بیصویں صدی, سیالکوٹ میں متوسطہ تبقہ میں پیدا ہونے
والے اقبال اور آج کے نرم بستر پر رات گئے دیر تک صرف سوچنے والے اقبال سے
کئی گناہ بہتر تھے.
اس اقبال کی سوچ میں انقلابیت, روح میں بیداری, حوصلوں میں شاہین کی پرواز
اور زبان پر ان کے مصروں کے ساتھ بندوں کا خوبصورت جوڑ ہوتا ہے. جبکہ آج کے
اقبال کی سوچوں میں مہارت, ارادوں میں رکاوٹ اور, حوصلوں میں مایوسی ہی
مایوسی نظر آتی ہے.
اس اقبال کی سوچ کا عالم یہ تھا کہ شکوہ جوابِ شکوہ میں عوام الناس کو
واحدانیت پر گامزن کیا اور ارادوں میں خودی کے بلبوتے پر اللہّ سے بات چیت
کرتے نظر آئے. جبکہ آج کے اقبال کو اپنے لئے وقت نکالنے کے لئے وقت نہیں
ملتا کہ وہ سنجیدہ بھی ہو. اپنے آپ کو اُس کو خیالی دنیا میں مگن رکھتا ہے,
جس کا اس کی حقیقت کی دنیا سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا, اس اقبال کو اس دنیا
کی رنگینیوں میں مزہ آگیا ہے جس دنیا نے اس کی سوچ, اس کی فکرمندی, اس کا
نصب العین اور اس کا مقصد سب کچھ چھین لیا ہے.
یاد رہے اقبال نے اپنے شعروں میں کئی دفعہ نوجوان نسل کو سراہا ہے. جس سے
ان کو حوصلہ ملتا تھا.
اقبال کا نوجوان ایک سچا مسلمان اور ایک پکا مردِ مجاہد ہے جو خودی کے طرز
پر چلتا ہے اور وہ با صلاحیت نوجوان دوسروں سے نمایاں رہتا ہے.
"بقولِ اقبال"
"محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے, ستاروں پر ڈالتے ہیں جو کمان!"
آج کے اقبال (نوجوانوں) کو اپنا حوصلہ بلند کرنا ہوگا, اپنے آپ کو ان حالات
میں ساکن کرنا پڑے گا جس میں اس کے بگاڑ کے خدشے ہوں. پھر اُس کی بھی کہی
ہوئی بات روح میں اترے گی اور معاشرے کو ضرورت ہے ایک سچے مردِ مومن کی.
"بقولِ اقبال"
"نرم دل گفتگو گرم دل جستجو
رزم ہو یا بزم پاک دل دیا کناز"
اپنی خودی, پہچان اور غافل انسان اپنے مقاصدِ زندگی کا نصب العین پہچان. |