بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صدر مملکت پاکستان کے نام کھلا خط
نحمدہ ونصلیی علی رسولہ الکریم،
۱۴ جون ۲۰۰۹ کو چک نمبر ۱۳ ٹانوالی ضلع ننکانہ میں ایک دلدوز واقعہ ہوا۔
اسکی تفصیل یہ ہے کہ اس گاؤں کے زمیندار کے فالسہ کا باغ ہے ۔اس علاقہ کے
عورتیں فالسہ کے باغ سے پھل توڑتی ہیں اور اپنی مزدوری لیتی ہیں۔ ان عورتوں
میں ایک عورت آسیہ مسیح بھی تھی۔ جو کہ گاؤں میں سابق فوجی عاشق مسیح کی
اہلیہ ہے۔ فالسہ کا پھل توڑنے والوں میں مسلمان عورتیں عافیہ اور عاصمہ سگی
بہنیں بھی موجود تھیں۔ آسیہ مسیح عورت نے مسلمان بہنوں کے گلاس سے پانی پیا۔
تو عافیہ اور عاصمہ نے اس گلاس سے پانی پینے کے بجائے پیالی سے پانی پیا ،
اسکا آسیہ مسیح نے برا منایا اور نبی کریم صلیی اللہ علیہ و علی اٰلہ و و
سلم کی ذات گرامی کے متعلق دل خراش ،اہانت آمیز اور گستاخانہ الفاظ کہے ۔
نیز سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حضور صلی اللہ علیہ و علی
اٰلہ و صحبہ و سلم کے ساتھ شادی کے بارے میں سخت اہانت امیز ، تحقیرانہ
انداز میں واہی تباہی بکی ۔
گاؤں کے دونوں مسلمان بہنوں نے یہ سن کر رونا شروع کیا ۔ باغ کے زمیندار کے
بیٹے محمد افضل کو اس واقعے کے بارے میں ان دونوں بہنوں نے بتایا تو اس نے
خود آسیہ مسیح سے اسکے جرم کے بارے میں پوچھا تو اس ملعونہ عورت نے اپنے
گناہ کا اقرار کیا۔ کہ اس نے واقعی رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و
صحبہ و سلم اور خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اہانت امیز
الفاظ کہے ہیں۔
رفتہ رفتہ بات گاؤں میں پہنچی تو گاؤ ں کے اما م قاری سلیم نے لوگوں کی
موجودگی میں آسیہ مسیح سے پوچھا تو اس نے اقرار کیا اور ساتھ معافی بھی
مانگی۔
گاؤں کی پنچائیت نے قرار دیا کہ اس ملعونہ نے خود جرم کا اعتراف کیا ہے اور
اس نے معافی بھی چاہی ہے لیکن یہ جرم ایسا ہے کہ کوئی مسلمان اسکی معافی
نہیں کرسکتا ، لھذا اسکو قانون کے سپرد کیا جائے۔
یہ پنچائیت ۱۹ جون ۲۰۰۹ کو ہوئی ، چنانچہ پنچائیت کی تحقیقات کے بعد مقدمہ
نمبر ۹۰/۳۲۶ زیر دفعہ سی۔۲۹۵ تھانہ ننکانہ میں درج ہوا۔ اسی روز ملعونہ کو
پولیس نے گرفتار کیا ۔مقدمہ کی تفتیش ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ سید
محمد امین بخاری نے کی۔
انہوں نے مدعی ، ملزمہ دونوں پارٹیوں کا مؤقف سنا ، گواہوں کے بیانات
قلمبند کئے اور اپنی آزادانہ تحقیقات کے بعد اس ملعونہ کو مجرم قرار دے کر
چالان مکمل کرکے عدالت کے سپرد کردیا۔
جناب محمد نوید اقبال ایڈیشنل جج کی عدالت میں ڈیڑھ سال تک کیس چلتا رہا۔
استغاثہ کے گواہان پیش ہوئے ، صفائی کے گواہ پیش ہوے ۔مدعی و ملزمہ کے وکیل
پیش ہوئے اور سماعت مکمل ہونے کے بعد فاضل جج نے جرم ثابت ہونے پر ۸ نومبر
۲۰۱۰ کو آسیہ مسیح کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
اس سزا کے خلاف ملعونہ کے شوہر نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔
اس دوران کلیسائے روم کے پوپ بینی ڈکٹ نے اخبارات کے ذریعے اس ملعونہ کی
رہائی کا مطالبہ کیا ، پہلے بھی اٹلی ، برطانیہ کلیسائے روم میں نصف درجن
سے زائد ملعونین مجرمان کی محفوظ رہائش گاہیں ہیں۔ اور انکو روزگار فراہم
کیا گیا ہے۔ افغانستان کا مرتد عبدالرحمٰن ، مصر کی ملعون کمیلا شاہنا ،
بحرین کا یاسر حبیب ، کابل کا صحافی احمد سب اس کلیسائے روم کے تحت مختلف
ممالک جیسے اٹلی وغیرہ میں پناہ گزین ہیں۔
دنیائے مسیحیت کے پوپ اہم انٹر نیشنل لیول پر مسائل کا اظہار خیال کرتے ہیں۔
شخصی معاملات انکے منصب کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔ اس بار انہوں نے اس ملعونہ
کی شخصی کیس میں مداخلت کی ۔ نتیجہ میں پاکستان کے مختلف بشپ صاحبان بھی اس
ملعونہ کے رہائی کے بیانات داغنے لگے، اور اپیل کرنے لگے، گویا مسلمانوں کے
درپے آزار ہونے لگے۔
جناب صدر مملکت:
پاکستان پیپلز پارٹی کے گذشتہ ادوار میں بھی یہ واقعہ تاریخ کا قصہ ہے کہ
سزا یافتہ مجرم کو راتوں رات جیل سے رہا کر کے بیرون ملک بھجوادیا گیا۔
چنانچہ اسکے بعد پورے ملک میں غیر مسلموں کی طرف سے اہانت رسول کے واقعات
ہونے لگے ۔ان ملعونوں نے حکومتی اور کلیسائے روم کے طرز عمل سے باور کرلیا
کہ باہر کی ملکوں کے ویزا نیشنیلٹی کیلئے آسان راستہ یہ ہے کہ حضور صلی
اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو گالیاں دے کر ایف آئی ار کو بنیاد
بنا کر باہر کا آسانی سے ویزا حصلی کرو۔
کلیسائے روم اور مسیحی این جی اوز سے کوئی پوچھے کہ چودہ سو سال سے نبی پاک
صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم ، قرآن مجید کے پیروکار امت محمدیہ
سیدنا مسیح علیہ السلام کی وکیل صفائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہودیت کے
بالمقابل چودہ سو سال سے اور ڈیڑھ سو سال سے قادیانیت کے مقابل کہ یہ دونوں
گروہ (یہودی و قادیانی) سیدنا مسیح علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں اور
اہانت کرتے ہیں۔ اور مسلمان انکے مقابلے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے عزت
و ناموس کے حفاظت کریں۔
آج کلیسائے روم اہل اسلام کو یہ بدلہ چکا رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ و علی
اٰلہ و صحبہ و سلم، قرآن مجید اور امت محمدیہ کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے
نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو گالیاں دیتے ہیں اور
گستاخان رسول کی حوصلیہ افزائی کرتے ہیں۔ اور ناموس رسالت قانون کو ختم
کرنے کی مہم کو چلا رہے ہیں۔۔
کوئی پوپ سے پوچھے کہ جناب کیا مغربی ممالک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی
عزت کا قانون موجود نہیں ہے؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو وہ تو صحیح اور
پیغمبر اسلام کی عزت وناموس کا قانون غلط۔
آخر یہ دوہرا معاملہ کیوں ؟ اور پھر طرفہ یہ کہ پاکستان میں تحفظ ناموس
رسالت کا قانون تمام انبیائے کرام کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے بنایا گیا
ہے۔
بائیں ہمہ اس پر تنقید کرنا ، سیخ پا ہونا اور اسکو ختم کرانے کے درپے ہونا
اور اسکی تنسیخ کیلئے مہم جوئی کرنا سخت افسوس ناک امر ہے۔
جناب صدر:
جن حکومتوں نے پہلے اہانت رسول کے مجرمان کو بیرون ملک بھجوایا ہے تو انکا
انجام بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے اور اگر اب کسی نے اسی کردار کو دھرایا تو
اس کا انجام بھی دنیا دیکھ لے گی۔ اسلئے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باخدا دیوانہ باش بامحمد ہوشیار باش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب صدر:
کیا کیا جائے اس کا کہ ادھر کلیسائے روم بولا ، ادھر امریکہ نے نعرہ لگایا
کہ ملعونہ آسیہ مسیح کے خاندان کو امریکا ویزا دینے کیلئے تیار ہے۔
جناب ! کبھی نہ بھولئے یہ وہی امریکا جس نے مسلمان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو
نمونہ عبرت بنایا ہوا ہے ، وہی امریکا ایک مسیحی ملعونہ کو پناہ دینے کیلئے
تیار ہے۔
آپ کے نمائندے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو یہ تو فیق تو نہیں ملی کہ اس
مسلمان بہن عافیہ صدیقی کو رہا کراسکے ۔
لیکن یہ صاحب ۲۰ نومبر ۲۰۱۰ کو ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ جاتے ہیں اور پریس
کانفرنس کرتے ہیں ، ملعونہ کو تپکی دیتے ہیں ، اور اسکی وکالت کا فریضہ
گورنر پنجاب انجام دیتے ہیں ، تیار درخواست پر گورنر اس ملعونہ کے دستخط
کراتے ہیں اور پھر اس کی درخواست آنجناب(صدر مملکت پاکستان) کی خدمت میں
خود لے جانے کا اعلان عام ہوتا ہے اور گورنر کا ارشاد ہوتا ہے کہ میں نے
تحقیق کرلی ہے یہ وقوعہ غلط ہے، گویا پنچائیت اور پولیس تحقیق اور عدالتی
کاروائی کو غلط قرار دے کر سلمان تاثیر بیرونی دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں
کہ پاکستان کا پولیس اور عدالتی نظام سارا غلط اور دو نمبر ہے۔
جناب تاثیر کی یہ پر تاثیر خدمت آج تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ مدتوں اسے
گورنر بنانے کے آپکے فیصلیے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
جناب صدر:
آپ سے درخواست ہے کہ اگر فیصلیہ غلط ہے تو ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ میں
نظر ثانی کے تمام مراحل کو نظرانداز کر کے یہ کیا کیا جارہا ہے کہ عدلیہ کو
گورنری کے عہدے کی طرح یوں بے توقیر نہ کیا جائے، یہ ملک کی خیر خواہی سے
میل نہیں کھاتا۔ جان کی امان ملے تو عرض کرنا چاہونگا کہ جب گورنر صاحب کے
کارنامے کے خلاف ننکانہ صاحب میں ہڑتال ہوئی تو وکلا نے ہڑتال کی ،عدالتوں
کا بائیکاٹ ہوا اور عوام سڑکوں پر نکل آئے ، جہاں وقوعہ ہوا ، وہاں کہ سواد
اعظم نے گورنر کے اس فیصلیے کو یکسر مسترد کردیا۔ اور اس موقف کے کذب پر
مہر تصدیق ثبت کردی۔
تو گورنر نے دوسرا موقف اختیار کیا کہ یہ ضیا الحق کا قانون ہے اور بھٹو کا
قانون نہیں ہے۔لھذا یہ کالا قانون ہے ۔
جناب صدر :
غور کیجئے یہ کیا ہو رہا ہے کہ ضیاءالحق کی آڑ میں انبیائے صادقین کی اہانت
کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔اور ان پیغمبروں کی تحفظ کے قانون کو کالا قانون
کہا جارہا ہے۔
اس قانو ن کو تبدیل کرنے کے لئے شہباز بھٹی اعلان کرچکے ہیں ، این جی اوز
اور عاصمہ جہانگیر ، رانجھا صاحب پتہ نہیں کون کون میدان میں اترنے کی کوشش
میں ہیں کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔ ان کا جواب ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین
نے دیا ہے کہ پورے پورے قوانین موجود ہیں ،وہاں احتجاج کیوں نہیں ہوتا ؟
راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس قانون کو رہنے دیا جائے ، اسکی موجودگی سے ملزم
کو ہی فائدہ ہوتا ہے ، ورنہ جہاں وقوعہ ، وہاں ردعمل شروع ہوجائے گا۔
لیکن ان معقول جوابات کے باوجود قانون تحفظ ناموس رسالت ختم کرانے والوں کے
جذبات میں جوار بھاٹے کا جوبن موجود ہے اور یہ دلیل لارہے ہیں کہ یہ قانون
غلط استعمال ہورہا ہے۔
جناب صدر:
آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ اور کون سے قانون ہیں جن کا غلط استعمال
ہورہا ہے۔ پھر ان کو ختم کرانے کیلئے ہلہ گلہ کیوں نہیں ہورہا ؟
مانا کہ بعض بد نصیبوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہوگا ، کیا پولیس کی سزا
کی بات کیوں نہیں ہوتی ، قانون کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مدعی و پولیس آنکھیں بند کر کے غلط کیس درج کراتے
ہیں تو جناب عدالتوں کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
آخر وہاں جا کر ملزم کی بے گناہی ثابت ہوجائے گی۔،تو کیا غلط کیس درج کرانے
والوں کے بارے میں دفعہ ۸۲ سے کام نہیں لیا جاتا ۔
پورے سسٹم کی موجودگی کے باوجود عدالتی فیصلیوں کو یوں سبوتاژ کرنا کہ
اپیلوں کے فیصلیے سے قبل ملزم کو رہا کروانا ، اس کے تصور سے بھی جسم پر
کپکپی طاری ہوتی ہے۔
جناب صدر زرداری صاحب:
آپ ذرا تصور فرمائیں، آپ کے حکومت میں بے نظیر کے قاتل پکڑیں جائیں اور
انکو سزا مل جائے اور پھر انکی اپیل آپکے پاس آجائے تو کیا عدالتی فیصلیے
کے باوجود آپ ان ملزموں کو معاف کریں گے؟
یقیناً جواب نفی میں ہے تو پھر توجہ فرمائیں کہ محترمہ بے نظیر سے کہیں
زیادہ حضور صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی ذات اقدس کا مسلمان
حکمران پر حق ہے۔ آپ اس سے چشم پوشی نہ کریں،ورنہ یہ تو حقیقت ہے کہ دنیا
چند روزہ ہے اور اسکے بعد ایک اور عدالت بھی ہے ،اس عدالت کے فیصلیے کو
بائی پاس نہیں کیا جا سکے گا۔
منجانب: مولانا اللہ وسایا
کاتب : درویش خُراسانی |