جنگِ نہروان

مقام ''نہروان'' عراق میں واقع دریائے دجلہ کے کنارے واسط اور بغداد کے درمیانی علاقے میں موجود دیہاتوں پر مشتمل علاقہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور خوارج کے درمیان جنگ ہوئی۔ خوارج ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ابتدا میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور آپ ہی کی قیادت میں جنگِ صفین میں شریک ہوئے لیکن حکومتِ شام نے جب اپنی شکست کو یقینی جانا تو اپنی چالبازیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنِ مجید کو نیزوں پر بلند کیا جس سے امیرالمومنین علیہ السلام کے لشکر میں موجود کمزور ایمان افراد نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور بات حَکَم پر آکے ٹھہر گئی۔ لیکن جب جنگ ر ک گئی تو کچھ افراد نے حَکَم والے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضرت علی علیہ السلام سے کہنے لگے کہ حَکَم کی بات نہ مانیں بلکہ ان سے جنگ کریں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ ابتدا میں مجھے تم لوگوں نے ہی حَکَم قرار دینے پر مجبور کیا تھا اور میں نے حکومتِ شام سے حکم قرار دینے کا وعدہ کیا ہے، حَکم کے بعد جو فیصلہ آئے گا اُسی وقت دیکھا جائے گا، لیکن یہ لوگ اپنی بات پر مصر رہے اور نہروان کے مقام پر جمع ہو کر حضرت علی علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو اذیت دینے لگے۔یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی عبد اللہ بن خباب اور ان کی حاملہ بیوی کا سر قلم کر کے ان کی بیوی کا شکم چاک کردیا، ان ظالم لوگوں نے کئی مرتبہ بے جرم و خطا افراد و کو نہایت دردناک صورت میں شہید کیا۔

ان حالات میں حضرت علی علیہ السلام اپنا لشکر لے کر نہروان کی طرف چل پڑے مخالف لشکر میں چودہ ہزار افراد تھے، حضرت علی علیہ السلام نے اپنا عَلم حضرت ابوایوب انصاری کے ہاتھ میں دیا اور اس عَلَم کا نام ''عَلَمِ امان'' رکھا۔ ابو ایوب انصاری نے لشکر خوارج کے سامنے آکر بلند آواز سے کہا: جو شخص اس علم کے نیچے آجائے گا وہ امان میں ہوگا اور جو میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گا اس کے لیے بھی امان ہے۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لشکر کو آمادہ کی اور فرمایا کہ جب تک دشمن پہل نہ کرے جنگ نہیں کرنی، اسی اثنا میں دشمن کے لشکر سے ایک فریب خوردہ آواز اٹھی ''جلدی کرو بہشت کی طرف!'' یہ کہہ کر انہوں نے حضرت علیہ السلام کے لشکر پر دھاوا بول دیا۔ حضرت نے بھی اپنے لشکر سے فرمایا کہ : اب تمہیں اجازت ہے کہ خوب جنگ کرو، چنانچہ جنگ شروع ہوئی اور حضرت علی علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق صرف 9افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جبکہ باقی سرکشوں کا کام تمام ہوا۔ یہ واقعہ 9صفر 38ہجری کو پیش آیا۔
Jamil Hussain
About the Author: Jamil Hussain Read More Articles by Jamil Hussain: 5 Articles with 9619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.