کامیابی کی قیمت ( حصہ اول)

کامیابی کی قیمت
( پہلا حصہ )

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اکثر وہ لوگ جو اپنی ہر کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر پاتے ان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کامیاب بننے یا ہونے کی قیمت کیا ہے ؟ آج کی ہماری تحریر اسی موضوع کو لیکر ہے میری ہمیشہ کی طرح اس تحریر میں بھی یہ ہی کوشش ہے کہ اس دنیا کی عارضی زندگی میں ہم لوگوں کی اصلاح کرنے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح سمت کی طرف مائل کرنے میں اپنا جو بھی کردار صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے ادا کرسکیں وہ ہمیں کرتے رہنا چاہئے اور یہ آپ لوگوں کی دلچسپی ، محبت اور دعائیں ہی ہیں کہ میرا قلم رکتا نہیں بس کسی نہ کسی معلوماتی ، اصلاحی ، سبق آموز اور کچھ نہ کچھ سیکھنے سکھانے والی تحریروں کو لکھنے میں میرا ساتھ دیتا رہتا ہےاور اس کے نتیجے میں آپ لوگوں کے لیئے کوئی نہ کوئی تحریر لیکر میں حاضر خدمت ہوتا رہتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کامیابی کیا ہوتی ہے اسے کس طرح حاصل کیا جائے اس کی اقسام کتنی ہوتی ہیں ہمارے آج کے مضمون کا موضوع یہ نہیں ہے بلکہ ہمارا عنوان یہ ہے کہ کامیابی کے حصول کے لیئے قیمت کیا چکانی پڑتی ہے لیکن یہاں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک کامیابی وہ ہوتی ہے جس کا تعلق خالصتاً ہمارے آج کے معاشرے سے ہے یعنی دنیاوی کامیابی اور دوسری ہمارے آخرت کی لیئے یعنی آخرت کی کامیابی لیکن قیمت دونوں کامیابیوں کے حصول میں درکار ہوتی ہے بس فرق یہ ہے کہ دنیاوی کامیابی اس دنیا کہ طرح عارضی ہوتی ہے جبکہ آخرت کی کامیابی ہمیشہ قائم رہنے والی کامیابی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاں ہم دنیا کے کامیاب لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں اکثریت ایسے لوگوں کی ملتی ہے جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں کئی تکالیف ، مشکل وقت اور غربت کو بہت قریب سے دیکھا ہوتا ہے اور اس ابتدائی زندگی میں کئی بار ناکامی کا سامنا کیا ہوا ہوتا ہے لیکن مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد بالآخر وہ نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ اسی دنیا میں انہیں وہ مقام ملا جس کے حصول کے خواب ہر انسان دیکھتا ہے اب وہ تکالیف وہ مشکل اور کٹھن وقت کو گزارنا غربت کے دنوں کو گزارنا اور ناکامی کے باوجود مسلسل محنت کرتے رہنا ہی اصل میں کامیابی کی قیمت ہے کیونکہ ایسے لوگ جانتے تھے کہ ناکامی کا پہلا قدم ہی کامیابی کی طرف جاتا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے اس مضمون کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کے پہلے حصے میں ہم دنیاوی کامیابی کے حصول کے لیئے جو قربانیاں اس کامیابی کی قیمت کے طور پر دینی پڑتی ہیں ان کا ذکر کریں گے جبکہ دوسرے حصے میں ہم آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیئے دی گئی قیمت کا ذکر کریں گے دنیاوی کامیابی کے حصول کے لیئے جتنے بھی اصول وضع کیئے گئے ہیں ان میں دو اصول بڑے اہم ہیں ایک " محنت" اور دوسری " ایمانداری" ہمارے آج کے اس معاشرے میں ان دونوں چیزوں کا ہمیں فقدان نظر آتا ہے کیونکہ فی زمانہ ہر انسان بغیر محنت کے کامیابی حاصل کرنے کے خواب دیکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے ہماری نسل میں محنت کرنے کا رجحان کم سے کم ہوتا جارہا ہے جبکہ جس معاشرے میں جھوٹ اور غلط بیانی سے ہر چیز حاصل کرلینا انتہائی آسان ہو جائے تو وہاں ایمانداری کے ساتھ چلنا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ محنت اور ایمانداری سے کامیابی کے حصول میں سرگرداں ہمیں نظر آتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جب اس وقت کے کامیاب ترین لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے اب دیکھیں ہماری اس عارضی دنیا کا ایک بزنس مین جس کا نام ہنری فورڈ تھا جس کا بہت بڑا بزنس تھا اور اس کی کافی شہرت بھی تھی
امریکی شخص ہنری فورڈ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے ملازموں کا بہت خیال رکھتا تھا اور انہیں مارکیٹ سے زیادہ معاوضہ دیا کرتا تھا ایک بار ایک صحافی اس سے انٹرویو لینے کے لیئے آیا اور اس نے ہنری فورڈ سے پوچھا کہ آپ اپنی اس فیکٹری میں سب سے زیادہ معاوضہ کس کو دیتے ہیں فورڈ مسکرایا اپنا کوٹ اور ہیٹ اٹھایا اور صحافی کو اپنے پروڈکشن روم میں لے گیا ہر طرف کام ہو رہا تھا لوگ دوڑ رہے تھے گھنٹیاں بج رہی تھیں اور لفٹ چل رہی تھیں ہر طرف افراتفری تھیں اس افراتفری میں ایک کونے میں ایک کیبن تھا اور اس کیبن میں ایک شخص میز پر ٹانگیں رکھ کر کرسی پر لیٹا تھا اس نے منہ پر ہیٹ رکھا ہوا تھا ہنری فورڈ نے دروازہ بجایا کرسی پر لیٹے شخص نے ہیٹ کے نیچے سے دیکھا اور تھکی تھکی آواز میں بولا ہیلو ہنری کیا تم ٹھیک ہو فورڈ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا دروازہ بند کیا اور باہر نکل گیا
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فورڈ نے اس صحافی سے کہا کہ یہ شخص میری کمپنی میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا شخص ہے صحافی جو یہ سارا منظر حیرت سے دیکھ رہا تھا تو اس نے پوچھا لیکن یہ تو سورہا ہے یہ کرتا کیا ہے ؟ فورڈ نے جواب دیا کچھ بھی نہیں یہ بس آتا ہے اور سارا دن میز پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھا رہتا ہے صحافی نے پوچھا آپ پھر اسے سب سے زیادہ معاوضہ کیوں دیتے ہیں فورڈ نے جواب دیا کیوں کہ یہ میرے لیے سب سے مفید شخص ہے فورڈ کا کہنا تھا میں نے اس شخص کو سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے میری کمپنی کے سارے سسٹم اور گاڑیوں کے ڈیزائن اس شخص کے آئیڈیاز ہیں یہ آتا ہے کرسی پر لیٹتا ہے سوچتا ہے آئیڈیا تیار کرتا ہے اور مجھے بھجوا دیتا ہے میں اس پر کام کرتا ہوں اور کروڑوں ڈالر کماتا ہوں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہنری فورڈ نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز آئیڈیاز ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے آپ کو فری ٹائم چاہیے ہوتا ہے مکمل سکون ہر قسم کی بک بک سے آزادی آپ اگر دن رات مصروف ہیں تو پھر آپ کے دماغ میں نئے آئیڈیاز اور نئے منصوبے نہیں آ سکتے چنانچہ میں نے ایک سمجھ دار شخص کو صرف سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے میں نے اسے معاشی آزادی بھی دے رکھی ہے تاکہ یہ روز مجھے کوئی نہ کوئی نیا آئیڈیا دے سکے صحافی فورڈ کی بات سن کر حیران ہوگیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی تالی بجانے پر مجبور ہو گیا لیکن جب ہم سنجیدگی سے فورڈ کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم بھی تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس چلتی پھرتی فیکٹری میں کونے میں موجود ایک کیںن میں جو شیشے کے دروازوں سے بند ہے اور وہاں پر ایک شخص پورا دن صرف کامیابی کے حصول کے لیئے نت نئے منصوبے کے بارے میں سوچنے اور ان منصوبوں کو اپنے اور دوسرے کی کامیابی کے لیئے استعمال میں لانے کی ڈیوٹی پر معمور ہے دراصل یہ اس کامیابی کے حصول کے لیئے قیمت ادا کررہا ہے جو اسے اس کیبن میں پورا دن گزارنے کے عیوض ادا کرنی پڑتی ہے کامیاب لوگوں کی فہرست میں ہم اکثر " بل گیٹس " اور " وارن بفٹ" کا نام سنتے رہتے ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی وارن بفٹ روزانہ ساڑھے چار گھنٹے صرف کتابوں کو پڑھنے میں گزارتا ہے جبکہ بک گیٹس ہفتے میں دو کتابیں ختم کرلیتا ہے اور یہ دونوں مل کر سال میں تقریباً 80 کتابیں پڑھ لیتے ہیں یہ دونوں اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں لائین میں لگ کر کافی اور برگر لیتے ہیں اور سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں کیسے؟ فرصت اور سوچنے کی مہلت کی وجہ سے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک آپ اپنے کو فری نہیں رکھتے تب تک آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لیئے آپ کے ذہن میں کوئی نئے خیالات نیئے آئیڈیاز جنم نہیں لیں گے جب کوئی نیا خیال آپ کے ذہن میں آتا ہے تو پھر آپ خود بخود محنت کرنے لگتے ہیں فارغ وقت میں اچھی کامیابی کے لئے لیئے نت نئی سوچ پیدا کرنے اور پھر محنت اور ایمانداری سے اسے حاصل کرنا ہی اس کی قیمت ہے جسے ادا کرکے آپ کسی نہ کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں لہذہ معلوم یہ ہوا کہ اس دنیا میں کامیابی کے حصول اور بڑا انسان بننے کے لیئے کچھ نہ کچھ قیمت تو دینی پڑتی ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیئے قیمت چکانی پڑتی ہے لیکن کبھی کبھی کسی کو سستی قیمت کے عیوض کامیابی مل جاتی ہے جبکہ کسی کسی کو کامیابی حاصل کرنے کے لیئے بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ایسا ہی ایک سچا واقعہ یہاں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا میرے جاننے والوں بلکہ رشتہ داروں میں ہی ایک صاحب جن کا نام احمد ہے یہ ان کے متعلق واقعہ ہے جو کافی پرانا ہے یعنی کئی سال پہلے جب احمد بھائی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی اور ان کے گھریلو حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے احمد بھائی ایک pco چلاتے تھے اور اسی پی سی او سے گھر کا جیسے تیسے گزارا کرتے تھے وقت گزرتا گیا اور جب سب سے بڑا بیٹا جوان ہوگیا تو اسے گھر کی فکر ہونے لگی اور اس نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے مشورہ لینا شروع کیا کہ کسے طرح گھر کے حالات صحیح ہو جائیں پھر ایک دن اس کے ایک دوست نے جو سائوتھ افریقہ میں نوکری کرتا تھا اور چھٹیوں پر پاکستان آیا ہوا تھا اسے افریقہ چلنے کا مشورہ دیا المختصر اس نے احمد بھائی کی اجازت سے ملک سے باہر یعنی سائوتھ افریقہ جانے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ گھر والوں سے دور سائوتھ افریقہ چلا گیا جہاں اس کے دوست نے اس کے لیئے نوکری کا بندوست کرلیا تھا اور یوں وقت گزرنے لگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے بڑی محنت سے وہاں کام کیا اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی وہاں بلوالیا اور پھر دونوں بھائیوں نے محنت سے پیسہ کمانا شروع کردیا اور وہاں ہر انہیں جو ملتا اس میں اپنے اخراجات نکال کر باقی پیسے اپنے والد احمد بھائی کو بھیج دیتے احمد بھائی خود بہت اچھے اور دنیاوی اعتبار سے منجھے ہوئے کاروباری انسان تھے لہذہ انہوں نے سب سے پہلے کپڑے کی ہول سیل مارکیٹ میں ایک دکان خریدی اور سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ وہاں کاروبار شروع کردیا اس کے بعد انہوں نے شہر کی مختلف جگہوں پر ان پیسوں کو انویسٹ کرنا شروع کردیا اور کچھ ہی عرصہ میں وہ کئی پراپرٹیوں کے مالک بن چکے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں المختصر یہ کہ گزرتے وقت کے ساتھ اگر میں آج احمد بھائی اور ان کے فیملی کی بات کروں تو وہ یہ ہے کہ دونوں بھائی ایک عرصہ گزار کر اپنے ملک پاکستان واپس آ چکے ہیں دونوں کی شادیاں ہوگئیں دونوں کے بچے جوان ہوچکے ہیں سب سے چھوٹے بیٹے اور بیٹی کی بھی شادی ہوچکی ہے اور شہر کے ایک خوبصورت اور معروف سوسائٹی میں تین الگ الگ بینگلوز میں یہ لوگ رہائش پذیر ہیں بڑے بھائی کا الگ بنگلہ دوسرے بھائی کا الگ بنگلہ اور تیسرے میں احمد بھائی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں مجموعی طور پر اب یہ ایک خوشحال فیملی ہے لیکن اکثر اپنے پچھلے وقت کو یاد کرتے ہیں کیونکہ دراصل دونوں بھائیوں نے فیملی سے دور رہ کر جو کٹھن وقت گزارا وہ سب کے سب آج کی خوشحالی اور کامیابی کی قیمت تھی اور یہ ہی وہ قیمت ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ بعض لوگ کو کامیابی کے حصول کے لیئے بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے یہ ایک سچا واقعہ تھا جو میں نے یہاں تحریر کیا جس میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ زندگی میں کامیابی کے لیئے کچھ لوگوں کو اپنے عمر کا ایک طویل حصہ قربان کرنا پڑتا ہے جو دراصل حاصل ہونے والی کامیابی کی اصل قیمت ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک طالب علم کے والد نے جب اپنے بچے کو سارا سارا دن پڑھتے ہوئے دیکھا تو ایک دن پرنسپل صاحب کے پاس جاکر شکایت کی کہ آپ لوگوں نے تعلیم کا نصاب اتنا مشکل اور لمبا کردیا ہے کہ بچہ کی عمر کا زیادہ تر حصہ پڑھنے میں ہی گزر جاتا ہے تو پرنسپل صاحب نے کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہم تعلیمی نصاب مختصر بھی کرسکتے ہیں
اصل میں مدت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ طالب علم کے اندر کیسا علمی معیار چاہتے ہیں اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کو شاہ بلوط (Oak) کا درخت اگانے میں سو برس لگ جاتے ہیں۔ مگر جب وہ ککڑی کا درخت اگانا چاہتا ہے تو اس کے لیے صرف چھ مہینے درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ معمولی معیار چاہتے ہوں تو چند سال کی تعلیم بھی کافی ہو سکتی ہے مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے لیے تو بہر حال زیادہ وقت دینا پڑے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ چھوٹی ترقی چھوٹی کوشش سے مل سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ بڑی ترقی چاہتے ہوں تو لازماً آپ کو بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ چھوٹی کوشش سے کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی امریکن رائٹر ،لیکچرار اور فیزیکل ریسرچر جناب Herold Sherman نے کہا تھا کہ " ہر کامیابی کے ساتھ قیمت کا ایک پرچہ لگا ہوا ہے۔ اب یہ آپ پر موقوف ہے کہ آپ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور قربانی ، صبر ، یقین اور برداشت کی شکل میں کتنی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بازار میں آدمی کو وہی چیز ملتی ہے جس کی اس نے قیمت ادا کی ہو۔ اسی طرح ہر ترقی اور ہر کامیابی کی بھی ایک قیمت ہے اور آدمی کو وہی ترقی اور وہی کامیابی ملے گی جس کی اس نے قیمت ادا کی ہو۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم".
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم دنیا میں موجود ہر کامیاب انسان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کامیابی کے کئی رنگ نظر آئیں گے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ کوئی بڑا بزنس مین ہو کسی اعلی عہدے پر فائز کوئی شخص ہو کسی کھیل میں نمایاں مقام حاصل کرنے والا کوئی کھلاڑی ہو سائنس کی کوئی غیر معمولی چیز ایجاد کرنے والا کوئی سائنسدان ہو یا کسی نے کوئی انوکھا کارنامہ انجام دے کر اپنا مقام بنالیا ہو کامیابی صرف اسی کا نام نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو کسی جگہ کسی بھی حال میں اپنی زندگی سے مطمئن ہو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ خوش ہو اس معاشرے میں اسے بھی ایک کامیاب انسان مانا جاتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن کسی وجہ سے کر نہیں پاتے انہیں حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہاں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کچھ بھی نہیں تھے یا کامیابی کی صحیح سمت کا انہیں اندازہ نہیں ہوتا بس تھوڑی سی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ کامیابی کے زینے پر چڑھنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی استطاعت اپنی محنت سے جو قیمت ادا کرسکتے ہیں وہ کرتے ہیں اور انہیں اس قیمت کے عیوض کامیابی مل جاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیں ایک نوجوان جس نے بڑی محنت اور دل لگا کر پڑھائی کی لیکن جب ڈگری ملی تو اسے کہیں بھی جاب نہیں ملی وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے کئی کئی ماہ و سال اس تعلیم کے حصول کے لیئے دیئے لیکن رزلٹ زیرو ہوا مجبوراً اس نے ایک ریڑھے ہر کچھ سامان بیچنا شروع کردیا وہ گلی گلی گھومتا اور اپنا سامان بیچتا لوگ اس کے اخلاق اور اس کی محنت سے کافی متاثر ہوتے پھر ایک دن اسے مصروف بازار میں ایک فکس جگہ مل گئی جہاں وہ صبح سے شام تک اپنے ریڑھے کو کھڑا کرکے اپنا سامان بیچتا یوں ہی گزرتے وقت کے ساتھ جب اس کا کام اچھا چلنے لگا تو اس نوجوان نے وہیں پر ایک دکان لے لی اور اب اس کی دکان بھی اس بازار میں کچھ دنوں میں ہی مشہور ہوگئی اور یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک کے بعد دو اور پھر تین دکانیں ہوگئیں جبکہ اس کے پاس کئی لوگ ملازمت پر موجود تھے اور ہر کسی کی یہ خواہش تھی کہ وہ اس کے پاس کام کرے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ریڑھی لگانے سے لیکر آج جب وہ شہر کے مصروف بازار میں کئی دکانوں کا مالک ہے یہاں تک پہنچنے میں اسے کئی برس لگ گئے اور یہ سارا کا سارا وقت اس کے آج کی کامیابی کی قیمت ہے جو اسے ادا کرنی پڑی اور تعلیم کے حصول میں جو وقت گزرا وہ آج اس کی قربانی تھی یہ نوجوان ہمارے معاشرے کے ان انسانوں کی صف میں شامل ہے جنہیں واقعی اس معاشرے میں ایک کامیاب انسان بننے کے لیئے بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایسے بیشمار لوگ ملتے ہیں جو کل کچھ تھے اور آج کچھ ہیں لیکن یہ سب میرے رب تعالیٰ کی تقسیم ہے اس کی منشاء اس کی مصلحت اور اس کی حکمت ہے اپنی کائنات کے نظام کو چلانے کے لیئے اور یہ تقسیم بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اس تحریر کے حصے میں جہاں کامیابی کے نت نئے رنگ دکھانے کی کوشش کی ہے بلکہ کامیابی کی قیمت کے بھی نت نئے انداز سے بھی آپ روشناس ہوئے اور انہی انداز میں ایک اور کامیابی اور اس کی ادا کی جانے والی قیمت ملاحظہ کیجئے ماضی کے معروف اور مشہور عالمی ہیوی ویٹ باکسر محمد علی جب عالمی چیمپئن نہیں تھے تو ان کا مقابلہ اس وقت کے معروف باکسر Sony Liston کے ساتھ طے ہوا اس وقت تک محمد علی شاید مسلمان نہیں ہوئے تھے جس دن مقابلہ ہونا تھا اس دن وہاں لوگوں کا بڑا ہجوم تھا ہر شخص کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ دنیا کا نمبر ون باکسر کون بنے گا ہر گھر ہر دکان اور ہر جگہ پر اسی مقابلے کے چرچے تھے بالآخر وہ دن بھی آگیا جب مقابلہ ہونا تھا پندرہ رائونڈ کا یہ مقابلہ شروع ہوا چاہتا تھا اور دونوں باکسر رنگ میں موجود تھے جیسے ہی ریفری کی طرف سے سیٹی بجی تو کھیل کا آغاز ہوا لیکن شہر میں موجود وہ تمام لوگ جو گھروں پر دکانوں پر یا وہاں پر یہ مقابلہ دیکھنے کے لیئے موجود تھے ان کے حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب محمد علی نے اپنے ایک ہی شاندار اور زوردار مکے سے اپنے حریف یعنی Sony Liston کو ناک آؤٹ کرکے مقابلہ سے باہر کردیا اور ہیوی ویٹ کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا اس ایک مکے کے عیوض محمد علی کو تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ڈالرز ملے اس وقت ایک صحافی نے جب محمد علی سے پوچھا کہ ایک منٹ کے اس مقابلے میں جہاں آپ نے اپنے بھرپور اور زوردار مکے سے اپنے حریف کو ناک آؤٹ کردیا اس کے عیوض ایک بھاری رقم آپ کو ملی یہ رقم کمانے میں آپ کو کتنا وقت لگا تو انہوں نے کہا 21 سال اور ایک منٹ یعنی مقابلہ صرف ایک منٹ میں ختم ہوگیا اور اس کے لیئے اسے اکیس سال محنت اور مشقت کرنا پڑی جس کے بعد اسے یہ شہرت دولت اور مقام حاصل ہوا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہوا کہ جب آپ کا مشن صرف کامیاب ہونا ہو محنت میں کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہ ہو تو پھر اس کے حصول میں مدت کائونٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ اکیس سال ہی اس مقام تک پہنچنے کی اصل قیمت ہے جو اسے ادا کرنا پڑی اور کامیابی کا یہ بھی ایک رنگ تھا جو ہم نے اس واقعہ میں دیکھا میرے محترم پڑھنے والوں اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے دنیاوی اعتبار سے کامیابی کے حصول میں جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کے مختلف طریقے دیکھے جبکہ اس کے دوسرے حصے میں ہم آخرت میں کامیابی کے حصول اور اس کے عیوض ادا کرنے والی قیمت کا تذکرہ کریں گے ان شاءاللہ ۔
مجھے اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیں دعا ہے کہ مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 191 Articles with 171947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.