بنجارالغت میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو غلّے کا تاجر ہو
یا ایسا شخص جو کوئی سامان اپنے مونڈہے پر لاد کر بیچتاہو یا مزدوری پر
کوئی سامان اٹھا کر ادھر ادھر منتقل کرتا ہو بہرحال اس کہاوت میں بنجاراسے
مراد موت کا فرشتہ ہے جو انسان کی روح کو نکال کر لے جاتا ہے، مقصد یہ ہے
کہ جب موت آجائے گی توٹھاٹھ باٹھ یہیں رہ جائیں گے اور انسان چلتابنے گا۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا دنیا میں کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا چاہے
وہ کسی بھی مذہب یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے یا اسکا کوئی بھی مذہب نہیں
اور وہ دہریہ ہے اور خدا کے وجود کا منکر ہے، سب یہی کہیں گے کہ مرنا بر حق
ہے سو سال بھی جینا ہے تو آخر مرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کب اسکا ٹائم آ جائے۔ جب کسی
شخص کی اچانک مو ت واقع ہوتی ہے تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ شخص فو ت بھی
ہو گیا ابھی تو یہیں بیٹھاہوا تھا، گھر والوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا،
کاروباری معاملات پر بات چیت کر رہا تھا، اسے کیا ہو ا منٹوں میں روح پرواز
کر گئی؟یہ اس لئے کہ حکم الحکمین کا حکم آ گیا جسکا فرمان ہے کہ ’’ ہر جان
نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘( القرآن)۔
سوال یہ ہے کہ ’’بنجارے‘ ‘نے یہاں سے لاد کر کے جس مقام پر جاکہ ڈال دینا
ہے وہ جگہ کس طرح کی ہے؟ تو وہ جگہ دو طرح کی ہے یعنی یا تو وہ دوزخ کے
گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اور یا جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔بقول
شاعر.........
دلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی زمین اندر سمانا ہے
تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر
ہووے گا اک دن یہ برباد یہ کرموں(کیڑے مکوڑوں)نے کھانا ہے
یعنی اگر عقائد و اعمال اچھے ہیں توپھر وہ جگہ جنّت کے باغیچوں، اسکی
نعمتوں او ر ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا مرکز ہے اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہے تو
پھروہ طرح طرح کے عذاب کا گھر ہے۔بہرحال اگر صحیح نیّت کے ساتھ جدّوجہد کی
جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قوی امّید ہے کہ وہ محض اپنے فضل و کرم سے
دوزخ کی آگ سے بچا کر قبر کو جنّت کا باغ بنا دیں گے اور روز آخرت جنّت میں
داخل فرمائیں گے،آمین۔
|