو میرے دل
میں اس سے نفرت پیدا ہو گئی۔ میں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ اتنے میں وہ مجھے
کہنے لگا ابراہیم! رنجیدہ خاطر نہ ہویئے میں ایک نصرانی راہب ہوں اور روم
سے آپ کی صحبت اختیار کرنے کی خاطر آیا ہوں۔ حضرت ابراہیم کا بیان ہے کہ جب
مجھے علم ہوا کہ یہ بے گانہ (غیرمسلم) ہے تو میرے دل کو سکون آ گیا اور
میرے لیے اس سے صحبت کا راستہ اور حقوق صحبت کی ادائیگی آسان ہوگئی۔ میں نے
اسے کہا ’’اے نصاریٰ کے راہب! میرے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں۔ مبادا
اس جنگل میں تمہیں تکلیف ہو‘‘ اس نے کہا ’’ابراہیم! دنیا میں تیرے نام کا
ڈنکا بج رہا ہے اور تو ابھی تک کھانے پینے کی فکر میں پھنسا ہوا ہے؟‘‘ آپ
کا بیان ہے کہ مجھے اس کی اس بے تکلفی پو تعجب ہوا اور میں نے اسے اپنی
صحبت میں قبول کر لیا۔ اس خیال سے کہ تجربہ تو کروں کہ وہ اپنے دعوے میں
کہاں تک سچا ہے جب ہمیں اس جنگل میں سات دن گزر گئے تو پیاس نے غلبہ کیا‘
وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ’’ابراہیم! دنیا میں تمہاری شہرت کے اس قدر
نقارے بج رہے ہیں‘ لاؤ نکالو اگر کچھ ہے‘ تمہارے پاس! آپ کی جناب میں اس
گستاخی کی وجہ یہ ہے کہ اب مجھے پیاس کی وجہ سے صبر کی طاقت نہیں رہی۔‘‘
آپ کا بیان ہے کہ میں نے اپنا سرزمین پر رکھ دیا اور عرض کی باری تعالیٰ!
مجھے اس کافر کے سامنے رسوا نہ کر اس لیے کہ اس نے بے گانہ ہوتے ہوئے مجھ
پر نیک گمان کیا ہے۔ میرے بارے میں اس نے جو گمان کیا ہے وہ پورا فرما۔ آپ
کا کہنا ہے کہ میں نے جونہی سر اُٹھایا تو ایک خوانچہ موجود تھا‘ جس میں دو
روٹیاں اور دو گلاس پانی رکھا تھا‘ ہم نے روٹیاں کھائیں اور وہاں سے چل پڑے
جب دوسرے سات دن گزرے تو میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ نصرانی مجھ سے
کوئی اور چیز طلب کر کے مجھے امتحان میں ڈالے اس کا تجربہ کرنا چاہیے تاکہ
وہ اپنی ناکامی کی ذلت دیکھ لے۔ میں نے کہا کہ اے نصرانیوں کے راہب! آؤ آج
تمہاری باری ہے‘ آخر پتہ تو چلے کہ مجاہدات نے تمہیں کیا ثمرہ دیا ہے؟
اس نے سرزمین پر رکھ دیا اور کچھ کہا‘ اتنے میں ایک طشت نمودار ہوا جس پر
چار روٹیاں ار چار گلاس پانی موجود تھا۔ مجھے اس بات سے سخت تعجب ہوا اور
میں رنجیدہ خاطر ہوا۔ ساتھ ہی اپنے احوال سے ناامید ہو گیا اور ارادہ کر
لیا کہ میں اس میں سے کچھ نہیں کھاؤں گا کیونکہ یہ ایک کافر کے لیے آیا ہے
اب یہ اس کی طرف سے اعانت ہوگی۔ میں اسے کیسے کھا سکتا ہو؟ وہ مجھ سے کہنے
لگا ابراہیم! کھاؤ! میں نے کہا میں نہیں کھاؤں گا اس نے پوچھا آخر کس وجہ
سے نہیں کھا رہے ہو؟ میں نے کہا اس لیے کہ کرامت کے تم اہل نہیں ہو اور یہ
تمہارے حال کی جنس سے نہیں ہے‘ میں تمہارے معاملے میں متعجب ہوں اگر اسے
کرامت قرار دیتا ہوں تو کافر سے کرامت کا صدور جائز نہیں اگر اسے اعانت کا
نام دیتا ہوں تو بھی مجھے اعتراض ہے۔
اس نے کہا ابراہیم کھاؤ! اور دو باتوں کی خوش خبری سنو۔ ایک تو میں اسلام
قبول کرتا ہوں اور کہتا ہوں ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے اس کا کوئی
شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور
رسول ہیں۔‘‘ اور دوسری یہ کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ کا بڑا مرتبہ اور درجہ
ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے’ اس نے کہا میرے پاس اس قسم کی کوئی چیز نہ تھی‘
میں نے تمہاری شرم کی وجہ سے سرزمین پر رکھا اور عرض کیا کہ یااﷲ! اگر حضرت
محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا دین برحق اور تیرا پسندیدہ ہے تو مجھے
روٹیاں اور دو گلاس پانی عطا فرما اور اگر ابراہیم خواص تیرا ولی ہے تو
مجھے مزید دو روٹیاں اور دو گلاس پانی مرحمت فرما۔ یہ کہہ کر میں نے سر
اُٹھایا تو طشت سامنے موجود تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اﷲ علیہ
نے وہ کھانا تناول فرمایا۔ وہ راہب بزرگانِ دین کے مرتبے کو پہنچا‘ یہ
کرامتِ ولی کی شکل میں عین نبی کا معجزہ ہے اور یہ انتہائی نادر بات ہے کہ
غیبت کی حالت میں نبی غیر کو معجزہ دِکھائے یا ولی کی موجودگی میں غیرولی
کو اس کی کرامت کا فیض ملے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ مقامِ ولایت کے منتہا پر فائز ہونے والے کو اس راہ کے
مبتدی کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔ وہ راہب بھی ساحرانِ فرعون کی طرح
پوشیدہ حال تھا۔ حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اﷲ علیہ نے بھی نبوت کی صداقت اور
ولایت کی شان دیکھنی چاہی۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حسنِ عنایت سے اس کا مقصد
پورا کر دیا لہٰذا کرامت اور معجزے کے درمیان فرق ظاہر ہے‘ یہ بحث کافی
طویل ہے۔ مضمون میں اس کی گنجائش نہیں اور اولیاء اﷲ سے کرامات کا اظہار
ایک دوسری کرامت ہے اس لیے کہ ولایت کی شرط کرامات کا چھپانا ہے نہ کہ
انہیں بہ تکلف ظاہر کرنا۔
مشائخِ طریقت اور تمام اہلسنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کافر کے
ہاتھ پر معجزے اور کرامت کی طرح کوئی خلافِ عادت فعل ظاہر ہو سکتا ہے مگر
یہ فعل ایسا ہوگا جسے کرامت اور معجزے کے ساتھ کسی قسم کی مشابہت کا امکان
بھی نہیں ہوگا اور کسی کو ایسے شخص کے جھوٹے ہونے میں قطعاً کوئی شک نہ
ہوگا بلکہ خود اس کا وہ فعل اس کے جھوٹ کی دلیل ہوگا۔
جیسے فرعون نے چارسو سال کی عمر پائی مگر اس دوران وہ کبھی بیمار نہیں ہوا
اس کے عقب میں پانی بلند سطح پر ہوتا‘ وہ رُک جاتا تو پانی بھی رُک جاتا
اور وہ چلتا تو پانی بھی چل پڑتا اس طرح کی اور باتوں کے باوجود کسی عقل
مند کو بھی اس بات میں شک و شبہ نہیں کہ وہ اپنے دعویٰ خدائی میں جھوٹا اور
کافر تھا اس لیے کہ عقلاء اﷲ تعالیٰ کو مجسم اور مرکب تسلیم نہ کرنے پر
مجبور ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے زیادہ واقعات فرعون کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے تو
بھی انہیں اس کے دعوے کے جھوٹا ہونے میں شبہ نہ ہوتا۔
شداد صاحب ارم اور نمرود کے ایسے واقعات کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے اسی
طرح مخبر صادق آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ وہ
آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے دائیں بائیں دو
پہاڑاس کے ساتھ چل رہے ہوں گے دائیں طرف والا پہاڑ جنت کا نمونہ ہوگا اور
بائیں طرف والا دوزخ کا۔ لوگوں کو اپنی خدائی کی دعوت دے گا جو اس کی دعوت
قبول نہ کرے گا‘ اسے عذاب دے گا۔ اﷲ تعالیٰ اس کی گمراہی کے سبب لوگوں کو
مارے گا اور پھر زندہ کرے گا‘ سارے عالم میں اسی کا حکم چلے گا اگر وہ ان
کے علاوہ سو گنا زیادہ خلافِ عادت واقعات دِکھائے تو بھی کسی عقل مند کو اس
کے جھوٹا ہونے میں کوئی شبہ نہ ہوگا اس لیے کہ صاحبِ عقل آدمی یہ ضرور سوچے
گا کہ اﷲ تعالیٰ نہ گدھے کی سواری کرتا ہے اور نہ ہی اس پر تغیر اور تلون
جائز ہے‘ یہ باتیں استدراج کے حکم میں آتی ہیں۔
یہ بھی جائز ہے کہ کسی جھوٹے نے مدعی رسالت کے ہاتھ پر خلافِ عادت فعل کا
ظہور ہو مگر یہ فعل اس کے جھوٹ کی دلیل ہوگا البتہ سچے کے ہاتھ سے خلافِ
عادت فعل کا ظہور اسکی سچائی کی علامت ہوگا یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ کوئی
ایسا خلافِ عادت فعل ظاہر ہو جس کی پہچان میں شبہ پڑ جائے کیونکہ اگر شک و
شبہ کی گنجائش ہو تو پھر جھوٹے اور سچے کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہو جائے
گا اور طالبِ حقیقت کو قطعاً یہ پتہ نہیں چلے گا کہ وہ کس کی تصدیق کرے اور
کس کی تکذیب؟ کیونکہ ایسے میں کسی ایک بات کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہوگا اور
یہ بھی جائز ہے کہ کسی مدعی ولایت کے ہاتھ پر کرامت قسم کی کوئی چیز ظاہر
ہو جو دین میں صحیح اور درست ہو اگرچہ معاملات کے اعتبار سے وہ خود بہت
اچھا نہ ہو اس لیے کہ وہ اس سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کا اثبات
کر رہا ہے اور فضلِ خداوندی کا ممنون احسان ہے۔ وہ اس فعل کو اپنی طاقت و
قوت کا کرشمہ نہیں سمجھتا اور جو اصل ایمان میں کسی خرق عادت کے بغیر سچا
ہے‘ وہ دیگر تمام احوال میں اپنے اعتقاد کے مطابق ولی سمجھا جائے گا اگرچہ
اس کے اعمال اعتقاد کے مطابق نہ ہوں اس کے ظاہری اعمال کا نقص یا خرابی اسی
طرح اس کی ولایت کی نفی نہیں کرتی جیسے یہ چیز اس کے ایمان کی نفی کرتی۔
درحقیقت کرامت اور ولایت عطیہ الٰہی ہے نہ کہ کسب بندہ‘ انسانی کوشش اور
کسب حقیقت ہدایت کا سبب نہیں بن سکتے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اولیاء معصوم
نہیں ہوتے اور نہ ہی عصمت ولایت کی شرط ہے البتہ وہ ہر ایسے فعل سے محفوظ
رہتے ہیں جس کا وجود ولایت کے منافی ہو اور ولایت ختم ہو سکتی ہے مگر
ارتداد سے‘ گناہ سے نہیں
..........
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کی زندگی پر تحقیقی نظر ڈالتے ہوئے
برادرم رنا شفیق پسروری روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے اپنے تجزیئے
میں لکھتے ہیں -:
دارالشکوہ سفیۃ الاولیاء میں لکھتا ہے ’’حضرت غزنی کے رہنے والے تھے‘ جلاب
اور ہجویر غزنی کے دو محلے تھے۔ پہلے جلاب میں قیام پذیر تھے اور پھر ہجویر
میں منتقل ہو گئے۔ ان کے والد گرامی کی قبر غزنی میں ہے…… والدہ ماجدہ کی
قبر بھی پیر علی ہجویری کے ماموں تاج الاولیاء کے مزار سے متصل ہے۔ آپ کا
خانوادہ زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھا۔
آپ کی کنیت ابوالحسن یقیناً صفاتی ہے اس لیے کہ آپ کی کوئی صلبی اولاد نہ
تھی۔ حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ خود بھی اکلوتی اولاد تھے اور ان
کی کوئی حقیقی اولاد نہ تھی۔
آپ کا شجرہ یوں ہے:
’’حضرت سید علی ہجویری بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید علی بن حضرت سید
عبدالرحمن بن سید عبداﷲ (شاہ شجاع) بن حضرت سید ابوالحسن بن حضرت سید حسن
(اصغر) بن حضرت سید زید بن حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ بن حضرت سیدنا علی رضی
اﷲ عنہ۔‘‘
آپ کا قدمیانہ جسم سڈول اور گھٹا ہوا تھا‘ جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی
تھیں۔ فراخ سینہ اور ہاتھ پاؤں مناسب تھے‘ چہرہ زیادہ گول تھا نہ لمبا‘ سرخ
و سفید چمک دار رنگ تھا‘ کشادہ جبیں اور بال سیاہ گھنے تھے‘ بڑی اور غلافی
آنکھوں پر خم دار گھنی ابرو تھیں‘ ستواں ناک‘ درمیانے ہونٹ اور رخسارے بھرے
ہوئے تھے‘ چوڑے اور مضبوط شانوں پر اُٹھتی ہوئی گردن تھی۔ ریش مبارک گھنی
تھی۔ آپ بڑے جاذبِ نظر اور پُرکشش تھے۔
آپ تن ڈھانپنے کے لیے کسی خاص وضع قطع کے لباس کا تکلف نہ فرماتے تھے جو
میسر آتا‘ پہن لیتے تھے۔ لباس کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
’’ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے لباس کے بارے میں تکلف نہیں کیا اگر رب
تعالیٰ نے انہیں گدڑی دی‘ زیب تن کرلی اگر قبا دی تو پہن لی۔ میں نے اسی
مسلک اعتدال کو اختیار کر رکھا ہے اور لباس کے سلسلے میں مجھے یہی طریقہ
پسند ہے۔‘‘ (کشف المحجوب)
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کی سال ولادت کے بارے میں متعدد روایات
ہیں۔ بعض تذکرہ نگاروں کی رائے ہے کہ:
’’آپ کی پیدائش دسویں صدی عیسوی کے آخر یا گیارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی
عشرے میں ہوئی۔‘‘ آر اے نکلسن (انگریزی ترجمہ کشف المحجوب ص۱۱ دیباچہ)
’’آپ کی ولادت ماہِ ربیع الاوّل 373ھ میں ہوئی۔‘‘ حافظ عبداﷲ فاروقی‘ مصباح
الحق صدیقی (حیات و تعلیمات حضرت داتا گنج بخش (انگریزی) ص831-1)
’’شیخ علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے نام سے زیادہ مشہور ہیں وہ 9001ء کے
قریب پیدا ہوئے۔‘‘ شیخ محمد اکرم (آبِ کوثر ص67)
’’آپ 004ھ کے نواح یعنی پانچویں صدی کے عین آغاز میں پیدا ہوئے۔‘‘ سید
ہاشمی فرید آبادی (ماثر لاہور ص191)
’’آپ کی ولادت پانچویں صدی کے شروع میں ہوئی ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر محمد شفیع مولوی
(مقالات دینی و علمی جلد ص322)
‘‘بعض لوگوں نے ان کی پیدائش کا سال 004ھ لکھا ہے لیکن اس کو یقینی نہیں
کہا جا سکتا۔‘‘ معین الحق ڈاکٹر (معاشرتی وعلمی تاریخ ص12)
’’آپ کی ولادت 004ھ/0101 میں ہوئی۔‘‘ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد9 ص19
جامعہ پنجاب لاہور)
آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے ہی علمی گھرانے میں ہوئی جب آپ لائق سفر ہوئے تو
دنیائے اسلام کے بیشتر ممالک کی سیاحت فرمائی۔ اپنے دور کے اساتذہ‘ علماء
اور مشائخ کبار کی صحبت سے کسب فیض کیا اور علم و عرفان کے موتی اکٹھے کیے۔
آپ کے اساتذہ میں حضرت ابوالعباس بن محمد شقانی‘ حضرت ابوالقاسم بن علی بن
عبداﷲ گرگانی‘ حضرت عبدالکریم ابوالقاسم بن ہوازن القشیری‘ حضرت ابوجعفر
محمد بن مصباح صیدلانی‘ حضرت ابوسعید ابوالخیر فضل اﷲ بن محمد المہینی‘
حضرت ابو احمد المظفر بن احمد بن حمدان‘ حضرت ابوالفصل محمد بن الحسن
الحثلی‘ حضرت ابوعبداﷲ ممد بن علی الداغستانی۔
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں محققین
اور تذکرہ نگاروں کی رائے مختلف ہے حالانکہ تقریباً سب نے کشف المحجوب میں
رقم مندرجہ ذیل عبارت کو بطورِ سند پیش کیا ہے اور اسی ایک عبارت سے آپ کی
ازدواجی زندگی کے متعلق مختلف نتائج اخذ کیے ہیں کہ:
’’حق تعالیٰ نے مجھے گیارہ سال تک نکاح کی آفت سے محفوظ رکھا لیکن اس فتنے
میں مبتلا ہونا مقدر میں تھا۔ میں بن دیکھے اس کی صفات جو مجھ سے بیان کی
گئیں انہیں سُن کر میرا ظاہر اور باطن اس کا اسیر ہو گیا اور میں ایک سال
تک اس کے خیال میں مستغرق رہا۔ نزدیک تھا کہ میرا دین تباہ ہو جاتا۔ اﷲ
تعالیٰ نے کمال لطف اور فضل تمام سے میرے دل بے چارہ کو عصمت عطا کی اور
اپنی رحمت سے خلاصی عنایت فرمائی۔‘‘
سال وردد کا ٹھیک ٹھیک تعین مشکل ہے البتہ غالب قیاس یہی ہے کہ آپ 134ھ میں
واردِ لاہور ہوئے۔
’’فوائد الفواد‘‘ حضرت نظام الدین اولیاء متوفی 5527ھ/5231ء کے ملفوظات کا
مجموعہ ہے۔ اسے آپ کے خلیفہ میرحسن علاء سنجری نے مرتب کیا۔
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے مرشد کی وصیت کا ذکر کشف
المحجوب میں یوں کیا ہے:
’’جس دن میرے مرشد کی وفات ہوئی اس وقت وہ بیت الجن میں تھے۔ یہ قصبہ
بانیار اور دمشق کی درمیانی گھاٹی میں واقع ہے۔ وصال کے وقت آپ کا سر میری
آغوش میں تھا اور اس وقت میرا دل انسانی فطرت کے مطابق ایک سچے دوست کی
جدائی پر نہایت غم گین تھا۔ آپ نے مجھے وصیت فرمائی اے فرزند! میں تجھے
اعتقادی مسئلہ بتاتا ہوں اگر تو اس پر عمل کرے گا تو سب تکالیف سے چھوٹ
جائے گا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ سب مقامات وحالات میں خدا تعالیٰ ہی
نیک و بد پیدا کرتا ہے اس لیے اس کے کسی فعل پر معترض نہ ہونا چاہیے اور نہ
دل رنجیدہ کرنا چاہیے اس کے علاوہ آپ نے کوئی نصیحت نہ فرمائی اور اپنی جان
مالکِ حقیقی کے سپرد کر دی۔‘‘
وصیت شیخ کے حوالے سے بھی لاہور کا کوئی تذکرہ موجود نہیں۔ ان شواہد سے اس
بات کو تقویت پہنچی ہے کہ فوائد الفواد کی روایت الحاقی ہے اور حضرت حسین
زنجانی رحمتہ اﷲ علیہ سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کے پیر بھائی اور ہم
عصر بزرگ نہ تھے۔
حضرت حسین زنجانی (مدفون چاہ میراں) کو حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ
سے والہانہ عقیدت تھی اس لیے اکثرآپ کے مزار پر حاضری دیتے۔
آپ کی سن وفات کے بارے میں بھی آراء مختلف ہیں جن محققین اور تذکرہ نگار
حضرات نے سن وفات 564ھ سے اتفاق کیا ہے۔ مندرجہ ذیل ہیں:
مولانا جامی لاہوری قطعہ تاریخ 564ھ نظم کیا ہے۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی
نے مآثر الکرام میں گنیش داس وڈیرا نے چار باغ پنجاب میں‘ سامی بیگ نے
قاموس الاعلام میں‘ صباح الدین عبدالرحمن نے بزم صوفیہ میں‘ امام بخش نے
حدیقۃ الاسرار فی اخبار الابرار میں‘ مفتی غلام سرور لاہوری نے تاریخ مخزن
پنجاب اور خزینۃ الاصفیاء میں‘ رائے بہادر کنیا لال نے تاریخ لاہور میں‘
شمس العلماء مولوی سید احمد دہلوی نے فرہنگ آصفیہ میں‘ مولانا عبدالماجد
دریا بادی نے تصوفِ اسلام میں‘ شمس العلماء سید عبداللطیف نے تاریخ لاہور
(انگریزی) میں‘ اسماعیل پاشا بغدادی نے اسماء المصنفین میں‘ ملک الشعراء
بہار نے سبک شناسی میں‘ رحمان علی نے تذکرہ علماء ہند میں‘ ہدایت حسین نے
دائرۃ المعارف میں‘ محمد دین فوق نے سوانح عمر حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اﷲ
علیہ میں‘ نور احمد چشتی نے تحقیقات چشتی میں‘ فقیر محمد جہلمی نے حدائق
الحنفیہ میں‘ سید عبدالحئی حسنی نے نزہۃ الخواطر میں اور شیخ محمد اکرام نے
آب کوثر میں آپ کا سن وصال 564ھ درج کیا ہے۔
دارالشکوہ نے سفینۃ الاولیاء میں 654ھ اور 464ھ‘ لعل بیگ لعلی نے ثمرات
القدس میں 654ھ‘ ڈاکٹر قاسم غنی نے تاریخ تصوف دراسلام جلد دوم میں 074ھ
اور نکلسن نے 564ھ یا964ھ کو سال وفات قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع
نے ملاقات دینی و علمی میں کشف المحجوب میں مذکور شیوخ کے اسماء سے استناد
کرتے ہوئے جو کشف المحجوب کی تحریر کے وقت فوت ہو چکے تھے یہ نتیجہ نکالا
ہے کہ آپ 974ھ تک بقید حیات تھے۔
عبدالحئی حلیبی نے اورینٹل کالج میگزین 0691ء میں اس استناد کومزیدآگے
بڑھایا اور داخلی شہادتوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ آپ 184ھ سے 005ھ کے
درمیان فوت ہوئے۔ سالِ ولادت و وصال میں اختلاف کے باوجود یہ بات یقینی ہے
کہ آپ کا دور پانچویں صدی ہجری پر محیط ہے۔
سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی اس کتاب میں عقلی اور فلسفیانہ
پیچیدہ مباحث کے برعکس انتہائی سادہ انداز میں خالصتاً اسلام کی دعوت دی
ہے۔ بڑے زور وشور اور جوش و خروش کے ساتھ شریعت و سنت کی حاکمیت کا غلغلہ
برپا کیا ہے۔وہ شریعت و سنت سے باہر عمل کے ایک معمولی قدم یا سوچ کی ایک
ادنیٰ لکیر کا تصور تک نہیں کرتے۔
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ اپنی تصنیف کشف المحجوب میں خود رقم
طراز ہیں کہ:
’’اے طالبِ راہِ حقیقت! اﷲ تعالیٰ دونوں جہانوں کی سعادت مندی نصیب فرمائے
جب تم (ابوسعید ہجویری) نے مجھے اپنے سوال کے ذریعے اس کتاب کی درخواست کی
تو میں نے استخارہ کیا اور خود کو قلبی واردات اور باطنی القاء کے حوالے کر
دیا جب استخارہ میں اذن الٰہی حاصل ہو گیا تو میں نے تمہاری مقصد برآری کی
خاطر اس کتاب کے لکھنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور اس نوشتہ کا نام ’’کشف
المحجوب‘‘ رکھا۔ امید ہے اربابِ فہم و بصیرت اس کتاب میں اپنے سوالات کا
جواب علیٰ وجہ الکمال پائیں گے۔‘‘
کشف المحجوب کا قدیم ترین مطبوعہ ایڈیشن وہ ہے جس کا ذکر اے جے آر بری نے
انڈیا آفس لائبریری کی کتابوں کی فہرست میں کیا ہے۔ ایل ایس ڈگن کی فہرست
کے مطابق کشف المحجوب کے قلمی نسخے دی آنا‘ پیرس‘ برٹش میوزیم‘ لینن گراڈ
یونیورسٹی‘ انڈیا آفس لائبریری لندن‘ تاشقند پبلک لائبریری‘ رائل ایشیا ٹک
سوسائٹی آف بنگال برلن اور لاہور کے کتب خانوں میں موجود ہیں ان میں ساڑھے
تو سو سال پرانا نسخہ بھی شامل ہے۔
کشف المحجوب کے قدیم ترین قلمی نسخوں کے سلسلے میں لاہور میں بھی بعض نادر
نسخے موجود ہیں۔ وہ منقش قلمی نسخے پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں ہیں جن
میں سے ایک پر 5621ھ درج ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد کا ایک قلمی نسخہ
بھی پبلک لائبریری لاہور میں ہے۔ ایک صحیح قلمی نسخہ الحاج حضرت میاں محمد
صدیق (مرحوم) یکے از سجادہ نشین درگاہ حضرت گنج بخش رحمتہ اﷲ علیہ کے ذاتی
کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ یہ وہ قدیم ترین فارسی نسخہ ہے جس کی سب سے پہل نول
کشور لکھنوی نے نقل کروائی اور طباعت کے بعد شائع کیا۔ ایک قدیم قلمی نسخہ
شیخ نبی بخش (مرحوم) یکے از سجادہ نشین حضرت ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کے پاس
موجود تھا جو رضا پبلی کیشنز لاہور نے طبع کروا کر شائع کیا۔
کشف المحجوب کا انگریزی ترجمہ برطانوی عالم آر اے نکلسن نے کیا تھا جسے
1191ء میں سٹیفن آئسن اینڈ سنز لندن نے شائع کیا تھا۔ تیسری بار کشف
المحجوب سمرقند میں شائع ہوئی اس کو سید عبدالمجید مفتی نے 0331ھ میں شائع
کیا تھا۔ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں سمرقندی نسخہ ایل ایس ڈگن کو
افغانستان سے ملا تھا۔
کشف المحجوب کا مستند نسخہ روس میں شائع ہوا جسے روسی پروفیسر ژوکوفسکی نے
ترتیب دیا۔ یہ نسخہ لینن گراڈ سے شائع ہوا اس میں پروفیسر ژوکوفسکی نے مفصل
دیباچہ شامل کیا اس نسخے کی بنیاد دی آنا کی قومی لائبریری میں موجود ایک
نسخہ پر ہے۔ پروفیسر ژوکوفسکی کے مطابق انہوں نے ایک ایسے نسخے کا بھی
مطالبہ کیا جو گیارہویں صدی عیسوی کے شروع میں لکھا گیا اور اس کے علاوہ
روسی پروفیسر نے تاشقند کی لائبریری میں گیارہویں صدی عیسوی میں شائع ہونے
والے ایک اور نسخے سے بھی استفادہ کیا اور اسی نسخہ کی بنیاد پر ایران کے
محمد لوی عباسی نے اور 9791ء کو کتاب خانہ طہوری تہران نے بھی قاسم انصاری
کے مقدمہ کے ساتھ کشف المحجوب کا ایک انتہائی خوب صورت ایڈیشن شائع کیا۔
کشف المحجوب کے اس وقت تک تقریباً 30 اردو ترجمے چھپ چکے ہیں اور بعض تراجم
کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
کشف المحجوب کا عربی زبان میں پہلا ترجمہ شیخ تاج الدین سنبھلی رحمتہ اﷲ
علیہ نے جہانگیر کے دور میں کیا اور دوسرا جدید عربی ترجمہ ڈاکٹر اسماء
عبدالہادی قندیل نے کیا ہے جو مکتبہ الاہرام التجاریہ کی طرف سے 4791ء میں
طبع ہوا۔ کشف المحجوب پر مقالہ تحریر کر کے ایک ایرانی سکالر محمد حسین
تسبیحی نے پنجاب یونیورسٹی شعبہ فارسی سے 5891ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل
کی۔
حضرت سید علی ہجویری نے جہاں ضروری سمجھا کشف المحجوب میں بطورِ سند قرآن
مجید کی آیات کریمہ‘ احادیثِ مبارکہ اور صوفیاء مشائخ کے اقوال پیش کیے
ہیں۔
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ نے قرآنِ کریم کی بہتر سورتوں میں سے دو
صد اکتیں آیات کریمہ کے حوالے دیئے ہیں۔
کشف المحجوب میں ایک سو اڑتیں احادیث مبارکہ اور مختلف صوفیاء و مشائخ کے
تین سو باون اقوال زریں اور بیالیس عربی اشعار درج فرمائے ہیں اس کے علاوہ
مشائخ و صوفیاء کی اکیس تصانیف کے حوالے بھی دیئے ہیں۔
صوفیاء و مشائخ کے اسماء مبارک جن کا ذکر آپ نے کشف المحجوب میں مختلف
جگہوں پر رقم فرمایا ان کی تعداد تقریباً تین سو اٹھاسی ہے اور اکیس شہروں
کا ذکر نام لے کر کیا ہے۔
پانچویں صدی ہجری تک مسلمانوں میں جتنے فرقے تھے یا گزر چکے تھے ان کا ذکر
بھی تفصیل سے کیا ہے ان کی تعداد تقریباً پچاس کے لگ بھگ بتائی ہے۔
جن معروف بزرگوں نے کشف المحجوب سے استفادہ کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:
خواجہ فرید الدین عطار (م726ھ) تذکرۃ الاولیاء‘ مولانا جامی فحات الانس‘
حضرت جہانگیر اشرف سمنائی (528‘ خواجہ نظام الدین اولیاء‘ حضرت یحییٰ منیری
(287م)‘ حضرت خواجہ محمد پارسا (228ھ) فصل الخطاب‘ حضرت خواجہ بندہ
گیسودراز (ر528ھ)
حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ کی آخری تصنیف کشف المحجوب کے مطالعہ سے
ان کی نو دیگر مندرجہ ذیل تصانیف کے نام معلوم ہوئے ہیں مگر ان میں سے ایک
بھی دستیاب نہیں۔
-1 دیوان -2 کتاب فناوبقاء -3 اسرار الخرق والمؤنات -4 الرعایت بحقوق اﷲ
تعالیٰ -5 کتاب البیان لاہل العیان‘ 6 نحو القلوب ‘ -7 منہاج الدین‘ -8
ایمان-9 شرح کلام منصور۔
کشف الاسرار نام کی ایک کتاب کا تذکرہ آپ کی تصانیف کے ضمن میں ملتا ہے
اگرچہ کشف المحجوب میں اس کا ذکر نہیں۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ ولی کامل کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مصنف اور شاعر بھی تھے۔
آپ نے گیارہ کتابیں لکھیں مگر آپ کی جس تصنیف نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی
۔اس کتاب کا نام کشف المحجوب ہے۔ آپ کی تمام کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
(1) کشف المحجوب (2) دیوان شعر (3) کتاب فناء وبقاء (4) اسرار الخرق
والموفات (5) الرعایہ بحقوق اﷲ تعالیٰ (6) کتاب البیان لاہل العیان (7) نحو
القلوب (8) منہاج الدین (9) ایمان (10) فرق الفرق (11) کشف الاسرار۔
ان میں صرف کشف المحجوب اور کشف الاسرار دستیاب ہیں۔ آپ کا عرس ہر سال
اسلامی مہینے صفر کی 18‘ 19‘ 20 تاریخ کو نہایت عقیدت واحترام سے منایا
جاتا ہے۔
اقوال حضرت داتا گنج بخشؒ:
1- نفس کی مخالفت سب عبادتوں کا اصل اور سب مجاہدوں کا کمال ہے۔
2- بندے کے لئے سب چیزوں سے مشکل خدا کی پہچان ہے۔
3- دس چیزیں دس چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔ توبہ گناہوں کو‘ جھوٹ رزق کو‘ غیبت
نیک اعمال کو‘ غم عمر کو‘ صدقہ بلاؤں کو‘ غصہ عقل کو‘ پشیمانی سخاوت کو‘
تکبر علم کو‘ نیکی بدی کو اور عدل ظلم کو۔
( یہ مضمون ٖتحریر و تحقیق: راؤ جاوید اقبال ٗرانا شفیق پسروری اور چند
دیگر تحریروں سے استفادہ کرکے تیار کیاگیا ہے ۔جس میں ان تحقیق نگاروں کا
بے حد شکرگزار ہوں ۔)
|