آذان اور قائداعظم

 تحریر:ارم فاطمہ ، لاہور
صبح کے سات بج رہے تھے، ناشتہ ٹیبل پر لگ چکا تھا۔امی آذان کو آواز دے رہیں تھیں کہ آکر ناشتہ کرلو پھر اسکول کے لیے تیار بھی ہونا ہے۔ آکر کمرے میں دیکھا تووہ سورہا تھا۔ ابھی بیگ بھی تیار کرنا تھا اور وین نے اپنے وقت پر آنا تھا۔ اکثر یہی ہوتا کہ وہ بغیر ناشتہ کیے ہی اسکول چلا جاتا تھا۔ امی اسے کئی مرتبہ کہہ چکیں تھیں کہ بیگ رات کو تیارکرلیا کرو تاکہ صبح دیر نہ ہوا کرے مگر آذان ہوم ورک کرنے کے بعد کمپیوٹر پر گیم ضرور کھیلتا تھا۔ جس کی وجہ سے لیٹ سوتا تھا اور پھر اسے صبح اٹھنے میں دشواری ہوتی تھی۔

رات کو گیم کھیلنے پر اسے کئی مرتبہ ابو سے ڈانت بھی پر چکی تھی۔آذان میں دو بری عادتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کبھی کوئی بھی کام وقت پر نہیں کرتا تھا اور دوسرے یہ کہ اپنا ہوم ورک اور ٹیسٹ کی تیاری ہمیشہ بعد میں کرتا تھا پہلے ٹی وی پر کارٹون دیکھنا اور پھر کوئی کرکٹ میچ دیکھنا اس کا پسندیدہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی کام یا تو اچھے طریقے سے ہو نہیں پاتاتھایا پھر ادھورا رہ جاتا تھا۔ سب سے زیادہ پریشانی یہی ہوتی تھی کہ ہوم ورک بمشکل کر پاتا تھا۔اس کی اس عادت سے سبھی گھر والے پریشان تھے۔

۱۱ ستمبر قریب تھی اس دن کے حوالے سے ان کے اسکول میں ایک پروقار تقریب ہونی تھی۔ کلاس ٹیچر مس انعم نے کلاس کے ہونہار بچوں کو ۱۱ستمبر کے حوالے سے بہت کچھ بتایا تھا اور انہیں مختلف پروگرام کے لیے تیار کیا تھا۔ حرا نے قائد اعظم پر نظم پڑھنی تھی، جنید نے قائداعطم کی زندگی اور ان کی پاکستان کے لیے جدوجہد پر ایک تقریر تیار کی تھی۔اس تقریب میں ان کی کلاس نے ایک ٹیبلو بھی پیش کرنا تھا جس میں بچوں نے تحریک آزادی کی مشہور شخصیات کے کردار ادا کرنے تھے۔جیسے کہ سدرہ کو مس انعم نے فاطمہ جناح کا کردار دیا تھا۔محمد اقبال ،شاعر مشرق علامہ اقبال بنا تھا جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔علی،چوہدری رحمت علی کا کردار نبھارہا تھا۔

رحیم کو مس نے ماوٗنٹ بیٹن بنایا تھا۔ سب بچے مس انعم سے پوچھ رہے تھے قائد اعظم کون بنے گا؟مس انعم نے آذان کو جناح کیپ پہناتے ہوئے کہا ’’ قائد اعظم کا کردار آذان ادا کرے گا‘‘۔ساجد نے طنز کرتے ہوئے کہا ’’ مس آذان تو اپنا کوئی بھی کام وقت پر نہیں کرتا یہ قائد اعظم کیسے بن سکتا ہے ‘‘۔ آذان نے یہ بات سنی تو اسے بہت برا لگا مگر وہ خاموش رہا۔مس انعم انہیں کئی دن تک تیاری کرواتی رہیں۔ ان کے لباس اور وہ تمام مکالمے یاد کروائے جو انہیں سٹیج پر ادا کرنے تھے۔ آذان بہت پریشان تھا کیوں کہ اس سے تیاری ٹھیک طرح نہیں ہورہی تھی۔ اسے مکالمے یاد نہیں ہورہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ شاید اچھے طریقے سے کردار نہیں ادا کرسکے گا۔ مس انعم نے اسے بہت حوصلہ دیا ۔

۱۱ ستمبر کو تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ۔ احد نے نعت رسولﷺ مقبول پڑھی پھر قائداعظم کے لیے پرنسپل مس عائشہ نے دعائیہ کلمات ادا کیے اور ان کی جدوجہد کو سلام پیش کیا۔سب کے آخر میں ٹیبلو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے سدرہ نے فاطمہ جناح کے کردار میں قائد اعظم کی زندگی اور ان کی تعلیم میں کامیابیوں کا ذکر کیا کہ کیسے اپنے بیرسٹر بننے کے سفر میں انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں سوچا۔ محمد اقبال نے تصورپاکستان بہترین انداز میں پیش کیا ۔ ٹیبلو کا آخری منظر ماوٗنٹ بیٹن اور قائد اعظم کے درمیان تھا جو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔قائد اعظم کے کردار میں جب آذان نے جوش و خروش کے ساتھ پاکستان کے حصول میں کی گئی قربانیوں کا ذکر کیا۔

قائد کی کوششوں کو ان کے جذبے کو بیان کیا۔ قائد اعظم کی ان نوجوانوں اور بچوں سے بہت امیدیں تھیں۔ وہ جانتے تھے پاکستان کو انہوں نے سنبھالنا ہے ۔ یہ تمام باتیں آذان نے اتنے بہترین انداز میں کیں کہ سارا ہال کھڑے ہو کر اس ننھے بچے کو شاباش کہہ رہا تھا۔اس وقت ااذان کو ان کہے گئے الفاظ کی طاقت کا احساس ہوا۔ ان الفاظ نے اس کو بدل دیا۔ گھر میں، اسکول میں سب آذان کو دیکھ کر حیران تھے کہ کیسے وہ ہر کام لگن سے اور محنت سے کرنے لگا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اب ہر کام وقت پر کرنے لگا تھا کیوں کہ اس نے جان لیا تھا کہ کامیابی انہیں ملتی ہے جو محنت کو اپناتے ہیں اور مقصد کو سامنے رکھتے ہیں۔ اسے اب قائد کی ہر بات پہ عمل کرکے اپنے پیارے وطن پاکستان کے لیے کام کرنا تھا۔ یہی اس کا مقصد اور یہی اس کی زندگی تھی۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.