حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک
دن ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کی اچانک
ایک شخص پر نظر پڑی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہونے کے لیے چلا آرہا تھا- اس کے کپڑے بہت زیادہ سفید اور بال بہت زیادہ
کالے تھے- اس کے حال سے سفر کے آثار ظاہر نہیں ہو رہے تھے اور اسے ہم میں
سے کوئی پہچانتا (بھی) نہ تھا- (اس کے اس حال سے تعجب اس لیے ہوا کہ مدینہ
منورہ کا باشندہ ہوتا تو اسے ہم پہچانتے ہوتے اگر مسافر تھا تو اس پر سفر
کے آثار ہوتے اور کپڑے میلے ہوتے- اس وقت تو یہ بھید ہم پر نہ کھلا- بعد
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے اس کا بھید پتہ چلا) وہ
شخص چلتے چلتے (مجلس تک آپہنچا) حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے اس قدر قریب ہو کر بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے گھٹنوں سے ملا دیئے اور اپنی بتھیلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی رانوں پر رکھ دیں اور اس نے سوال کیا کہ : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مجھے بتائے اسلام کیا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اسلام یہ ہے کہ تو لاالہ الا اللہ محمد
رسول اللہ کی گواہی دے اور نماز قائم کرے اور زکوة ادا کرے اور رمضان کے
روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے- بشر طیکہ تجھے وہاں تک پہنچنے کی
استطاعت ہو-
اس جواب کو سن کر اس شخص نے کہا صًدًقّتً ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ٹھیک فرمایا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی اس بات پر تعجب
ہوا کہ سوال بھی کرتا ہے اور پھر ایسے انداز میں ٹھیک بتاتا ہے ( جیسے پہلے
سے جانتا ہو) پھر اس نے کہا بتائیے ایمان کیا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ایمان
لائے اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور
آخرت کے دن پر اور تقدیر پر بھلی ہو یا بری، یہ جواب سن کر اس نے پھر وہی
کہا صًدًقّتً (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٹھیک فرمایا) پھر اس نے سوال
کیا اچھا بتائیے احسان کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
احسان یہ ہے کہ اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے تو اُسے دیکھ رہا ہے- سو اگر
تو اُسے نہیں دیکھ رہا ہے( یعنی اگر تجھے ایسی قوت استحضار حاصل نہیں ہے کہ
تو یہ سمجھتے ہوئے عبادت کرے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں) تو کم از کم یہ
سمجھ کہ بلاشبہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے- پھر اس نے سوال کیا کہ بتائیے قیامت
کب آئے گی؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوال کرنے والا اور جس سے
سوال کیا گیا ہے دونوں اس بارے میں برابر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( نہ مجھے معلوم ہے
نہ تم واقف ہو)
پھر اس نے کہا: اچھا تو اس کی نشانیاں بتا دیجئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا ( اس کی بعض نشانیاں یہ ہیں) عورتیں ایسی لڑکیاں جنیں
جو اپنی ماں کی سردار ہوں اور ایک نشانی یہ ہے کہ تو ننگے پیر ننگے بدن
والے فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو دیکھے کہ اونچے اونچے مکان بنا کر آپس
میں فخر کریں-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سوال و جواب کے بعد وہ شخص چلا گیا
اور میں بہت دیر تک ( سوال سے ) رکا رہا- پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے خود ہی فرمایا کہ اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا میں
نے عرض کیا اللہ اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں-
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل علیہ سلام تھے- اس
غرض سے آئے تھے کہ ( تمہارے سامنے سوال کرکے) تمہیں تمہارا دین سکھائیں- |