تحریر: دیا خان بلوچ، لاہور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دور دراز بہت خوبصورت سا شہر تھا۔اس شہر میں سب
کچھ بہت اچھا تھا لیکن اس میں ایک بات بہت بری تھی اوروہ یہ کہ وہاں ایک
ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ اپنی رعایا پہ بہت ظلم کرتا اور کسی بھی
چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر انہیں سخت سے سخت سزا دیتا۔تمام رعایا اس سے بہت
تنگ تھے وہاں سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے لیکن ایسا کرنا ناممکن تھا ان کے
لیے۔سب دعا کرتے کہ جلد از جلد شہزادہ خرم اس سلطنت کے مالک بن جائیں کیوں
کہ شہزادہ خرم نیک فطرت کا مالک تھا۔وہ کسی کے ساتھ نا انصافی ہونے نہیں
دیتا تھا۔اس کی اس نرم دل طبیعت کی وجہ سے اکثر بادشاہ سے ڈانٹ بھی پڑ جاتی
لیکن شہزادہ خرم کبھی اف نہ کرتے۔اسی طرح وقت آہستہ آہستہ گزرتا جا رہا تھا۔
ایک دن بادشاہ اپنے دربار میں موجود تھا ،ایک اہم مسئلے کے حل کے لیے اسے
شہزادہ خرم کی ضرورت تھی۔بادشاہ نے شہزادہ کو اپنے دربار میں طلب کر
لیا۔تھوڑی ہی دیر میں محل میں شورو غل مچ گیا کیوں کہ شہزادہ خرم محل میں
کہیں بھی موجود نہ تھا۔یہ سن کر بادشاہ تو بستر سے ہی لگ گیا۔بادشاہ نے
اعلان کردیا کہ جو شخص بھی شہزادہ خرم کو اسے پاس زندہ سلامت لے کر آئیے گا
وہ اسے منہ مانگا انعام دے گا۔رعایا تو پہلے ہی شہزادہ خرم سے بہت محبت
کرتی تھی اور ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ انہیں جلد سے جلد واپس لے
آئیں۔بادشاہ کا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا،ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی
حالت خراب ہونے لگی تھی۔ایک بات جس نے بادشاہ کو بہت حیران کر دیا تھا وہ
تھا رعایا کا بادشاہ کا خیال رکھنا اور دلجوئی کرنا۔وہ سوچتا میں نے ان سب
کے ساتھ اتنا برا کیا لیکن ان سب کو میری فکر ہے،سب میرے بیٹے کے دعا گو
ہیں۔میں کتنا برا بادشاہ ہوں ۔یہ سوچتے ہوئے بادشاہ کئی راتوں تک مسلسل
جاگتا رہا اور رو رو کر اﷲ سے اپنے کیے گئے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔
اس دن سے بادشاہ نے اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرنا شروع کر دیا،اب وہ نہ
کسی کا حق کھاتا اور کسی بے گنا ہ کو سزا سناتا۔سب بادشاہ کی رحمدلی سے بہت
خوش تھے اور دل و جان سے شہزادہ خرم کی واپسی کے لیے دعائیں کرتے۔تھوڑے
عرصے بعد محل میں ملک شام کی طرف سے ایک قافلہ آیا اس قافلہ کا سپہ سالار
رعایا کو اس طرح خوشحال دیکھ کر بہت حیران ہوا۔اس نے منہ اپنا منہ رومال سے
چھپایا ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے کوئی پہچان نہیں سکا تھا۔یہ قافلہ دربار
میں حاضر ہوا اور بادشاہ سے ملنے کی درخواست کی۔وزیر نے بارہا کہا کہ
بادشاہ سلامت بیمار ہیں وہ کسی سے نہیں مل سکتے۔تبھی سپہ سالار نے کہا،’’آپ
بادشاہ سلامت سے کہیے ہم ان کے لیے ایک خاص تحفہ لائے ہیں جسے دیکھ کر وہ
ایک دم تندروست و توانا ہو جائیں گے‘‘۔وزیر نے ان کا پیغام بادشاہ تک پہنچا
دیا ،تھوڑی ہی دیر میں بادشاہ اپنے تخت پہ موجود تھے۔سپہ سالار آگے بڑھا اس
نے جھک کر بادشاہ کو آداب کہا اور اپنے چہرے کو رومال کی قید سے آزاد کر
دیا۔
وہ سپہ سالار کوئی اور نہیں بلکہ شہزادہ خرم تھا،بادشاہ نے فوراً آگے بڑھ
کر شہزادے کو گلے لگا لیا اور زاروقطار رونے لگا۔تھوڑی دیر بعد سنبھلا تو
بیٹے سے اتنی لمبی جدائی کی وجہ پوچھی۔ابا جان! میں اس رات ہی اپنے دوستوں
کے ساتھ ملک شام روانہ ہوگیا تھا،کیوں کہ وہاں پہ گھڑ سواری اور تیر اندازی
کے مقابلے ہورہے تھے،گھڑ سواری کے مقابلے میں میرے ساتھ حادثہ پیش آگیا تھا
،گھوڑا بے قابو ہو گیا جس کی وجہ سے میں بہت زخمی ہو گیا تھا۔نقاہت کی وجہ
سے میں غنودگی میں رہتا تھا اس لیے آپ تک اپنی خیریت کا پیغام نہ بھجوا
سکتالیکن تمہارے دوست وہ تو جانتے تھے۔
ابا جان وہ سب آپ سے بہت خوفزدہ تھے کیا پتہ آپ ان کا سر ہی قلم کروا دیتے
اس لیے سب نے خاموشی اختیار رکھی اور میرے صحت یاب ہونے کا انتظار کرنے
لگے۔ابا جان دیکھیں میں آج آپ کے سامنے صحیح سلامت بیٹھا ہوں۔اباجان،میں یہ
دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں کہ آپ نے رعایا کا بہت خیال رکھا ہے،آپ بہت بدل
گئے ہیں۔شہزادہ خرم نے مسکراتے ہوئے کہا۔جی بیٹا،میں ان سب کی محبتو ں کا
مقروض ہوں ان سب نے مجھے میرے دکھی وقت میں تنہا نہیں کیا میرا بہت خیال
رکھا۔مجھے بھی احساس ہوا اور میں نے اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی
اور اس دن سے انصاف کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ کسی بے گنا ہ کو تکلیف نہ
ہو۔شہزادہ خرم نے بادشاہ سلامت کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگا لیے۔بادشاہ نے
شہزادہ خرم کی واپسی کی خوشی میں آج شام جشن کا اعلان کر دیا تھا۔اس طرح سب
ہنسی خوشی رہنے لگے۔ |