واقعہ کربلا تاریخ انسانی کا غیر معمولی واقعہ ہے اس
واقعے میں انسان اور انسانیت کے لیے کتنے ہی حیرت انگیز اور اخلاق آموز
پہلو موجود ہیں۔اس واقعہ نے ہماری زندگی کے ہر پہلو مثلاً عقائد، عبادات،
سیاست، تاریخ، اخلاق اور معاملات پرگہرے اثرات مرتب كئےہیں۔ علم و ادب بھی
اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔اس سانحہ نے ادباء و شعراء کے تخیل کو
وسعت دی ہے۔اور انہیں ایک نئی سمت عطا کی ہے۔اس دن سے آج تک شعر و نثر کی
شکل میں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور تاقیامت لکھا جاتا رہے گا۔شعراء
جو کہ نازک مزاج ہوتے ہیں اس غمگین و رنگین داستان نے ان کے قلب و دماغ کو
بہت حد تک متاثر کیا اور فکر وتخیل میں انقلاب پیدا کر کےانکے قلم کو جنبش
دی ہے۔اگر اردو شاعری پر نظر ڈالی جائے تو جہاں شعراء واقعہ کربلا اور اسکے
کرداروں کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے دکھائی دیتے ہیں وہیں اسے کربلا کی
تشبیہات اور استعارات سے مزیّن کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔
اردو غزل کے میدان میں پیاس، وفا ،دشتِ بلا، شام غریباں، مقتل، نوکِ نیزہ،
گریہء خون ، خیمہ ،قفس، درد ، خیر و شر، تشہیر، کوچہء عشق، فرات، دھوپ،
سجدہ، جراحت،ماتم، سفر، یتیمی ، تشنہ دہانی ،غربتِ جاں ، چراغِ خیمہ ، آخری
وداع،صبر، بیکسی، خنجرِ قاتل، شہیدِ وفا،مسافرت، حُر، گردِ سفر،تیغِ ستم،
چہرے پہ خون ملنا،بندشِ آب،سر، مشکیزہ، دریا، پامالی، بازارِکوفہ ، خاکِ
مزار یا خاکِ شفا ، وقتِ عصر، چادرِ سر، مجلس اور اس جیسے کئی دیگر
استعارات و اشارات کا منبع واقعہ کربلا ہی ہے۔
یوں تو عربی اور فارسی شاعری میں بھی مرثیہ نگاری کی صنف موجود ہے اور اسکا
میدان اردو شاعری سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے لیکن اردو شاعری اس لحاظ سے
مختلف ہے کہ اس میں مرثیہ کا اولين محرک شہدائے کربلا اور انکے واقعات
ہیں۔اور اب بھی اس کا بڑا موضوع امام حسینؓ کی شہادت، یزید اور امام کے
درمیان معرکۂ کربلا ہے۔
اردو شاعری میں میر انیس ایک بے مثال شاعر کا درجہ رکھتے ہیں اور میرانیس
کے ہاں مرثیہ نگاری میں فصاحت و بلاغت،واقعہ نگاری اور منظر نگاری،تشبیہات
و استعارات، کردار نگاری ،قصیدے کی شان و شوکت اور رباعی کی بلاغت سب کچھ
موجود ہے۔آپ نے اپنی شاعری میں میدان کربلا کی منظر نگاری جس شاندار انداز
سے کی ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط ِ آب تھا
جوش ملیح آبادی جو کہ "شاعر انقلاب" کے لقب سے مشہور ہیں۔ تحریک آزادی کے
دوران انہوں نے ایک مرثیہ لکھا جس کا عنوان"حسین ؑ اور انقلاب" ہے اس میں
اپنے خیالات کا اظہار کربلا کے استعاروں سے کیا ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؑ
مولانا محمد علی جوہر جو تحریکِ خلافت کے قائدین میں سے تھے اور قید و بند
کی صعوبتیں جھیلیں۔ انکی ایک غزل کا شعر زبانِ زدِ عام ہے۔
قتلِ حسین ؑ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
علامہ محمد اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ کربلا کے استعاروں کا ذکر ملتا
ہے۔آپ امام حسین رضى الله عنہ کے مقام و مرتبہ اور اہل کوفہ کی بے وفائی کا
تذکرہ یوں کرتے ہیں۔
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
پیر نصیر الدین نصیر امام عالی مقام کے صبرو استقامت اور جرأت و عزیمت بیان
کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
کوئی شبیر سا خالق کا پرستار نہیں
امتِ احمدِ مرسل کا وفادار نہیں
لب پہ دعوے ہیں، مگر عظمتِ کردار نہیں
جرأت و عزم و عزیمت نہیں، ایثار نہیں
کودتا کون ہے؟ امڈے ہوئے طوفانوں میں
کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟
اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں
کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل ، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں کسی
بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ
آسکیں۔ اردو شاعر ى میں میر انیس اور دبیر کے ہاں واقعہ کربلا اور اہلِ بیت
سے متعلق تلمیحات نسبتا زیادہ نمایاں ہیں۔
علامہ محمد اقبال نے بالِ جبریل میں " ذوق و شوق" کے نام سے نظم لکھی اس
میں واقعہ کربلا کے متعلق تلمیحات یوں بیان کرتے ہیں۔
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسین ؑ بھی ہے عشق
معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
سانحہ کربلا کے کرداروں اور استعاروں کو اردو شاعری میں جگہ جگہ ڈھونڈا جا
سکتا ہے۔
مسلمان شعرا کے علاوہ اردو زبان کے بعض غیر مسلم شعراء کی تخلیقات بھی
کربلائی استعارات اور افکار سے لبریز ہیں۔
|