حج کا دن آنے میں صرف تین دن باقی ہیں اور سعودی حکومت نے شٹل سروس بند کر دی ہے۔ اب آپ صرف ذاتی ٹیکسی کروا کر ہی حرم جا سکتے ہیں۔ آج اتوار کا دن ہے اور جیسا کہ پاکستان میں یہ دن صفائی ستھرائی دھلائی کا دن منایا جاتا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی عالم تھا۔ ہم نے بھی لانڈری کی۔ ہاوس کیپنگ سٹاف نے کمروں میں آکر چادر تکیے بدلے اور ویکیوم کیا۔ دوپہر میں تین گھنٹے سونے کے باوجود بھی سستی چھائی تھی۔ یہاں ڈائننگ ہال جو کہ ہمارے ہاں کے درمیانے درجے کے شادی ہال جتنا بڑا ہوگا۔
ہر میز جسکے گرد چار لوگ باآسانی بیٹھ سکیں اتنی ہوگی۔پر کچھ لوگ کرسیاں گھسیٹ کر چھ لوگوں کے بیٹھنے کے قابل بھی بنا لیتے۔ اے سی کی ٹھنڈک کھانے کی خوشبوئیں۔ ایک کونے میں ہاتھ دھونے کے لئے واش بیسن۔
پرلے کو نے میں فریج اسکے ساتھ ہی لمبا کاونٹر کے ایک طرف سرو کرنے والے کاونٹر کے پرلے جانب کھانا لینے والوں کی قطاریں کاونٹر پر تین سے چار بڑی بڑی ڈشز موجود ہوں گی۔اسی کاونٹر پر ڈشز سے فاصلے پر ٹرے رکھے ہوں گے۔ انکے ساتھ ہی ڈسپوزیبل پلیٹس اور چمچ ہوں گے۔ٹرے اٹھاو پلیٹیں اٹھا و کاونٹر پر کھڑے افراد سےمطلب کی چیز ڈلواو کرسی میز پر بیٹھ کر کھاو اللہ اللہ خیر صلا
اس کاونٹر سے پیچھے مطلب کاونٹر کے کرتا دھرتا کھڑے افراد سے بھی پیچھے ڈرم ہوں گے۔ جن پر بلڈنگ کا نام اور کس چیز کا ڈرم ہے یہ لکھا ہوگا۔ یہ کھڑے حضرات انسانی بازو کی لمبائی جتنے بڑے بڑے چمچوں سے کھانا نکال کر آُپکی پلیٹوں میں ڈالیں گے۔
(ویسے یہ ساری وضاحت شروع میں آنی چاہئے تھی مگر خیال نہیں رہا معزرت) یہاں آپکو مزے کے نظارے ملیں گے حضرات پاکستانی حکومت اور سعودی حکومت کے انتظامات پر بحث کرتے نظر آئیں گے۔ خواتین آپکو ایک دوسرے کے ساتھ گھریلو امور کے ساتھ ساتھ رشتہ داریوں کے ڈانڈے ملانے کی کوششوں میں بھی مصروف نظر آئیں گی۔ آج کھانے میں ہے جی دال چنا اور چکن قورمہ ایک خاتون نے مجھ سے پوچھا میرے پاس اچار ہے کیا آپ کھانا چاہیں گی آخر کو دال ہے مگر اماں نے درمیان میں قیدو کا کردار ادا کرتے ہوئے کہا چھوڑیں جی نہ دیں اسکا گلا جلدی خراب ہو جاتا ہے۔
ہوٹل کے اندر ہی چھوٹی سی ہال نما جگہ ہے جس میں پردہ ڈال کر خواتین اور حضرات کی نماز کا انتظام کیا گیا ہے۔ پھر عصر مغرب عشا کے لئے حرم گئے۔
اب عشا پڑھ کر واپس کیسے آئیں گے یہ معمہ تھا کیونکہ اس وقت ٹیکسی ملنا مشکل تھی۔
مگر مل ہی گئی۔
اگلے دن کا سورج اپنی نارنجی روشنی پھیلا کر طلوع ہوا۔ ڈائننگ ہال میں حلوہ کا ناشتہ کیا۔ ساتھ میں لسی پی۔ یہ لوگ لسی کو لبن کہتے ہیں۔ کسی کسی دن ہال کے مینیو میں تھی۔ کسی کسی دن میں نے کہا مجھے خرید دیں۔
دوپہر میں تھے دال چاول۔ اس دفعہ کھانا لاہوری سٹائل تھا گھر کے کھانے اور یہاں کے کھانے میں ذیادہ فرق نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ رات کے کھانے میں میٹھا ضرور ملتا ہے۔
دوپہر میں ٹیکسی کروا کر حرم بھاگے۔ عصر جماعت کے ساتھ پڑھی پھر مغرب کا انتظار کیا جگہ پہلے فلور پر ملی بیٹھ کر کعبہ دیکھتے رہے کیونکہ عصر سے ظہر کے درمیان وقت کافی ذیادہ تھا۔
ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے مطاف میں جا کر نماز پڑھنے کی۔کعبہ کے بالکل سامنے نماز پڑھنے کی۔ مجھے قدم قدم پر اقبال کے شعر کا مصرعہ یاد آتا رہا
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
|