تحریر: صبا نزہت، کراچی
گزشتہ دنوں میں سوشل میڈیاپر ہالینڈ کے پارلیمانی رکن گیرٹ و لڈرزکی جانب
سے نبی اکرمﷺ کی گستاخانی خاکوں کے مقابلے کے انعقاد کے حوالے سے بھر پور
مذمت کی گئی۔ عالمِ اسلام کی لیے یہ نہایت تکلیف دہ موقع تھا کہ یہود و
نصاری ایک بار پھرہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات کر رہے تھے۔
خوش آئند عمل مسلمانوں کی جانب سے کی جانے والی مذمت تھی کہ اس موقعے پر
مسلمانوں نے خاموشی کا مظاہرہ نہ کیا۔ بعد ازاں اس ملعون نے اپنا ارداہ
منسوخ کرتے ہوئے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے۔۔ ا س سب کے باوجود عوام فیس بک پر
محض گستاخی رسولﷺ کے خلاف ایک مذمتی پوسٹ کرنے اور گیرٹ ولڈرز پر لعنت بھیج
کر اپنی مذہبی ذمہ داری سے عہدہ براں نہیں ہو سکتی۔ دل میں برا جان کر اور
زبان سے لعنت بھیج کرگویا ہم ابھی تک ایمان کے کم تر درجے پر ہی
فائزہیں۔مگر ہمارا یمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے رسولﷺ
کی حرمت کے لیے عملی کوشش نہ کریں۔
دورحاضر میں کسی ملک یا قوم کو شکست دینے کے لیے میدا ن جنگ میں فوج بھیجنے
کی نوبت تو بہت بعد میں آتی ہے۔ قوموں کو سماجی اور معاشرتی طور پر تباہ
کرنا بھی بڑی کامیابی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے
خلاف یہی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم دشمن کی چال
انہیں پر لوٹا دیں۔ آج انہوں نے مقابلہ منسوخ کردیا ہے لیکن کل پھر وہ کوئی
نئی سازش کے تحت میدان میں آئیں اس سے قبل ہمیں اقدامات کرلینے چاہیے۔ قرآن
کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ
گے حالانکہ تمہارے پاس تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی طرح سختیاں مصیبتیں
نہیں پہنچیں‘‘۔ (القرآن)
جس طرح سونے کو بھٹی میں تپا کر اس کا کھوٹ دور کیا جاتا ہے اسی طرح مشیت
الٰہی یہی ہے کہ ہم غفلت زدہ مسلمانوں کوان کے رسول ﷺ کی محبت سے ہی
جھنجھوڑا جائے۔آج ہمارا متحد ہوکر کھڑا ہونا ہی شاید بارگاہ الہی میں قبول
ہوجائے۔ ابھی احتجاج کروا کر مقابلہ رکوا دینے سے ہماری غیرت کا تقاضا پورا
ہوگیا ہوگالیکن ایسی کمزور قوت ایما نی ناموس رسالت ﷺ کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس بار انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اور قومی سطح پر یہود و
نصاری کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تاکہ ہم بہتر طور پر ان کی معیشت پرضرب
لگا کر انہیں یہ پیغام دے سکیں کہ امت مسلمہ ابھی جاگ رہی ہے۔
مقابلہ منسوخ کراوانے کے بعد بھی گئیرٹ ولڈرز ملعون نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں
لکھا کہ میں مستقبل میں ضرور ایسا کام دوبارہ کروں گا جس کے ذریعے میں
مسلمانوں کو ایک شدت پسند قوم ثابت کرسکوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متحد
ہوکر اس کامستقل سد باب کیا جائے۔ وہ پھر مسلمانوں کے جذبات مجروح کریں اور
نبی پاک ﷺکی گستاخی کریں اس سے قبل ہمیں ان تک یہ پیغام پہنچا دینا چاہیے
کہ مسلمان آج بھی اپنے نبیﷺ پر قربان ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہمیں
عملی طور پر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ان کی معیشت کو تباہ کرنا ہو گا
جب ہی ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔ میں پاکستانی قوم
کے سامنے یہ سوال رکھنا چاہتی ہوں کہ جے7 تھنڈر طیارے بنانے والی قوم
معیاری سرف، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ نہیں بنا سکتی؟ ایٹمی دھماکے کرنے والی
قوم فیس بک اور یوٹیوب کا متبادل نہیں بنا سکتی؟ کیا ہم چین اور جاپان کی
طرح خود انحصار قوم بن کر یہود و نصاریٰ کی اجارہ داری سے خود کو آزاد نہیں
کروا سکتے؟
پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ہالینڈ بلکہ دیگر یہودی مصنوعات پر
پابندی لگا کر وہ ترکی، سعودی عرب، دبئی، انڈونیشیا، ملیشیا، تھائی لینڈ
اور چین کے ساتھ تجارت کو ترجیح دے۔ مقامی دکاندار اور سپرمارکیٹ مالکان کو
بھی چاہیے کہ انہیں ممالک کی مصنوعات کو فوقیت دیں تاکہ نہ صرف معاشی طور
پر یہودیوں کہ دھچکا لگے بلکہ ملکی تجارت کہ بھی فروغ ملے۔یاد رکھیں! یہ
ایمان کا معاملہ ہے، کہیں ہماری بے حسی ہمیں روز قیامت رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت
سے محروم نہ کر دے۔ اسی لیے ہمیں آج ہی اپنی زندگی کی ترجیحات طے کرنی ہوں
گی کہ ہمیں دنیا میں یہود و نصاریٰ کی محکومی عزیز ہے یا آخرت میں اپنے
رسول ﷺکی ہمراہی عزیز ہے، فیصلہ ہمیں کرنا ہوگا اور جلد ہی کرنا ہوگا۔ |