ریاست اترپردیش کے بدنام زمانہ فرقہ وارانہ فسادات کو۵سال
کا طویل عرصہ گزر گیا ۔ یہ فساد ایک ایسے وقت میں رونما ہوئے تھےجب مرکز
میں مسلمانوں کی ہمدرد سمجھی جانے والی منموہن کی سرکار تھی اور صوبے میں
بقول امرسنگھ کے نمازوادی پارٹی کی حکومت تھی۔ فساد کے ۶ ماہ بعد تک
کانگریس نے حکومت کی اور اکھلیش یادو کو مزید تین برسوں تک یعنی جملہ ساڑھے
تین سال سرکار چلانے کا موقع ملا اس کے باوجود فساد زدگان حق و انصاف سے
محروم کے محروم ہی رہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابقتشدد کے واقعات میں صرف
۶۲ افراد ہلاک ہوئے لیکن آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ سے
زائد مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ان میں سے نصف کو اپنا آبائی مقام چھوڑ کر رشتہ داروں و متعلقین کے یہاں
منتقل ہوئےاور بقیہ راحتی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے ۔ یہ مہاجرین
نہایت کسمپرسی کی حالت میں عارضی کیمپوں کے اندر زندگی گزار رہے ہیں اور
ہنوز ان کے اپنےگھروں واپسی کی صورت نہیں نکلی پائی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے
کہ ان بدنصیب لوگوں کی بازآباد کاری کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے رائے
دہندگان سے ایسا سفاکانہ سلوک کرنے والی صوبائی اور مرکزی حکومت ازخود
اقتدار کے حق سے محروم ہوجاتی ہے اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مودی اور
یوگی جیسے لوگ حکومت کرنے لگتے ہیں ۔
فساد زدگان کے راحتی کیمپوں میں متعدد بنیادی سہولیات مثلاً پینے کا پانی
اور بیت الخلاء تک کا فقدان ہے ۔ ہرش مندر جیسے حقوق انسانی کے کارکنان
متعدد بار اس دگرگوں صورتحال کی جانب ساری دنیا کی توجہ مبذول کروا چکے ہیں
لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ مسئلہ صرف زندہ رہنے کے لئے درکار
سہولیات کاہی نہیں ہے بلکہ طلباء کی منقطع شدہ تعلیم اور نئے بچوں کے اسکول
کا بھی ہے۔ ان بدنصیب لوگوں کے پاس کوئی شناختی دستاویز مثلاً آدھار کارڈ
، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ بھی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر سرکاری سہولیات
سے استفادہ کیا جاسکے ۔ زندگی بچانے کے لئے جلدی میں اپنے گھروں سے نکل
آنے والے انبے خانماں لوگوںکے پاس اسکول میں داخلے کے لئے ضروری کاغذات تک
نہیں ہیں۔اکھلیش یادو حکومت تو انہیں بے یارومددگار چھوڑ گئی اور یوگی جی
اپنے لوگوں کو مقدمات سے بچانے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔
اس فساد کے نتیجے میں قومی اور صوبائی اقتدار کانگریس اور سماجوادی کے
ہاتھوں سے نکل کر بی جے پی کی جھولی میں چلا گیا۔ اس کے شعلوں نے اس وقت کے
حزب اقتدار جماعتوں کا قلعہ خاکستر کرکےان کی چتا میں آگ لگا دی لیکن ۵سال
بعد چودھری اجیت سنگھ نے دورہ کرکے سرزمین مظفر پورمیں بی جے پی کو دفن
کرنے کا عزم کیا۔چودھری اجیت سنگھ نے مظفر نگر میں رونما ہونے والے فرقہ
وارانہ فساد کو تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا ہے۔ ان پانچ سالوں میں مظفر نگر
کے زمینی حالات بھی اچھے خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ایک طرف جہاں امیت شاہ
راجستھان کے اندر اپنے اشتعال انگیز بیانات سے فرقہ وارانہ شعلوں کو ہوا دے
رہے ہیں وہیں چودھری اجیت سنگھ نے مظفر نگر میں مختلف مقامات پر پنچایت
کرکے جاٹوں کو بی جے پی کی سازش سمجھ کرر ۲۰۱۹ میں اس کا جواب دینے کی
ترغیب دے رہے ہیں ۔
۷ ستمبر۲۰۱۳ کو بی جے پی رہنماوں نےمہاپنچایت میں اشتعال انگیز تقریروں
کےذریعہ اترپردیش میں گودھرا جیسا ماحول پیدا کرکے تشدد برپا کردیا تھا اور
انتخاب میں اس کا گجرات جیسا فائدہ اٹھایا۔ چودھری اجیت سنگھ نے ۵ سال بعد
پھر سےدرجنوں چھوٹی چھوٹی پنچایتوں میں شرکت کرکے بی جے پی کی سازش کوبے
نقاب کیا نیز بی جے پی کو کسانوں اور آپسی بھائی چارے کی دشمن قرار دیا۔
اجیت سنگھ نے کہا کہ ’’ بی جے پی فساد کی سیاست کرتی ہے اور بھائی کو بھائی
سے لڑاتی ہے۔ بی جے پی جب تک اقتدار میں رہے گی لوگوں کو لڑاتی اور ملک کو
نقصان پہنچاتی رہے گی۔‘‘ اس سے قبل اجیت سنگھ نے کیرانہ کے ضمنی انتخاب میں
کامیابی کو ایک مثالی فتح قرار دیتے ہوئے اعتماد ظاہر کیا کہ ملک میں کہیں
بھی بی جے پی کو ہرایا جا سکتا ہے ، وہ غیر مفتوح نہیں ہے۔ اجیت سنگھ نے
اعتراف کیا کہ مظفر نگر کے اندر بی جے پی کی سازش کامیاب ہوئی تھی لیکن اب
جاٹ اور مسلم مل کر بی جے پی کو شکست دینے کا کام کریں گے۔جمعیۃ علماء ہند
کے ترجمان مولانا موسیٰ قاسمی نے تسلیم کیا کہ اجیت سنگھ فساد کے بعد کی
تلخیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب جاٹوں اور مسلمانوں کو اپنی
غلطیوں کا پچھتاوا ہے۔ وہ دونوں بہت قریب آ چکے ہیں۔ ہندو مسلم کسانوں
کاجو اتحاد ٹوٹ گیا تھا وہبحال ہو گیا ہے۔
اس تبدیل شدہ سیاسی منظرنامہ نے بی جے پی کو فکر مند کردیا ہے۔ اپنے نقصان
کی بھرپائی کے لیے یوگی حکومت نے بی جے پی کے دوارکان پارلیمان سنجیو
بالیان اور بھارتیندوسنگھ نیزممبراسمبلی امیش ملک، سنگیت سوم کے علاوہ
اترپردیش کے وزیرسریش رانا سمیت درجنوں رہنماوں کے خلاف مظفرنگرفرقہ وارانہ
فساد میں درج مجرمانہ معاملوں کو واپس لینے کی سعی تیز کردی لیکن اس کو
زبردست جھٹکا لگا اس وقت لگاجبکہ مظفر نگر کے ڈی ایم نے ان فسادیوں کے خلاف
مقدمہ واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے یوگی حکومت سکتہ میں آگئی۔ اتر
پردیش میں فی الحال جبر و استبداد کا یہ عالم ہے کہ انتظامیہ تو دور عدلیہ
بھی آزادانہ فیصلہ سنانے کی جرأت نہیں کرپارہا ہے۔ ایسے میں مظفر نگر کے
ڈی ایم راجیوشرما کا مقدمہ واپس لینے سے انکارکرنا اور اپنی رپورٹ وزارت
قانون کو بھیج دینا قابلِ تحسین قدم ہے۔ گجرات کے سنجیو بھٹ جیسے باضمیر
پولس افسران کو ہراساں کیے جانے کے باوجود راجیو شرما جیسےحق پسندوں کا
تمام تر مشکلات کے باوجود ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپرہوجانا ایک خوش آئند
باب ہے۔
مظفر نگر فسادات کی تحقیقات کے لیے اکھلیش سرکار نے سابق جسٹس وشنو سہائے
کی سربراہی میں یک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کی رپورٹ کے پیش ہونے تک
اترپردیش میں یوگی جی اقتدار سنبھال چکے تھے۔ اس رپورٹ نے حسب توقعاکھلیش
یادو کی ریاستی حکومت، من موہن سنگھ کی سرکارسمیتبی جے پی، آر ایس ایس اور
بجرنگ دل کے رہنماوں کو کلین چٹ دے دیاورفسادات کے لیے مقامی انتظامیہ کی
غیر ذمہ داری کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ اس لیپا پوتی کے باوجود یہ رپورٹ
بی جے پی کے متنازع رہنما سنگیت سوم کو نہیں بچا سکی جس نے مہا پنچایت میں
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ سنگیت سوم
کی نیت میں کھوٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے یوٹیوب
پر ہندوئوں کو بھڑکانے کے لئے جعلی ویڈیو اپ لوڈ کروا کر اس کی مدد سے فساد
پھیلایا تھا۔ مظفر نگر فسادات کے ۳ مقدمات میں ماخوذ سنگیت سوم ضمانت پر
آزاد گھوم رہا ہے۔
انتخاب جیتنے کے لیے اپنی پارٹی کے رہنماوں کو بچانا ضروری تو ہے لیکن کافی
نہیں ہے اس لیے اترپردیش کی یوگی سرکار نے اس سال کے آغاز میں مظفر نگر
اور شاملی فسادات سے متعلق ۱۳۱ مقدمات کو ختم کرنے کی کارروائی کا آغاز
کیا۔ تشدد کے مدنظر اس وقت کی سماجوادی حکومت نے مظفر نگر اور شاملی پولیس
تھانوں میں تقریبا ۱۴۵۵ افراد کے خلاف ۵۰۳ مقدمات درج کرائے تھے۔ریاست میں
بی جے پی کی حکومت کے آتے ہی فسادات کے مقدمات واپس لینے کی مانگ اٹھنے
لگی ۔ اس بابت بی جے پی رکن پارلیمان سنجیو بالیان اور بڑھانا کے ممبر
اسمبلی امیش کوشک کی قیادت میں مظفر نگر اور شاملی کے نمائندوں نے وزیر
اعلی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کرکے اپنے آدمیوں کو بچانے کے لیے ۱۷۹ مقدمات
ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ یہ بی جے پی کا کامیاب حربہ ہے کہ وہ پہلے عوام
کے جذبات بھڑکا کر ان کو فساد میں ملوث کرلیتی ہے۔ اس کے بعد وہ جب مقدمات
میں پھنس جاتے ہیں تو ان کو بلیک میل کرکے ان کا ووٹ لیتی ہے اور انہیں بری
کروا کر احسانمندی ظاہر کرتی ہے۔
یوگی حکومت نے یہ کارروائی ایسے وقت میں شروع کی جب عدالت لگاتار ان
رہنماوں حاضری کے لیے نوٹس جاری کر رہی تھی اور انھیں کورٹ میں پیش ہونا پڑ
رہا تھا۔ مقدمات کے واپسی کی صورت میں ان فسادیوں کو عدالت میں پیشی سے
نجات مل سکتی ہے۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کاونسل (کریمنل) دشینت تیاگی کے مطابق
حکومت اپنی جانب سے درج کرائے گئے مقدموں کو واپس تو لے سکتی ہے لیکن یہ
بہت مشکل کام ہےکیونکہ عدالت بہت سارے پہلووں پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی
فیصلہ کرتی ہے۔ اس سے قبل اکھلیش حکومت نے کچھ مقدمات واپس لینے کی کوشش کو
عدالت نے نامنظور کر دیا تھا۔ مقدمہ واپسی کی گہما گہمی کے درمیان فساد
زدگان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر تے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کےرہنما شمشیر ملک
کہتے ہیں کہ ”فساد کے متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے، مقدمہ واپسی کی یہ کوشش
پوری طرح غلط ہے۔ یہ تو فساد زدگان پر مزید ظلم ثابت ہوگا۔“ وکیل اسد زماں
کا کہنا ہے کہ ”فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے ورنہ لوگوں کا عدلیہ کےاوپر
سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔“
بھارتیہ کسان یونین کے رہنما نریش ٹکیت نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا کہ ’اتر پردیش حکومت کی جانب سے بی جے پی لیڈران کے خلاف واپس لئے
جارہے مقدموں سےظاہر ہو تا ہے کہ فساد ووٹ حاصل کرنے کے لئے کرایا
گیاتھا۔‘‘ٹکیت کا کہنا ہے کہ جو لوگ آگ لگانے میں ملوث تھے ان کے خلاف
مقدمے واپس ہوجائیں تو پھر صلح صفائی کی تمام کوششیں بےکار ہو جائیں گی۔
اشوک بالیان کی رائے ہے کہ ’’ علاقہ میں بھائی چارہ برقرار رکھنے کے لئے
مفاہمت لازمی ہے لیکن بی جےپی رہنماؤں کے خلاف مقدمات واپس ہونے سے منفی
اثرات مرتب ہوں گے۔ ‘‘ ان کا کہنا ہے کہ علاقہ میں مفاہمت کے ساتھ ساتھ یہ
بھی بہت ضروری ہے کہ سبھی لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لئے صاف ہو جائیں ۔بی
کے یو کے رہنما راجو اہلاوت کا کہنا ہے کہ ’’ ہم ایسا قطعی نہیں ہونے دیں
گے کہ جنتا کٹے اوروہ مزے کریں ۔مقدمات واپس ہوں توصرف بی جے پی رہنماؤں
کے نہیں بلکہ سبھی کے ہوں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ جاٹ اور مسلمان ایک
دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر گلے شکوے دور کریں۔ جو لوگ مقدمے واپس لینے کی
کوششوں میں مصروف ہیں دراصل( فساد) سب کچھ انہیں کا کیا دھرا ہے۔ ‘‘
مظفرنگر کے معاملے میں یوگی ادیتیہ ناتھ نے پہلے تو بی جے پی رہنماوں کے
لیے کلین چٹ حاصل کی اور جب دیکھا کہ ایسا کرنے سے فسادی ناراض ہورہے ہیں
تو ان سب کو بچانے کی کوشش بھی شروع کردی ۔ایسے میں دوسرے فسادیوں کو تحفظ
فراہم کرنے کے لیے کوشاں وزیراعلیٰ کا خود اپنے ہی مقدمہ میں ماخوذ ہوجانا
مشیت کا عجیب و غریب انتقام ہے۔ گورکھپورکے اندر ۲۰۰۷ میں ہونے والے فساد
کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملہ میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ
یوگی آدتیہ ناتھ کو سپریم کورٹ نے گورکھپور کی عدالت کو حکم دیا ہے کہ
وزیراعلیٰ کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور معاملہ کی پھر سے سماعت کی جائے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے
فیصلے کے خلاف دائر پٹیشن میں فیصلہ سنایا کہ ’’ہم گورکھپور کے مجسٹریٹ کو
ہدایت دیتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں قانون کے دائرے میں مناسب حکم
سنائے‘‘۔گورکھپور کی عدالت نے اس لیے سماعت بند کردی تھی کہ اس کے پاس
مقدمہ چلانے کی منظوری نہیں ہے۔اتر پردیش میں وزارت داخلہ کا قلمدان خود
وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے پاس ہےاس لیے ان کے دفتر کا سکریٹری اپنے
مالک کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت کیونکر دے سکتا ہے؟
عدالت عظمیٰ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد عرضی گزار راشد خان نے اخبار نویسوں
کو بتایا کہ ’’سپریم کورٹ میں اترپردیش حکومت ذیلی عدالت کے اندر مقدمہ کی
سماعت بند کرنے کا مناسب سبب بتا نے میں ناکام ہوگئی ، لہذا یو گی کے خلاف
پھر سے مقدمہ چلانے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ٹرائل
کورٹ پھر سے اس معاملہ پر غور کرے اور اپنے ضمیر کا استعمال کرتے ہوئے حکم
صادر کرے‘‘۔۱۱ سال قبل اس وقت کے رکن پارلیمان اور موجودہ وزیر اعلی یوگی
آدتیہ ناتھ، سابق ایم ایل اے رادھا موہن داس اگروال اور گورکھپور کی سابق
میئر انجو چودھری پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور فساد بھڑکانے کا الزام
لگا تھا جس میں دو لوگوں کی موت اور کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حسب توقع ہے کیونکہ گزشتہ ماہ چیف جسٹس دیپک مشرا
کی سربراہی والی بنچ نے یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر کے
پوچھا تھا کہ آخر اس معاملے میں ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہ چلایا جائے؟
جبکہ اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سےوزیر اعلی سمیت ۷ لوگوں کو راحت
مل چکی تھی۔ اس کے باوجود جب رشید خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کی
گئی پٹیشن پر چیف جسٹس دیپک مشرا ،جسٹس چندر چوڑ اورجسٹس کھا نولکر والی سہ
رکنی بنچ نے سماعت کے لیے قبول کرلیا ورنہ اسے بہ آسانی مسترد کیا جاسکتا
تھا ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف ۲۰۰۹ میں چارج شیٹ داخل کی گئی تھی ۔نیز
حکم دیا گیا تھا کہ ملزمین کے خلاف مقدمہ چلایا جائے ۔۲۰۰۹ سے ۲۰۱۵ کے
درمیان یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں رہا اور چہار جانب خاموشی چھائی رہی تاہم
مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد یوگی جی کے حوصلے بلند ہوگئے اور
انہوں نے اس مقدمہ کو ختم کرنے کے لیے زندہ کیا جو انہیں مہنگا پڑگیا۔
یوگی جی کے وزیراعلیٰ بن جانے کے بعد۲۰۱۸ کے اوائل میں متاثرین کو اطلاع
دیئے بغیر پورے معاملہ کو خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ نےملزمین کوبری کردیا
تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے خلاف سپریم کورٹ میں یوگی جی پھنس گئے
۔ اس طرح ان کے سر پر ایک مرتبہ پھرتلوار لٹک گئی ۔۲۰۰۷ء میں یوگی جی کے
گرفتار ہوجانے سے بی جے پی کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ ایوان پارلیمان میں رو
دھو کر چھوٹ گئے لیکن اب اگر دوبارہ گرفتاری عمل میں آتی ہے تو یہ بی جے
پی کے لیے بہت بڑی رسوائی ہوگی۔اترپردیش حکومت کےوزیراعلیٰ یوگی آدتیہ
ناتھ پر مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دینے کے معاملے میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ
جنرل وملیندر ترپاٹھی کو سرکاری عہدہ گنوانا پڑ ا تھا۔ عدالت کے اندرحلف
نامہ دینے میں ناکام رہنے والےترپاٹھی کو عدالت نے جب کھری کھری سنائی تو
انہیں پہلے توعدالت سے معافی مانگنی پڑی اور بعد میں استعفیٰ دینا پڑا۔ اب
دیکھنا یہ ہے یوگی جی کی رسوائی ترپاٹھی جی سے زیادہ ہوتی ہے یا کم؟ یوگی
ادیتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ بنانے کی جو غلطی مودی جی نے کی ہے اس کی وہ بہت
بڑی قیمت چکائیں گے۔جو شخص اتنا نہیں جانتا کہ ذیابطیس کا مرض شکر کھانے کے
سبب نہیں ہوتا بلکہ اگر یہ ہوجائے تو شکر سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ ایسےآدمی
کو وزیراعلیٰ بنادینا ایک ہمالیائی چوک ہے۔اس میں شک نہیں کہ آئندہ قومی
انتخاب میں مظفر نگر اور گورکھپور کا فساد مودی اور یوگی کے گلے کی ہڈی بن
جائے گا۔ |