بلاشبہ اقبال اردو زبان کے ان عظیم شعرا میں شامل
ہیں،جو صدیوں تک زیرِ بحث رہیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال صرف شاعر نہیں،
مفکر بھی ہیں اور ان کی فکر شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی جلوہ گر ہوئی
ہے۔ نثر کو انھوں نے باقاعدگی سے ذریعہ اظہار نہیں بنایا، تاہم ان کی نثر
اپنی وسعت اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ان کی شاعری سے فرو تر نہیں۔
انگریزی خطبات، اردو مضامین و مقالات، تقاریر، تقاریظ، ملفوظات اور مکمل و
نامکمل کتابی منصوبوں کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ ہزار مکاتیب بھی ان سے یادگار
ہیں۔ دیکھا جائے تو اقبال کے سوانح اور شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی فکر کے
ارتقا کو سمجھنے کے لیے ان کے خطوط ہی زیادہ کارگر ثابت ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ نثری مکتوبات کے ساتھ ساتھ اقبال کے ہاں بعض منظوم مکتوبات بھی
ملتے ہیں، جو اُن کے شعری مجموعوں میں منظومات کی صورت میں شامل ہیں۔ اگرچہ
نثری خطوں کی کثیر تعداد کے مقابلے میں ان کے کلام میں موجود آٹھ منظوم خط
کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ منظوم مکتوب نگاری میں
اقبال کا نام نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان منظوم خطوں میں پانچ بانگِ درا میں،
یعنی ’طلبہ علی گڑھ کے نام‘، ’عبدالقادر کے نام‘، ’فلسفہ غم‘، ’عید پر شعر
لکھنے کی فرمائش کے جواب میں‘ اور ’ایک خط کے جواب میں‘ شامل ہیں؛ دو بالِ
جبریل میں، یعنی ’جاوید کے نام‘ اور ’یورپ سے ایک خط‘ اور ایک ارمغانِ حجاز
اردو میں، یعنی ’سر اکبر حیدری، صدرِ اعظم حیدرآباد کے نام‘۔
اگرچہ چند اَور نظمیں بھی اسی طرح کے ناموں سے موسوم ہیں، لیکن وہ اپنے پس
منظر اور مندرجات کے اعتبار سے مکاتیب میں شامل نہیں، مثلاً بالِ جبریل کی
نظمیں ’جاوید کے نام‘ اور ’ایک نوجوان کے نام‘ اور ضربِ کلیم کی نظمیں ’ایک
فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ اور ’جاوید سے‘۔ ان نظموں میں اقبال کا انداز
خطیبانہ ہے اور انداز ناصحانہ، گویا یہ براہِ راست خطاب ہے، مکتوب نہیں۔
بانگِ درا کے حصہ دوم کی پانچویں نظم ’طلبہ علی گڑھ کے نام‘ جون ۱۹۰۷ء کے
’مخزن‘ میں شائع ہوئی۔ یہ نظم اگرچہ باقاعدہ خط نہیں، جو طلبہ علی گڑھ کے
نام لکھا گیا ہو، لیکن چونکہ یہ پیغام ہے اور بالخصوص طلبہ کے نام ہے،
چنانچہ صحافتی زبان میں اسے ’کھلا خط‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ نظم اُس دَور میں
لکھی گئی، جب طلبہ نے علی گڑھ کالج کے انگریز پرنسپل کے خلاف ہڑتال کر دی
تھی۔ اقبال سمجھتے تھے کہ ابھی احتجاجی سیاست کا وقت نہیں اور مبادا طلبہ
قبل از وقت اپنی توانیاں اور صلاحیتیں صرف کر بیٹھیں، چنانچہ انھوں نے
شاعرانہ انداز میں انھیں صبر و تحمل کا پیغام دیا۔ اس نظم کے سات اشعار میں
سے ابتدائی چھ شعر تمہیدی ہیں، فقط آخری شعر مطلوبہ پیغام کا حامل ہے۔
اقبال نے علامتی انداز میں انھیں تلقین کی کہ:
بادہ ہے نیم رَس ابھی ، شوق ہے نارَسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
علامہ کی نظر میں جب تک بادہ نیم رَس ہے اور شوق نارَسا ہے، خم کا بند رہنا
ہی مناسب ہے؛ یعنی اے نونہالانِ علی گڑھ! ابھی تمھاری تربیت مکمل نہیں ہوئی
اور تم اپنی منزل کا تعین نہیں کر سکے، چنانچہ فی الحال کالج میں انگریز
پرنسپل کی تعینانی پر خاموشی اختیار کرو، تاوقتیکہ تم اپنی منزل اور جدوجہد
کا طریقِ کار طے کرلو ۔
خط کا بنیادی مطالبہ ابلاغ ہے، چنانچہ اس میں عبارت آرائی اور ’محمد شاہی
روشوں‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن نوآبادیاتی عہد میں یہ مطالبات پورے نہیں
کیے جا سکتے تھے، چنانچہ دیگر مکتوب نگاروں کی طرح اقبال کو بھی علامتی
انداز اختیار کرنا پڑتا ہے؛ البتہ اقبال نے یہ خیال رکھا کہ پیغام کی ترسیل
میں شاعرانہ خصوصیات نظرانداز نہ ہوں۔ واضح رہے کہ اس خط کے مخاطب ایک ایسی
یونیورسٹی کے طلبہ ہیں، جو برصغیر میں مسلم فکر کے علم بردار ہے، چنانچہ ان
کی بلند تر ذہنی سطح کے پیش نظر مکتوب نگار کی طرف سے علامتی انداز اختیار
کرنا بے محل نہیں۔
بانگِ درا کے حصہ دوم ہی کی تئیسویں نظم ’عبدالقادر کے نام‘کا تعلق اقبال
کے قیامِ یورپ سے ہے، البتہ اس کی اشاعت مخزن دسمبر ۱۹۰۸ء کے شمارے میں
شائع ہوئی۔ مولانا غلام رسول مہر کے خیال میں، ’قوم کی عملی خدمت کے لیے
کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان ہے، پھر اقبال کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی
خدمت کے لیے وقف ہو گیا‘۔ گیارہ اشعار پر مشتمل اس نظم کا پہلا، آٹھواں،
نواں اور دسواں شعر دیکھیے، جن سے پوری نظم کا مدعا سمجھنے میں مدد مل سکتی
ہے:
اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگرِ شیشہ و پیمانہ و مِینا کر دیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ ، اسے وقفِ تماشا کر دیں
شمع کی طرح جییں بزم گہِ عالم میں
خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
اقبال کا یہ خط اپنے عزیز دوست کے نام ہے۔ شیخ صاحب یورپ میں مقیم تھے، جب
اقبال یورپ پہنچے، اس لیے یورپ کے بعض مشاہدات میں دونوں دوست شریک رہے۔
فکر و نظر کے اسی اشتراک کی وجہ سے اقبال نے انھیں وقت کے نئے مطالبات سے
آگاہ کیا۔ یہ پیغام دراصل شاعر کے اپنے مقاصد کا عکاس ہے، البتہ وہ اپنے
دوست کو اس راز میں شریک کر رہے ہیں، چنانچہ نظم کی اشاعت کے وقت مدیرِ
مخزن شیخ عبدالقادر نے درج ذیل مختصر نوٹ لکھا:
اس نظم کو ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ ایسی نظم
اور ایسے خیالات کا مخاطب مجھے بنایا گیا ہے اور ایسے بلند ارادوں میں مجھے
شریک کیا گیا ہے۔ سواے اس کے کہ دل اپنے دل نواز [اقبال] کی محبت کا شکریہ
ادا کرے اور مَیں یہ دعا مانگوں کہ خدا حضرتِ اقبال کے ارادوں میں برکت دے
اور اگر میرے نصیب میں کوئی خدمت ملک کی لکھی ہے تو بھی مجھے اس کی توفیق
عطا فرمائے، کوئی جواب اس خط کا مجھ سے بن نہیں پڑتا، خصوصاً جب اقبال کے
اشعارِ آب دار کے مقابل اپنی نثر کی خشکی اور بے مایگی پر نظر کرتا ہوں۔
شیخ صاحب کے یہ خیالات دراصل اقبال کے درج بالا منظوم خط کا جواب ہیں، جو
بذریعہ خط نہیں، بذریعہ تمہیدی نوٹ لکھے گئے۔
مخزن کے شمارے جولائی ۱۹۱۹ء میں مطبوعہ، بانگِ درا کے حصہ سوم کی ساتویں
نظم ’فلسفہ غم‘ دراصل اقبال نے اپنے دوست میاں فضل حسین (بیرسٹر) کے والد
کی رحلت پر بطور تعزیت لکھی تھی۔ اقبال نے یہ نظم اگرچہ اپنے دوست کی تسلی
کے لیے لکھی تھی، لیکن یہ مخزن میں شائع بھی ہوئی، اقبال نے اس کا جواز یہ
دیا:
ذیل کے اشعار اپنے قدیم دوست اور ہم جماعت میاں فضل حسین بیرسٹر ایٹ لا
لاہور کی خدمت میں ان کے والد بزرگوار کی ناگہانی رحلت پر بطور تسلی نامے
کے لکھے گئے تھے۔ اگرچہ میری تحریر پرائیویٹ تھی اور اس کی اشاعت کچھ ضرور
نہ تھی، تاہم مَیں چاہتا ہوں کہ یہ اشعار میاں صاحب موصوف کے احبا اور
معرفین تک بھی پہنچیں، جنھوں نے اس موقع پر میاں صاحب سے اظہارِ ہمدردی
کیا۔
بتیس اشعار کی یہ نظم چھ بندوں پر مشتمل ہے، البتہ تمام بند یکساں اشعار کے
حامل نہیں ہیں۔ نظم میں حقیقت غم، حقیقت موت اور حقیقت زندگی کا بیان ہے
اور اگر ساری نظم کا لب لباب کسی ایک شعر میں دیکھنا ہو تو درج ذیل شعر
ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
کسی عزیز کی رحلت پر انسانی جذبات اور احساسات کو جو ٹھیس پہنچتی ہے، اس کا
تجربہ ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ہوتا ہے، لیکن جب یہ
سانحہ والدین میں سے کسی سے متعلق ہو تو دنیا کی ناپائداری پوری طرح واضح
ہو جاتی ہے اور انسان خود بھی زندگی کی بے مایگی کے پیش نظر زندگی سے بے
زار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں قریبی دوست احباب ہی متاثرہ فرد کو زندگی کی طرف
واپس لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس نظم میں اقبال اپنے دوست کو اس کے
والد کی رحلت پر جو حرفِ تسلی کہہ رہے ہیں، وہ دراصل ان کے فلسفیانہ تصورِ
حیات و موت پر مبنی ہے۔ بعد ازاں جب وہ تصورِ خودی اور اس کے مختلف پہلوؤں
پر بھرپور نظر ڈالتے ہیں اور اپنے نظامِ فکر کو تشکیل دے چکتے ہیں تو یہ
شعر ان کے فلسفہ حیات اور حقیقت مرگ کی بابت بے تعلق نہیں رہتا، بلکہ
افکارِ اقبال میں بنیادی جگہ پر قائم رہتا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداﷲ کے خیال میں، جن خطوں میں شخصی جذبے کا استعمال کچھ ایسے
انداز میں ہوا ہے کہ شخصی ہونے کے باوجود اس کی حیثیت وسیع معنوں میں
انسانی ہو گئی ہے، ان خطوں کی دلچسپی اور دیرپا مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں
کیا جا سکتا۔
اس خیال کی روشنی میں زیرِ بحث منظوم مکتوب نہ صرف پورا اترتا ہے، بلکہ اس
میں ایک ایسی آفاقیت پیدا ہو گئی ہے، جو اسے اُس وقت تک زندہ رکھ سکتی ہے،
جب تک اردو زبان کسی نہ کسی طور سمجھی جاتی رہے گی۔ مذکورہ بالا شعر میں
بیان کردہ خیال کو کسی عقیدے یا تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں مسترد بھی
کر دیا جائے توبھی انسان یہ ضرور چاہے گا کہ کاش، ایسا ہوتا! یوں یہ خیال
انسانی خواہشات کا امین بن جاتا ہے۔
بانگِ درا کے حصہ سوم کی پینتیسویں نظم ’عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے
جواب میں‘ کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ عید کے موقع پر اقبال کو کسی طرف سے
زبانی یا تحریری پیغام (مراسلہ) موصول ہوا تو اس کے جواب میں اقبال نے یہ
نظم لکھ بھیجی۔ یہ نظم کس سال لکھی گئی، اس کا اندازہ ماقبل (نوید صبح) اور
مابعد (فاطمہ بنت عبداﷲ) نظموں پر لکھے گئے سنہ ۱۹۱۲ء سے ہوتا ہے، قیاس ہے
کہ یہ نظم بھی اسی برس لکھی گئی۔ اقبال ’نوید صبح‘میں کہتے ہیں:
مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تُو بھی ہو
وہ چمک اٹھا اُفق ، گرمِ تقاضا تُو بھی ہو
اور اس کے بعد کی نظم ’دعا‘ میں پکارتے ہیں:
یا رَب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
جب کہ نظم زیرِ بحث کے فوری بعد ’فاطمہ بنت عبداﷲ‘ میں رجائی لہجہ اختیار
کرتے ہیں:
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں
پل رہی ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
لیکن زیرِ مطالعہ نظم کا لہجہ بہت ہی حزنیہ ہے، جو بالعموم کلامِ اقبال میں
ناپید ہے۔ چھ اشعار کی اس نظم کے چوتھے اور چھٹے شعر سے نظم کا مرکزی خیال
گرفت میں آ سکتا ہے:
خزاں میں مجھ کو رُلاتی ہے یادِ فصلِ بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں مَیں
پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
گویا ہلالِ عید کی طرف سے پیامِ مسرت کو اقبال ملت اسلامیہ کی ابتری اور
مسلم رہنماؤں اور مسلم اقوام کی بے بسی کے پیش نظر طنز سے تعبیر کر رہے
ہیں۔
بانگِ درا کے حصہ سوم ہی کی پچاسویں نظم ’ایک خط کے جواب میں‘ سے متعلق
مولانا غلام رسول مہر نے دو روایات بیان کی ہیں۔ ایک کے مطابق، کسی دربار
سے اقبال کو دعوت آئی تھی، اس کے جواب میں یہ شعر لکھے گئے؛ جب کہ دوسری کے
مطابق، کسی دوست نے حکام کی نظروں میں اعتبار پیدا کرنے کے لیے مشورہ دیا
تھا کہ انھیں کبھی کبھی کھانے یا چائے پر بلالینا چاہیے۔
خط کسی دربار سے آیا ہو یا دوست کی طرف سے، اقبال نے اس کا جواب درج ذیل
ایک نظم ’ایک خط کے جواب میں‘ کے ذریعے دیا:
ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمتِ تگ و تاز
حصولِ جاہ ہے وابستۂ مذاقِ تلاش
ہزار شکر ، طبیعت ہے ریزہ کار مِری
ہزار شکر ، نہیں ہے دماغِ فتنہ تراش
مِرے سخن سے دِلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
جہاں میں ہُوں مَیں مثالِ سحاب دریا پاش
یہ عقدہ ہاے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فیضِ عشق سے ناخن مِرا ہے سینہ خراش
ہَواے بزمِ سلاطیں دلیلِ مُردہ دِلی
کیا ہے حافظِ رنگیں نوا نے راز یہ فاش
’گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی
نہاں ز چشم سکندر چو آبِ حیواں باش‘
گو اس خاص واقعے کا علم تو نہیں ہو سکا، لیکن اقبال کے اس مزاج کو سمجھنے
کے لیے دو واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔۱۹۱۷ء میں سید ہاشم بلگرامی کے
انتقال سے حیدرآباد ہائیکورٹ میں ایک اسامی خالی ہوئی تو منشی دین محمد
(مدیر میونسپل گزٹ) نے اپنے اخبار میں اس کے لیے اقبال کا نام تجویز کر
دیا۔ پھر کیا تھا، ملک بھر میں چرچا ہو گیا اور اقبال کی حمایت میں بیان
جاری ہونے لگے، لیکن اقبال نے حیدرآباد دکن کے مدار المہام مہاراجا کشن
پرشاد شاد کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ’مَیں نے اب تک اپنے معاملات میں
ذاتی کوشش کو بہت کم دخل دیا ہے، ہمیشہ اپنے آپ کو حالات کے اوپر چھوڑ دیا
ہے اور نتیجے سے، خواہ وہ کسی قسم کا ہو، خدا کے فضل و کرم سے نہیں
گھبرایا‘۔
عظیم حسین کہتے ہیں کہ ’ان کے والد، فضل حسین ہمیشہ ڈاکٹر اقبال کی اعانت
کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر ڈاکٹر اقبال ایسے موقعوں سے، جو اُن کو فراہم
کیے گئے، فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’۱۹۲۴ء میں
فضل حسین نے سر میلکم ہیلی (گورنر پنجاب) کو ترغیب دی کہ وہ ڈاکٹر اقبال کو
عدالت عالیہ کی ججی کا عہد دیں، لیکن یہ امر ابھی زیرِ غور تھا کہ ڈاکٹر
اقبال نے حکومت پر بے لگام تنقید لکھ کر سرکاری افسران کی ہمدردیاں کھو
دیں‘۔ عظیم حسین کے ان خیالات پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے نہایت عمدہ تبصرہ
کیا کہ ’جس قسم کا سیاسی مستقبل اقبال کے لیے سر فضل حسین تجویز کرتے رہے،
وہ انھیں [یعنی اقبال کو] زیادہ سے زیادہ ایک اَور سر فضل حسین یا سر ظفر
اﷲ خاں بنا دیتا؛ ایسی صورت میں وہ اقبال ہرگز نہ رہتے‘۔ ان واقعات سے ثابت
ہوتا ہے کہ اقبال کے لیے حکام سے ایسی رسم و راہ بڑھانا ممکن نہ تھا، جس کا
مقصد محض کسی دنیاوی و سیاسی ترقی کا حصول ہو۔
بالِ جبریل کی گیارہویں نظم ’جاوید کے نام‘ اُن دِنوں کی یادگار ہے، جب
اقبال ۲۴؍دسمبر سے ۳۰؍دسمبر ۱۹۳۲ء کے دَوران میں تیسری گول میز کانفرنس کے
سلسلے میں لندن میں تھے۔ اسی دَوران میں ان کے بیٹے جاوید اقبال نے انھیں
ایک خط لکھا۔ یقینا کم سن جاوید کے اس خط سے اقبال بہت مسرور ہوئے ہوں گے ،
چنانچہ اقبال نے اس نظم کی صورت ننھے جاوید کو جواب لکھا اور نظم کے عنوان
کے نیچے یہ لکھ کر اپنے احساسات کو یادگار بنا دیا کہ ’لندن میں اس کے ہاتھ
کا لکھا ہوا پہلا خط آنے پر‘۔ پانچ اشعار پر مشتمل یہ پوری کی پوری نظم
قابلِ لحاظ ہے، اس لیے مکمل نظم درج کی جاتی ہے:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
مَیں شاخِ تاک ہوں ، میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مےِ لالہ فام پیدا کر
مِرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
بالِ جبریل کی تیسویں نظم ’یورپ سے ایک خط‘ کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا
کہ یہ کس کے خط کا جواب ہے۔ اس خط کا متن اقبال نے اردو میں منظوم کیا ہے:
ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اِک بحرِ پُرآشوب و پُراَسرار ہے رومی
تُو بھی ہے اُسی قافلۂ شوق میں اقبال!
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
اس عصر کو بھی اُس نے دیا ہے کوئی پیغام؟
کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی
اس خط کا جواب اقبال نے مولانا روم کے دو فارسی اشعار کے ذریعے دیا ہے،
یعنی:
کہ نیاید خورد و جو ، ہمچوں خزاں
آہوانہ در ختن چر ارغواں
ہر کہ کاہ و جو خورد قربان شود
ہر کہ نورِ حق خورد قرآں شود
رومی کی زبان سے اقبال نے یورپ سے آئے ہوئے خط کا جواب ان الفاظ میں دیا کہ
گدھوں کی طرح گھاس اور جَو مت کھاؤ، بلکہ ختن کے ہرنوں کی طرح ارغوان کھاؤ؛
کیونکہ جو گھاس اور جَو کھاتا ہے، اسے ذبح کر دیا جاتا ہے اور جو نورِ خدا
سے پرورش پاتا ہے، وہ خود قرآن بن جاتا ہے۔ یوں اقبال نے اہلِ یورپ کو بتا
دیا کہ مادّیت ہی سب کچھ نہیں، کامیابی اور فلاح کا اصل منبع روحانیت میں
ہے۔
اقبال نے یورپ سے آئے خط کے مندرجات کا جس انداز میں مولانا روم کے کلام سے
جواب دیا، وہ شافی و کافی ہے اور ان دو اشعار میں مغرب کے جملہ امراض کی
تشخیص اور اس کا علاج بتا دیا۔
ارمغانِ حجازاردو کے آخری حصہ کی تین میں سے پہلی نظم ’سر اکبر حیدری صدرِ
اعظم حیدرآباد دکن کے نام‘ میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ نظم کی عنوان کے
نیچے درج ذیل نوٹ درج ہے:
’یومِ اقبال‘ کے موقع پر توشہ خانۂ حضور نظام کی طرف سے، جو صاحب صدر اعظم
کے ماتحت ایک ہزار روپے کا چیک بطور تواضع موصول ہونے پر۔
واقعہ یہ ہے کہ سر اکبر حیدری ریاست حیدرآباد دکن کے صدرالمہام تھے۔اقبال
کے نیازمند تھے اور اقبال کے دورۂ حیدرآباد کے دَوران میں سر اکبر حیدری
اور ان کی اہلیہ نے ان کی مہمان داری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا
تھا، جس کا اظہار اقبال نے متعدد مرتبہ کیا، لیکن بقول ڈاکٹر جاوید اقبال،
’گول میز کانفرنسوں کے دَوران میں سیاسی اختلافات کی بِنا پر ان تعلقات نے
محض رسمی صورت اختیار کر لی تھی‘۔
لاہور میں انٹرکالجیٹ مسلم برادر ہُڈ کی طرف سے یومِ اقبال کی تقریب کا
اعلان ہوا تو ۵؍دسمبر ۱۹۳۷ء کے اخبارات میں سر سکندر حیات نے اپنے اخباری
بیان میں تجویز پیش کی:
جس جس شہر میں یومِ اقبال منایا جائے، وہاں کے باشندوں کو چاہیے کہ وہ شاعر
اعظم کی خدمت میں ایک تھیلی نذر کریں۔ اس تجویز پر عمل کرنے کا آسان طریقہ
یہ ہے کہ اقبال کمیٹی کو چاہیے کہ امپیریل بنک آف انڈیا میں یومِ اقبال فنڈ
کے نام سے حساب کھول دے۔ اقبال کے نیاز مندوں اور ان کی شاعری کے مداحوں کا
فرض ہے کہ وہ جملہ رقوم براہِ راست بنک کو ارسال کر دیں، جو انجام کار
ہمارے محبوب شاعر کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔
بہرحال ۹؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو لاہور سمیت ہندوستان کے متعدد شہروں میں یومِ
اقبال منایا گیا تو اگلے ہی روزسر اکبر حیدری نے ایک ہزار روپے کا چیک
اقبال کے نام جاری کر دیا۔ چیک کے ساتھ منسلک مراسلے کے مطابق، ’یہ رقم
شاہی توشۂ خانے سے، جس کا انتظام ان کے ذمے ہے، بطور تواضع بھیجی جا رہی
ہے‘ ۔ اقبال ان الفاظ سے سخت برہم ہوئے، چیک لوٹا دیا اور درج ذیل قطعہ
لکھا:
تھا یہ اﷲ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ ’لے اور شہنشاہی کر
حسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات‘
مَیں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات
غیرتِ فقر مگر کر نہ کسی اس کو قبول
جب کہا اُس نے ، یہ ہے میری خدائی کی زکات
ایک اچھے خط کی خصوصیا ت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداﷲ نے کہا تھا:
ہر اچھے خط کو وہ مقصد ضرور پورا کرنا چاہیے، جو اس کے لیے اصلاً محرک ہوا
ہے، یعنی پیغام کے مطالب کا قطعی ابلاغ،جس کا مطلب یہ ہے کہ خط نگار جو
کہنا چاہتا ہے، وہ تو بہرحال ایسے انداز میں کہے کہ مکتوب الیہ کو پیغام کی
جزئیات کا قطعی علم ہو جائے۔
درج بالا اقتباس کی روشنی میں ان مکتوبی نظموں یا منظوم مکتوبات سے اس بات
کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کو اپنے مافی الضمیر کے منظوم بیان پر بھی پوری
قدرت ہے، جس سے ایک طرف فنی پختگی پر آنچ نہ آنے پائے اور دوسری جانب
اظہارِ مدعا کی راہ میں کوئی پیچیدگی حائل نہ ہو۔ یوں دیکھا جائے تو اقبال
کی مذکورہ بالا نظمیں فن شاعری پر بھی پورا اتری ہیں اور ساتھ فنِ مکتوب
نگاری کے اعتبار سے قابلِ اعتنا ہیں۔ |