کچھ لوگوں کی متنوع مصروفیات اور تخلیقات دیکھ کر انسان
انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور یہ تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ واقعی ایک آدمی
اس قدر مختلف شعبوں میں کثیر اثاثہ چھوڑ سکتا ہے تاریخ اور مذہب دو علیحدہ
علیحدہ موضوعات ہیں پھر ایک سے زائد مذاہب اور تواریخ ذیلی شاخیں ہیں تہذیب
و تمدن، ثقافت، زبان اور تحقیقات بھی بظاہر اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں
تاہم ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن انتہائی قلیل عرصے میں اور
نوجوانی کی عمر میں ان ادق موضوعات پر مغز ماری کرنے کی کسے فرصت ہے کیونکہ
یہ عمر کا وہ حصہ ہے جس میں لوگ آئیڈلزم کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی زندگی
کو سنوارنے اور حصولِ روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں
اس سب کے باوجود ایسے محنتی اور جفاکش لوگوں سے ابھی زمانہ خالی نہیں ہوا
جو ہمہ وقت کسی کھوج میں سرگرداں رہتے ہیں اور تحقیقات کی دُنیا میں مگن
رہتے ہیں ساتھ ساتھ غمِ روزگار کو بھی نبھاتے چلے جاتے ہیں فیضان عباس نقوی
المعروف "لاہور کا کھوجی" بھی ایسے ہی باکمال لوگوں میں سے ایک ہے
اُن سے پہلا تعارف ماہنامہ نوائے منزل لاہور کے دفتر میں ہوا نجانے کامران
اختر اُنہیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائے تھے تب سے اُن کے ساتھ ہیلو ہائے ہے
پہلے پہل تو انہوں نے مجھے ایک مولوی سمجھا اور قدرے فاصلہ قائم رکھا مجھے
بھی تحفظات تھے کہ دوسرے فرقے کا بندہ ہے جانے کیسے اخلاق کا مالک ہوگا
لیکن اس پانچ سال کی مدت میں نوائے منزل کی ٹیم میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے
تعلق رکھنے والے افراد میں کبھی باہمی بد کلامی در نہیں آئی بلکہ کھوجی
صاحب سے قبل بھی اس ادارے میں کئی نظریات کے حامل لوگ تھے پھر بھی معاملات
خوش اسلوبی سے طے پاتے رہے، بہرحال بات ہو رہی تھی فیضان کھوجی کی! تو میں
اس کثیر الجہت محقق کی کھوج پر ورطہ حیرت میں گم ہوں کہ یہ کیسے اتنے دور
دراز علاقوں کے اسفار کرکے مسجدوں، مزاروں، مندروں ، گردواروں اور تاریخی
عمارات کو ڈھونڈ نکالتے ہیں کسی تعلیمی ادارے میں تدریسی فرائض سرانجام
دیتے ہیں اور کیمرہ پکڑ کر سیر کے لیے بھی نکل پڑتے ہیں
پھر قلم کا سہارا لیتے ہیں اور تحقیق کر کے کتابیں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں کئی
میگزین میں بھی مضامین شایع کرتے ہیں اور بعض کی ادارت بھی سنبھالے ہوئے
ہیں لاہور شناسی فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پمفلٹ، پوسٹر شایع اور مظاہرے بھی
کرتے ہیں میں ذاتی طور پر ان کی سرگرمیوں کی تعداد اور رفتار سے حیران ہوں
انہوں نے فقہ جعفریہ کے کئی اکابرین پر کتابچے چھاپنے کے علاوہ گزشتہ برس
سکھوں کے اکابرین پر بھی ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان "لاہور میں گرو
ارجن دیو جی یادگاروں" تھا اس کتاب کا کینیڈا میں انگریزی اور بھارتی پنجاب
میں گرومکھی زبان ترجمہ ہو رہا ہے گزشتہ دنوں انہیں بھارت کی کسی ادبی
تنظیم نے گولڈ میڈل سے بھی نوازا ہے
کبھی کبھی مجلہ لاہور شناسی چھاپ کر لے آتے ہیں اور انہوں نے گزشتہ تین سال
سے ماہنامہ نوائے منزل کی ادارت سنبھال رکھی ہے اس سے پہلے کامران نے مجھے
حکم دیا تھا جبکہ میں اس ذمہ داری کو نبھانے سے بوجوہ قاصر تھا تو پھر
کھوجی صاحب ہی اس لیے سب سے بہترین انتخاب تھے اور انہوں نے اسے نہایت
تندہی سے سر انجام دیا ہے، بلکہ ان کی ادارت میں قارئین نے رسالے کو پہلے
سے زیادہ پسند کیا ہے مزید سراہا ہے
اس برس جب جنوری میں کامران صاحب آئے تھے تو کھوجی صاحب کے تعاون سے ادارہ
ہست و نیست میں نہایت تزک و احتشام سے تقسیمِ ایوارڈز کی تقریب منعقد کی،
یہ ایک کامیاب پروگرام تھا جس کی ترتیب اور ماحول سے میں بذاتِ خود متاثر
ہوا
ایک بار اُنہوں نے نوائے منزل کو چھاپنے کے پراسیس کو بیان کرتے ہوئے درج
ذیل کلمات ارشاد فرمائے،
”سب سے پہلے موجودہ ماہ کی مناسبت سے مضامین کی فراہمی کرنا۔ سب مضامین جمع
کرنا اور کچھ مضامین کی کمپوزنگ کروانا، پھر ان کی غلطیاں خود لگانا، ان کو
قابل اشاعت بنانے کے لئے املاء کو درست کرنا اور ان سے متعلقہ تصاویر جمع
کرنا۔ اس کے بعد تمام مسودے کو ایک جگہ جمع کر کے تیار کرنا، کسی خاص شخصیت
کا انٹرویو کرنے کے لیے ٹائم لینا اور وقت مقررہ پر پہنچ کر انٹرویو کرنا
اور پھر ایک ایک جملہ سن کر لکھنا اور پھر اس کی کمپوزنگ کرنا۔ اسی طرح ہر
مضمون کے ساتھ متعلقہ تصاویر۔ اس کے بعد ڈیزائنر سے وقت لیکر کاپی جڑوانے
کا مرحلہ کم از کم 3 دن میں طے ہوتا ہے۔ تین دن کا آنا جانا وقت دینا وہ
بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں سے، سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ پھر
ٹریسنگ کا حصول اور پیسٹنگ کا مرحلہ اور پھر پلیٹیں لگوانا، کاغذ کی
خریداری اور پرنٹنگ پریس تک سب کچھ پہنچانا اور 3 دن بعد اخبار کے بنڈل
اٹھانا اور اس کو پوسٹ میں بھیجنے کا تکلیف دہ مرحلہ، ایڈریس لگانا، اخبار
کو پیک کرنا اور ڈاک کے حوالے کرنا ایک طویل سفر ہیں جو ہر ماہ بنا کسی
معاوضے یا کسی عہدے کی طلب سے کرنا ہوتا ہے۔ “
یہ وہ مراحل یا ذمہ داریاں ہیں جو فیضان صاحب ہر ماہ ماہنامہ نوائے منزل کے
لئے نبھاتے ہیں دیگر تمام اراکین گھر بیٹھے اس کا مطالعہ کرنے کا لُطف
اٹھاتے ہیں مُجھے ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے یہی کافی تھا لیکن اس کے علاوہ
مختلف شعبہ جات میں ان کی جو مصروفیات ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں خصوصاً مختلف
شہروں سے کئی یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات آثارِ قدیمہ اور تاریخی تحقیقات
میں فیضان صاحب سے رہنمائی لیتے ہیں اور ایم۔اے یا ایم۔فِل وغیرہ کے لیے
اپنے مقالہ جات ترتیب دیتے ہیں اور اس میں بھی اہم بات یہ کہ کھوجی صاحب یہ
فریضہ بھی صرف ایک کارِ خیر سمجھ کر ادا کر رہے ہیں جبکہ ان طلباء سے کوئی
فیس وغیرہ نہیں لیتے۔
میں اپنے مضمون کے آخر میں کامران صاحب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ
اُنہیں اس قدر مخلص اور محنتی دوست میسر آیا ہے جس نے کبھی اراکین اور
قارئین کو چیف ایڈیٹر کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا اور اپنے ساتھی
لکھاریوں اور نوائے منزل کے قارئین سے بھی التماس کرتا ہوں کہ ایسے بے لوث
محسنوں کی قدر فرمائیں۔
٭ نوٹ: یہ تحریر ایک سال قبل لکھی گئی لیکن کھوجی صاحب نے اسے نوائے منزل
میں نہیں چھاپا، گزشتہ روز ان کی کتاب ”نواب وزیر خان اور ان کی یادگاریں“
کی تقریبِ رونمائی میں دوستوں کو اظہارِ خیال کا موقع ملا اور پھر بعد ظفر
علی راجہ نے نوائے وقت میں ان کے متعلق ایک آرٹیکل لکھ مارا، میں نے سوچا
کہ میں بھی یہ پرانی تحریر یہاں شائع کر دوں۔
|