وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا‘ یہ بدلتا رہتا ہے۔ دھوپ
چھاؤں‘ دکھ سکھ‘ پہکھ رج‘ صحت بیماری‘ جوانی بڑھاپا وغیرہ جیون کا حصہ رہتے
ہیں۔ تدبیر مداوے کا سبب بنتی ہے لیکن تدبیر کو لکھے کے سامنے سرنگوں ہونا
پڑتا ہے۔ لکھا اپنی حیثیت میں اٹل ہوتا ہے لیکن
نئیں زور چلدا تقدیر والا کلی ٹھوک دیوے پیر فقیر جھتے
ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے‘ ورنہ اللہ والے لکھے ہی کو فالو کرتے ہیں۔ وہ
لکھے میں دخل نہیں دیتے۔ وہ خود سے ایسا نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی مجال
ہوتی ہے۔ کرنی کا وارث ہی انھیں اس راہ پر ڈالتا ہے کہ لوگ ان کو تسلیم
کرکے ان کے کہے اور کیے پر چلیں۔
لالہ لال دین عرف لالو چنگا بھلا تھا۔ اچانک پتا نہیں اسے کیا ہوا‘ کیا کھا
لیا کہ بیمار پڑ گیا۔ دوا دارو کے جتن کے باوجود اس کی صحت نیچے آتی گئی۔
پہلے کام کاج سے گیا پھر چارپائی لگ گیا۔
گھر والوں نے شاید ہی کوئی دروازہ ہو گا‘ جس پر دستک نہ دی ہو گی۔ حکیموں
ڈاکٹروں اور تعویز دھاگے والے کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں۔ بیماری تھی
کہ اس میں کمی کی کوئی صورت نہ پیدا ہو رہی تھی بل کہ ہرچند اضافہ ہی ہوتا
چلا جاتا تھا۔
اس روز ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے جواب دے دیا اور کہا کہ یہ اب چار گھنٹے سے
زیادہ زندہ نہیں رہے گا۔ یہ سن کر فیجاں کو سخت مایوسی ہوئی۔ وہ شام کو اسے
گھر لے آئی۔ اچھا بستر دیا۔ کپڑے صاف ستھرے پہنائے۔ وہ جانتی تھی کہ صبح کو
لوگ آئیں گے اور ماڑے کپڑے دیکھ کر سو طرح کی باتیں کریں گے۔ اس کام میں
گھنٹہ صرف ہو گیا، لالو‘ فیجاں کی خدمت گاری اور ہمدردی پر خوشی سے پھولا
نہ سمایا۔ اس کے دل دماغ اور پھیپھڑں پر بڑا خوش گواراثر مرتب ہوا۔ اسی
دوران اسے ایک زبردست قے آ گئی‘ فاسد مادے کے ساتھ ایک پانچ روپیے کا سکہ
بھی باہر آ گیا۔ وہ اس کی قے کی تکلیف بھول گئی کیوں کہ پانچ کے سکے سے اس
کے من کی چاندی ہو گئی تھی۔ صبح کے کھان پین کا قدرت نے اہتمام کر دیا تھا۔
جانے یہ سکہ کہاں لکا چھپا بیٹھا تھا جو ایکسرے میں بھی نہ آ سکا۔
سب کچھ سمیٹ کر وہ بڑے سکون سے چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔ وہ بڑا حیران ہوا
کہ اس کے جانے میں تھوڑا وقت باقی رہ گیا تھا اور وہ اس کے پاس بیٹھ کر
باتیں کرنے کی بجائے لیٹ گئی ہے۔ پھر اس نے فیجاں کو آواز دی کہ میرے جانے
کا وقت قریب آ گیا ہے‘ آؤ کہ باتیں کر لیں۔ مجھے سونے دو تم تو لمی نیند سو
جاؤ گے۔ صبح تمہارا سارا سیاپا تو مجھے کرنا پڑے گا۔ تمہاری بہنیں آ کر لٹ
مچا دیں گی۔
فیجاں کی بات سے اس کے دل میں بلس کا سمندر امنڈ آیا۔ وہ کچھ دیر اس رویے
پر غور کرتا رہا۔ اچانک اس مایوسی کے اندھیاروں میں ایک سوچ نے جنم لیا کہ
وہ تو پکی نیند سونے والا ہے اسے دنیا کی چیزوں کی ضروت نہ ہو گی جب کہ
فیجاں تو نہیں جا رہی‘ اسے تو دنیا کی چیزوں کی ضرورت پڑے گی لہذا اسے سو
ہی جانا چاہیے تا کہ معاملات نمٹا سکے۔ اسی دوران اسے سخت پیاس محسوس ہوئی۔
اسے یہ یاد تک نہ رہا کہ وہ اٹھ نہیں سکتا۔ وہ اٹھا اور گھڑے سے پانی کا
گلاس بھرا اور چارپائی پر بیٹھ کر بڑے سکون سے پیا اور پھر گلاس کو اس کی
جگہ پر رکھ کر بڑے سکون سے لیٹ گیا۔ رات بڑھ رہی تھی۔ جانے کیوں آج نندیا
رانی اس پر مہربان ہو گئی اور وہ گہری نیند سو گیا۔
فیجاں صبح سویرے ہی اٹھ گئی‘ لالو کو دیکھے بغیر ہی‘ اپنے کھانے پینے کا
بندوبست کرنے لگی۔ خوب پیٹ بھر کر کھایا اور پھر لالو کو دیکھے بغیر ہی
بآواز بلند‘ باں باں لگا دی۔ اس کی اس باں باں سے لالو کی آنکھ کھل گئی۔ وہ
اٹھ کر بیٹھ گیا اور فیجاں کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔ فیجاں ڈر گئی کیوں
کہ اسے سو فیصد یقین تھا کہ لالو مر چکا ہے۔ اس کے پاس تو صرف چار گھنٹے
تھے۔ اس نے سمجھا کہ لالو کی روح رات کا بدلا لینے آ گئی ہے۔ یہ سوچ کر اس
کی چیخیں نکل گئیں۔ ہم سائے بھاگے چلے آئے اور ماجرا پوچھا۔ لالو کے بولنے
سے پہلے ہی فیجاں نے بتایا کہ لالو ڈاکٹر کے دیے گئے ٹائم کے مطابق مر گیا
تھا اور وہ ساری رات اس کے سرہانے بیٹھی روتی رہی ہے۔ اب لالو بدروح بن کر
اٹھ بیٹھا ہے۔
کہانی کا سننا تھا کہ خوف و حراس پھیل گیا۔ مولوی صاحب کو جب پتا چلا وہ
بھی چلے آئے اور بلند آواز میں آیت الکرسی پڑھنے لگے۔ لالو حیران تھا کہ یہ
سب کیا ہو رہا ہے۔ اس نے فیجاں کو قہر کی نظر سے دیکھا اور کہیں دور چلے
جانے کے لیے گھر سے باہر نکل گیا۔ |