تحریر: علینہ فاطمہ
وہ بالکل میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور ہمیشہ کی طرح مجھے
اپنے آپ پر کنٹرول ہی نہیں تھا کہ مجھے محسوس ہوتا کہ آج وہ عام روٹین سے
ہٹ کر لگ رہی تھی۔ کھانا کھانے کے دوران اچانک دوست کی چھوٹی بہن نے بھی
کہا آج تو آپ تیار ہو کر آئی ہیں۔ آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں پہلے کبھی تیار
ہو کر نہیں آئیں نہ آپ تیار ہوا کرو بہت اچھی لگتی ہیں۔ مجھے ہاتھ میں پکڑا
ہوا نوالا تک بھول گیا۔ میں نے بے ساختہ نگاہیں اس کی طرف کیں ایک نظر
دیکھا اور دوبارہ نظریں جھکا کر کھانے کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی ناکام
کوشش شروع کر دی۔ دوست کی بہن متواتر بولے جا رہی تھی اور میرا دل خوشی سے
پھولے نہیں سما رہا تھا۔
میرے ذہن میں ایک دن پہلے اس سے کہے ہوئے الفاظ ایک کے بعد ایک کر کے گھوم
رہے تھے جو میں نے اس سے کہے ، میرا دل چاہتا ہے جب میں آپ سے ملوں تو آپ
تیار ہو کر آئیں۔ وہ سوٹ پہن کر آنا جو میں نے آپ کو لے کر دیا تھا۔ اور جو
رنگ پہنی تھی نا آپ نے کچھ دن پہلے وہ پہن کر آنا ہاں ساتھ میں بریسلیٹ بھی،
دیکھو لپسٹک تو آپ کو اچھی لگتی ہی ہے ساتھ میں کاجل بھی ہو تو کیا بات ہے۔
اور آج اس نے وہ سب کیا تھا جو میں نے اس سے بولا۔ میرے کانوں میں کچھ دیر
پہلے اس کے کہے الفاظ گونج رہے تھے جو اس نے دوست سے فون پر کہے میں نہیں
آسکتی۔ میں نے جو پچھلے ہفتے سوٹ پہنا ہوا تھا نا میرے پاس بس وہی ایک سوٹ
پریس کیا ہوا ہے اور لائٹ نہیں آپ کے گھر والے کیا کہیں گے۔
جس پر دوست نے اس کو غصے میں کہا کوئی کچھ نہیں کہتا بس آجائیں اور مجھے بے
ساختہ ہنسی آئی کیوں کہ وہ پچھلے ہفتے وہی سوٹ اس لیے پہن کر گئی کہ اسے
لگا میں نے ضرور آنا ہے۔ جسے بھی سہی پر اس نے آج میری ساری باتوں کا مان
رکھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہمارے درمیان ہونے والی لڑائی کے باوجود اس نے میری
ساری خواہشیں پوری کیں اور ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی جتائے بغیر اپنی محبت
کا مان رکھا۔ وہ ایسی ہی ہے اسے جتانا نہیں آتا اسے نبھانا آتا ہے۔ اور
ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو جتانا نہیں نبھانا جانتے ہیں۔ قدر کیا کریں
ایسے لوگوں کی یہ کھو جائیں تو ان جیسا کوئی ملنا بھی نہیں۔ |