اقوام متحدہ نے دو اکتوبر کو عدم تشدد کے دن کے طور منائے
جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تشدد لفظ سے سب ہی واقف ہیں اور اسکی اقسام بھی
بے تحاشا اور صورتحال کے حوالے سے الگ الگ ہیں۔ تشدد ہر سطح پر کہیں نہ
کہیں دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اس کی روک تھام کیلئے جتنی مرضی
کوششیں کر لی جائیں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں تشدد ہوتا ہوا نظر آتا
ہے۔ہمارے معاشرے میں تشدد کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف
معاشرتی نوعیت کاتشدد ہے اوردوسری طرف مذہبی منافرت کی بنیادپرپھیلایا جانے
والا تشدد کاوسیع ہوتاہوادائرہ عقل و فہم رکھنے والے افراد کیلئے پریشانی
کا باعث ہے۔ معاشرے کے سیاہ وسفید پرنظررکھنے والے حکومت پرزوردے رہے ہیں
کہ وہ معاملات کوکنٹرول کرنے پرتوجہ دے اورایسے اقدامات کرے،جن سے تشدد
کادائرہ محدودسے محدودتررکھنے میں مددملے ۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب
بھی کوئی تشدد کا واقعہ ہوتا ہے تو اس پر جب تک وزیر اعلیٰ یا پھر چیف جسٹس
نوٹس نہ لیں تو تب تک مظلوم کو انصاف ہی نہیں ملتا اور ظالم سر عام دندناتا
پھرتا ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں تشدد کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں
۔چندبرسوں کے دوران تشددکے واقعات میں تیزی،بہت سے سوال کھڑے کرچکی ہے۔
بڑوں کی دیکھادیکھی بچوں میں تشددکاپھیلتادائرہ معاشرے،انتظامیہ اورحکومت
سب کیلئے بہت بڑاچیلنج ہے۔سوال یہ ہے کہ بچوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے
ایسی شکل کیوں اختیارکرلیتے ہیں کہ نوبت چاقوبازی اورقتل تک جا پہنچے۔ یہ
واقعات نئی نسل میں تیزی سے بڑھتی عدم برداشت اورعدم رواداری کی طرف بھی
اشارہ کرتے ہیں۔سرکاری اور نجی سکولوں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اس
حقیقت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکورٹی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی
جارہی۔ اساتذہ بھی طلبہ کے معاملات میں پڑنے سے گریز کرتے ہیں۔ بچوں میں
تشدد پسندی کا گراف نیچے لانے کیلئے والدین اور اساتذہ کو مل کر کردار ادا
کرنا ہوگا۔اس کاسدباب صرف انسانوں کے ہاتھوں میں ہی ہے ا ور ان لوگو ں کے
ہاتھوں میں جوکہ اسے کرتے ہیں۔ تشدد ایک چھوٹے پر جو کہ دکانوں ورکشاپوں پر
معمولی اجرت کے عوض کام کرتا ہے اس پر بھی کیا جاتا ہے اکثر زبانی بھی اور
ہاتھا پائی کے ذریعے بھی اس پر تشدد کیا جانا ایک عام سی بات ہے۔ اسی طرح
گھر میں کام کرنے والے ملازم پر بھی مالکان کی طرف سے تشدد کے واقعات اکثر
ہی سننے میں آتے رہتے ہیں۔ مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب ہمارے
ملک کی بنیاد ہی اسلامی روایات کے مطابق رکھی گئی ہے تو پھرہمارے معاشرے
میں کیوں ایک دوسرے کو کافر کہنا عام سی بات سمجھی جاتی ہے ہمارا دین ہمیں
اس بات کا درس دیتا ہے کہ ’’کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی عربی کو کسی
عجمی پر فضیلت نہیں ‘‘تو پھر ہم کیوں اپنی مرضی کے معیار بنا کر بیٹھے ہیں
کبھی کسی نوجوان کو اس لئے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس نے اپنی
تصویر سوشل میڈیا پر کیوں اپ لوڈ کی ۔تو کبھی کسی نوجوان کو اس لئے تشدد کا
نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس نے اپنا دفاع کیوں کیا اور خاموشی سے مار کیوں
نہیں کھائی ۔کبھی کسی مریض کو ہسپتال لانے والے فرد کو صرف اس لئے گارڈ مار
مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں کہ اس نے ڈاکٹر سے اونچی آواز میں بات کیوں
کی۔کبھی کسی کمسن طالبہ کو محض اس لئے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
کہ اس نے سکول کی پرنسپل کا باتھ روم استعمال کیوں کیا۔اب سوچنے کی بات ہے
کہ اگر ہم میں برداشت کا مادہ ہی نہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم غصے میں
آکر انتقام لینے پر آجاتے ہیں تو پھر ہم تشدد کے خاتمے میں اپنا کردار کیسے
ادا کر سکیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اپنے اندر
برداشت پیدا کریں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی روش کو اپنائیں اور اپنے
دین اسلام اور ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام افراد
کو برابری کی نظر سے دیکھیں کیونکہ جب ہم اپنے ہی معاشرے کے افراد میں
تفریق کرینگے تو پھر معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوگا اور آئے روز پر تشدد
واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تشدد کے واقعات کی روک
تھام کیلئے تمام افراد مل کر اپنا کردار ادا کریں اور جہاں کہیں بھی کوئی
مظلوم فرد ہواس کی دادرسی کرتے ہوئے اسے انصاف دلائیں۔ |