انڈیا کے خوبصورت سیاحتی مقام شملہ کے فیشن اییل مال روڈ
پر دیودار کے اونچے درختوں کے سائے میں واقع بک کیفے میں نوعمر طلبہ اور
طالبات خاموشی سے اپنی کتابیں پڑھ رہے ہیں۔
کئی نوجوان کیفے کے کاؤنٹر سے سینڈوچز برگرز اور کافی خرید رہے ہیں۔ یہ
کیفے عمر قید کے دو سزا یافتہ قیدی چلا رہے ہیں۔ یہاں جو کھانے پینے کی
چیزیں بکتی ہیں وہ بھی جیل کے قیدیوں نے تیار کی ہیں۔
|
|
یوگراج کو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ وہ گزشتہ ایک برس سے ایک
دوسرے عمر قید کے قیدی کے ساتھ بک کیفے چلا رہے ہیں۔ یوگراج نے بہت نرم
لہجے میں کہا کہ’پہلے ہم جیل کی چار دیواری میں بند ہوتے تھے۔ آپس میں ہی
بات کیا کرتے تھے ۔ لیکن جب سے یہاں کام کر رہے ہیں بہت اچھا لگ رہا ہے۔ ‘
کیفے میں ایک چھوٹا سا نوٹس بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ کیفے
سزا یافتہ قیدیوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔
یہاں آنے والے مقامی لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ یہ سزا یافتہ قیدی ہیں۔ ایک
طالبہ شیتل کنور نے بتایا ’میں نے سنا ہے کہ یہ کیفے جیل کے قیدی چلا رہے
ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔‘
|
|
شملہ کی کیتھو جیل کے درجنوں قیدی کسی پہرے کے بغیر کام کرنے کے لیے روزانہ
شہر کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تعلیم یافتہ قیدی کوچنگ
اور ٹیوٹوریل کلاسز بھی لے رہے ہیں۔
گورو ورما ایک نوجوان قیدی ہیں وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ سزا ہونے سے
پہلے وہ انجینئرنگ کے سٹوڈنٹ تھے۔
’جیل میں جانے کے بعد آپ کا دماغ بند ہو جاتا ہے لیکن جسم نہیں بند نہیں
ہوتا۔ جب میں باہر نکلتا ہوں تو میں دنیا سے جڑ ہو جاتا ہوں۔ اور پھر یہ کہ
میں کام کر رہا ہوں۔ اب میری نجی زندگی پر تو میرا بس نہیں ہے لیکن
پروفیشنل لائف واپس آ گئی ہے۔‘
|
|
سزا یافتہ قیدیوں کو جیل کی چہار دیواری سے نکال کر معاشرے میں دوبارہ آنے
کا موقع دینا قیدیوں کی اصلاح اور آباد کاری کا حصہ ہے۔
ہماچل پردیش کے جیل کے محکمے نے ’اوپن جیل‘ پروگرام کے تحت قیدیوں کے اصلاح
کا یہ قدم اٹھایا ہے۔
ہماچل کے ڈائریکٹر جنرل جیل سومیش گویل نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ
جیل ایک ایسا محکمہ ہے جہاں انڈیا میں بہت کم اصلاح ہو پائی ہے۔
|
|
’ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ قید کی جگہ فوکس اب اصلاح اور بازآبادکاری پر ہو۔
قیدی نے جو جرم کیا ہے اس کی سزا تو وہ پا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا جو
انسانی برتاؤ ہونا چاہیے کیا اس میں بھی کمی آنے کی ضرورت ہے؟ اگر ہم اس کو
کوئی ہنر سکھا سکتے ہیں تو وہ ایک بہتر انسان بن سکتا ہے۔ اس کی ہمیں پرزور
کوشش کرنی چاہیے اور وہی ہم کر رہے ہیں۔'
اوپن جیل پروگرام کے تحت تقریباً ڈیڑھ سو قیدیوں کو جیل سے باہر کام کرنے
کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
کیا یہ قیدی فرار نہیں ہو سکتے؟ سومیش گویل کہتے ہیں کہ باہر بھیجے جانے
والے قیدیوں کے برتاؤ کے جائزے کے لیے ایک منظم ضابطے پر عمل کیا جاتا ہے۔
|
|
’ان قیدیوں کے پیرول پر جانے کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر اس کا
رویہ کیسا رہا ہے ۔کن لوگوں کو ہم باہر روزگار دلا سکتے ہیں، کن لوگوں سے
ہمیں اندر کام کرانا ہے۔ اس نے کیسا کام کیا ہے ؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم
ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔‘
|
|
جیل کے اس اصلاحی پروگرام کے تحت قیدی شہر میں کئی مقام پر کینٹین چلا رہے
ہیں، ہیر سیلون کھول رکھا ہے اور کئی مقام پر قیدیوں کے ذریعے بنائی گئی
کوکیز اور کپڑے کی دکانیں بھی ہیں۔
محمد مرغوب دس برس سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ اب وہ سلائی کا کام کر
رہے ہیں۔ انہیں ذہنی آزادی ہی نہیں پیسے بھے مل رہے ہیں۔ یہ کام کے اوپر ہے۔
کئی بار چار ہزار کما لیتا ہوں کئی بار پانچ ہزار بھی مل جاتے ہیں۔ میں گھر
بھی پیسے بھیجتا ہوں۔'
|
|
کیتھو جیل کے جیلر بھانو پرکاش شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ جیل کے حالات
کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں قیدیوں پر اعصابی دباؤ بہت ہوتا ہے۔ وہ ان حالات
سے نکالنے کے لیے کئی طرح کے پروگرام چلاتے ہیں۔
’ہم نے ایک معروف پینٹر کو یہاں بلایا اور جیل کی دیواروں پر الگ الگ
پینٹنگز بنوائیں۔ ہر پینٹنگ میں کچھ نہ کچھ پیغام ہوتا ہے۔ اس طرح کے
اقدامات کا مقصد قیدیوں میں ان حالات میں ایک مثبت سوچ پیدا کرنا ہے۔‘
ہماچل کی جیل کا یہ اصلاحی تجربہ کسی واقع کے بغیر کامیابی سے چل رہا ہے۔
یہ جیلیں قیدیوں کے تئیں سماج کے انسانی انسانی رویے کی عکاس تو ہیں ہی یہ
ملک کی دوسری ریاستوں کے کی جیلوں کے لیے ایک بہترین ماڈل پیش کر رہی ہیں۔ |
|