قائد اعظم کا پاکستان؟

جیلانی کے قلم سے

جیلانی گھر میں داخل ہوا تو ایک دعوت نامے کو اپنا منتظر پایا۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جیلانی تک کوئی دعوت نامہ پہنچے اور وہ دعوت میں حاضر ہوجائے۔اس کے لیے وہ پیشگی ہی معذرت کر لیتا ہے۔ مگر آج کے دعوت نامے کے ٹائٹل پر جلی حروف میں "یاد قائداعظم محمد علی جناح "مرقوم تھا۔ جس سے صرفِ نظر کرنا جیلانی کے لیے ممکن نہ تھا۔ لفافے سے کارڈ نکال کر دیکھا تو معلوم ہوا قائداعظم کی زیارت کرنے والے شیخ عبدالرحیم اس تقریب میں خصوصی خطاب فرمائیں گے۔ شیخ عبدالرحیم، جیلانی کے لیے ایک غیر معروف شخصیت تھے ۔ مگر چونکہ جلسہ قائداعظم کی یاد میں تھا لہٰذا پہلو تہی کے بجائے جیلانی نے اس میں حاضر ہونے کی ٹھان لی۔

مقررہ تاریخ پر جیلانی جیسے ہی جلسہ گاہ میں داخل ہوا اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔جلسہ گاہ بجائے پر رونق ہونے کے ایک تعزیتی اجتماع معلوم ہوتی تھی۔اس میں کوئی بڑے بڑے قمقمے جگمگا رہے تھے نہ ہی بڑے بڑے لاﺅڈ اسپیکر لگائے گئے تھے۔ نوجوانوں کی رنگ رلیاں تھیں اور نہ ہی اخلاقی بے ہود گیاں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مہمان خصوصی شیخ عبدالرحیم نے صرف اس صورت میں تقریر کی دعوت قبول کی ہے کہ جلسہ پر کسی قسم کا اسراف نہیں کیا جائے گا۔جلسہ قائداعظم کی یاد میں ہے لہٰذا قائد کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں فضول خرچی سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔

جیلانی نے سوچا آج ہمارے وطن عزیز میں اس طرح کا تصور بالکل نا پید ہوچکا ہے۔ شیخ عبدالرحیم کو قدامت پسند اور رجعت پسند بننے کے بجائے زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہوئے تقریر کے لیے وسیع جلسہ گاہ اس کی مکمل تزئین و آرائش ، بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر ز،ہزاروں لوگوں،اور بڑے بڑے الیکڑانک اور پرنٹ اشتہارات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ کارڈ میں جلسہ کا ٹائم شام پانچ بجے کا لکھا ہوا تھا۔جیلانی مقررہ وقت سے کچھ منٹ پہلے پہنچا تو مہمان خصوصی شیخ عبدالرحیم کو پہلے ہی اسٹیج پر موجود پایا۔ان کے سوا اسٹیج پر کوئی اور مہمان تو کیا میزبان بھی نہیں تھا۔جلسہ کی تقریب شروع ہوئی تو رفتہ رفتہ لوگ آنا شروع ہوئے۔ جب ہال کھچا کھچ اور لبا لب بھر گیا۔ تو بہت ہی لمبے چوڑے تعارف کے ساتھ شیخ صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔

انہوں نے بہت ہی پر وقار انداز میں خطبہ پڑھا۔اور تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا:"نہایت ہی واجب الاحترام حاضرین گرامی!یہ جلسہ قائداعظم کی یا د میں منعقد ہوا ہے اور مجھے اس موضوع کہ"قائد اعظم کی زندگی میں ہمارے لیے کیا نمونہ ہے؟"پر خطاب کرنے کا کہا گیا ہے۔ میرے عزیز ہم وطنوں!مجھے جلسہ گاہ میں پہنچنے پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کہ جب میں مقررہ وقت پر یہاں پہنچا تو کسی ذی روح کو موجود نہ پایا۔قائداعظم وقت کے بہت زیادہ پابند تھے۔"اسٹیٹ بینک آف پاکستان"کے افتتاح کا موقع تھا۔ قائداعظم شدید علیل و بیمار ہونے کے باوجود ٹھیک وقت پر پہنچ گئے۔ اس وقت وزیر اعظم پاکستان سمیت متعدد وزراء اور افسران نہیں آئے تھے۔ آپ نے گھڑی میں وقت دیکھا اور تقریب کے منتظمین کو حکم دیا کہ پروگرام کا آغاز کردیا جائے اور ساتھ ہی خالی کرسیاں اٹھوانے کا آرڈر بھی جاری کردیا۔ تقریب کچھ آگے بڑھی تو وزیر اعظم لیاقت علی خان اور دیگر وزراء بھی آپہنچے اور پوری تقریب میں شرمندگی کے ساتھ کھڑے رہے۔ قائداعظم نے انھیں پابندی وقت کا ایسا سبق دیا کہ ساری زندگی نہ بھولے ہوں گے۔اگر ہم قائد اعظم کی زندگی میں غور کریں تو بہت سی باتیں ایسی ملتی ہیں جنھیں ہم یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔

جیلانی نے جلسہ گاہ پر مجمع پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو ایسا محسوس ہوا کہ تمام لوگ شرمندگی کے مارے زمین میں گڑ گئے ہیں۔شیخ صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: "میں اس اجلاس کی وساطت سے خاص طور پر ہمارے حکمرانوں کو بانی پاکستان قائداعظم کی زندگی سے باخبر کرنا چاہتا ہوں ۔جنرل گل حسن محمد علی جناح کے پہلے اے-ڈی-سی تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ کابینہ کے اجلاس کے موقعہ پر میں نے قائداعظم سے پوچھا: "سر !اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں بولے:"کیا یہ لوگ گھروں سے چائے پی کر نہیں آئیں گے؟"میں گھبرا گیا۔ انھوں نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: "جس وزیر کو چائے کافی پینی ہو وہ اپنے گھر سے پی کر آئے یا گھر واپس جا کر پیے۔ قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیرو ں کے لیے نہیں"۔

حاضرین محترم!ذرا سوچیے!آج ہماری حکومت کے تمام دفاتر میں سارا سارا دن چائے بسکٹ چلتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس اور دعوت ولیمہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ چائے اور کافی تو ایک طرف ہر اجلاس میں کھانے کا پر تکلف اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر آج قائداعظم ہوتے اور وہ کابینہ کے اجلاسات اور سرکاری دفاتر کا حال دیکھتے تو ان کے دل پر کیا گذرتی؟قوم کے روپوں پر عیاشیا ں اور شاہ خرچیاں کرنے والے حکمران قائداعظم کی زندگی سے درس عبرت حاصل کریں۔

ایک مرتبہ گورنر جنرل ہاﺅس کے لیے ساڑھے اڑتیس روپے کا سامان خریدا گیا۔ قائداعظم نے حساب طلب فرمالیا۔ معلوم ہو ا کچھ چیزیں آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے منگوائی ہیں ۔ فرمایا:"یہ پیسے ان کے اکاﺅنٹ سے کاٹے جائیں "دو تین چیزیں قائداعظم کی ذاتی تھیں ۔ اس کے بارے میں بھی یہی کہا کہ یہ پیسے میرے اکاﺅنٹ سے کاٹے جائیں۔باقی جو چیزیں گورنر جنرل ہاﺅس کے لیے تھیں ان کے بارے میں فرمایا:"ان کی رقم سرکاری خزانے سے ادا کردی جائے اور آئندہ احتیاط کی جائے"۔ اسی طرح ایک بار ایسا ہوا کہ "زیارت" میں شدید سردی تھی ۔ کرنل الہی بخش نے قائداعظم کے لیے موزے خرید کر انھیں دیے۔قائداعظم نے ان موزوں کو بہت پسند کیا ۔ قیمت پتا کی تو معلوم ہوا دو روپے ۔ گھبرا کر فرمایا:"کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں "۔عرض کی :"سر یہ آپ کے اکاﺅنٹ سے خریدے گئے ہیں۔ فرمایا:"میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے۔ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے"۔یہ کہہ کر موزے واپس کردیے۔

آپ ان واقعات کو سامنے رکھ کر آج کے پاکستان کا جائز ہ لیجیے۔ہمارے ملک میں ایک MNAکا سالا نہ خرچہ تقریباً35کروڑ روپے ہے۔ ایوان صدر کا روزانہ کا خرچ 10لاکھ 71ہزار ہے جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کا11 لاکھ73ہزاراور دیگر وزراء اور ان کے معاونین کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں جو ایک ارب کے لگ بھگ ماہانہ ہیں۔ ہمارے قومی اسمبلی کے ممبر کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ بیس ہزار سے دو لاکھ روپے تک ہے۔قانونی اور آئینی اخراجات کی مد میں ایک لاکھ روپے ہر ماہ دیے جاتے ہیں۔ دفتری اخراجات کے لیے ہر مہینہ ایک لاکھ چالیس ہزار، سفری اخراجات کی مد میں آٹھ روپے فی کلومیٹر دیے جاتے ہیں۔ممبران قومی اسمبلی کو پورے پاکستان میں تمام ریلوے ٹرینوں میں پورے سال ہر وقت فُل اے -سی رومز میں مفت سفر کی مکمل رعایت ہے۔

ہوائی جہاز میں سالانہ بزنس کلا س میں بیوی بچوں اور سیکریٹریز سمیت چالیس اسفار کی مکمل مفت سہولت میسر ہے۔ تمام رہائشی سہولتیں حکومتی خرچ پر مفت دی جاتی ہیں۔قومی اسمبلی کے ممبران کو بجلی کے پچاس ہزار یونٹ مفت دیے جاتے ہیں۔ ایک ایم-این-اے کو ایک لاکھ ستّر ہزار تک مفت کالز کرنے کی اجازت ہے۔ اگر ان اخراجات کو جمع کیا جائے تو قومی اسمبلی کے ممبر کا سالانہ خرچ بتیس سے پینتس کروڑ جبکہ پانچ سال میں ایک ارب ساٹھ کروڑ بنتا ہے۔ یوں اسمبلی کے تمام ممبران پر پانچ سال میں پچاسی ارب چوالیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں"۔

تمام سامعین و حاضرین شیخ صاحب کے لب لعلیں سے حقائق سن کر دم بخود تھے ۔ شیخ صاحب نے فرمایا: " ہمارے وزراء خارجہ امریکہ جاتے ہیں نیو یارک کے مہنگے ترین ہوٹل "برکلے کانٹی نینٹل" میں قیام کرتی ہیں جس کا کرایہ 20ہزار ڈالر تقریبا سترہ لاکھ روپے ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی کی بات ہے ہمارے وزیرا عظم صاحب کے غیر ملکی دوروں پر ایک ارب 21کروڑ 33لاکھ 76ہزار روپے خرچ ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے وزراء کے بچوں کے ملبوسات تک سرکاری خزانے سے خریدے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے وزراء حج یا عمرے کے لیے جاتے ہیں تو انھیں احرام تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ فراہم کرتا ہے۔

میں آپ کو ایک اور واقعہ سناتا چلوں ۔ ایک روز قائد اعظم اپنے اے-ڈی -سی گل حسن کے ساتھ سفر سے واپس آرہے تھے ۔ جونہی آپ کی گاڑی ریلوے کراسنگ کے قریب پہنچی پھاٹک والے نے پھاٹک بند کردیا ۔ گل حسن نے دیکھا کہ ابھی ٹرین آنے میں کچھ وقت باقی ہے اور ان کو اتنی دیر انتظار کی کوفت اٹھانی پڑے گی۔ تو انھوں نے گاڑی سے اتر کر پھاٹک والے سے کہا:"میرے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح موجود ہیں ۔ تم پھاٹک کھول دو تاکہ ہم گاڑی نکال سکیں "۔پھاٹک والے نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن واپس آئے تو دیکھا کہ خلاف معمول قائداعظم کا چہرہ سرخ تھا۔ پرجلال آواز میں بولے:"گل! واپس جاکر پھاٹک بند کراﺅ۔گل حسن گھبرا کر واپس بھاگے، پھاٹک بند کرایا اور ڈرتے ڈرتے گاڑی میں آبیٹھے ۔قائد اعظم نے گرج کر کہا:"گل حسن !قانون، قانون ہے۔ یہ سب کے لیی یکساں ہوتا ہے۔ اگر پھاٹک پر عام لوگوں کی گاڑیاں رک سکتی ہے تو گورنر جنرل کی گاڑی کیوں نہیں رک سکتی؟اگر گورنر جنرل ہی قانون کی پابندی نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟"

آج قائداعظم کی یا د میں ہونے والے اجتماع میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟وہ" رول آف لاء"چاہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہو جہاں سربراہ مملکت اور عام مزدوروں کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ہر جگہ مساوات کا دور دورا ہو۔وہ چاہتے تھے کہ جس پھاٹک پر ایک عام شہری کی گاڑی رکے وہاں گورنر جنرل کی گاڑی کو بھی رک جانا چاہیے۔سگنل کی لال بتی پر جہاں ایک سائیکل اور رکشہ والا رکے وہاں صدر اور وزیر اعظم کی گاڑی کو بھی رک جانا چاہیے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بد قسمتی سے صدر ،وزیر اعظم اور دیگر وزراء کے لیے یہ قانون پورے ملک میں کہیں بھی رائج نہیں۔اگر کہیں سے وی۔آئی۔پی کو گزرنا ہو تو کئی گھنٹے پہلے پولیس اس جگہ کو گھیرے میں لے لیتی ہے۔ہزاروں لوگ سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں۔ان کی سواری گزرنے والے تمام راستوں میں پڑنے والے تعلیمی اداروں،پٹرول پمپس،اسپتالوں حتیٰ کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک کی مساجد تک بند کر دی جاتی ہیں۔ان وی۔آئی۔پیز کی وجہ سے شہریوں کو بچے بھی رکشوں اور فٹ پاتھوں پر جننا پڑتے ہیں۔"

یہ جملے کہتے ہوئے شیخ صاحب کی آواز رندھ گئی اور آپ کی آنکھوں سے اشکوں کا سمندر جاری ہو گیا۔جیلانی کی آنکھیں بھی آنسوؤں کے موٹے موٹے بوند برسا رہی تھیں۔جلسہ گاہ میں ہر طرف سے ہچکیوں اور رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔شیخ صاحب اپنی ہمت کو جمع کرتے ہوئے درد و سوز سے معمور آواز میں مخاطب ہوئے: "حاضرین محترم!بتائیے کیا قائد اعظم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ عوام کے پیسوں پر حکمران عیاشیاں کرتے پھریں؟کیا تخلیق پاکستان کا مقصد یہی تھا کہ حکمران عوام کا خون نچوڑیں؟کیا یہ اسی قائد اعظم کا پاکستان ہے جو قوم کے پیسوں سے حکومتی اجلاس میں چائے تک پیش نہیں کرنے دیتے تھے؟جنھوں نے صرف دو روپے کے موزے یہ کہہ کر واپس کر دیے تھے کہ ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے ۔جو حکومتی خزانے سے ذاتی استعمال کے لیے چند روپے تک لینا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ جو گورنر جنرل ہوتے ہوئے بھی عام شہریوں کے ساتھ پھاٹک کھلنے کا انتظار کرتے تھے؟

کیا پاکستان بنانے کا مقصد قائد اعظم کی نظر میں یہی تھا کہ یہاں بےروزگاری، لاقانونیت، ناانصافی، بدانتظامی، جھوٹ، منافقت، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری،اقرباء پروری، بے اصولی اور رشوت کو فروغ دیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں آئے دن دہشت گردی،لوٹ کھسوٹ،چور بازاری،غنڈہ گردی،عصمت در ی اورخود کشی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نہیں!نہیں! یہ وہ پاکستان نہیں رہا جس پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ جس کی خاطر لوگوں نے اپنی نوجوان و باعفت بیٹیوں کو "زندہ در بئر" کیا تھا۔اور نہ ہی یہ وہ پاکستان ہے جس کا تصور قائد اعظم اور ہمارے بزرگوں کے ذہن میں تھا۔ حکمرانوں!میں تم سے اتنی ہی گذارش کرتا ہوں کہ قائد اعظم ،بزرگوں اور دس لاکھ شہداء کی روحوں کواتنا نہ تڑپاؤ ۔خدارا !راہ راست پر آجاؤ۔اللہ کا خوف دلوں میں پیدا کر لو۔اس کے حبیب ﷺ کی محبت اپنے دلوں میں جاگزیں کر لو اور ان کی اتباع کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ورنہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔" شیخ صاحب نے تقریر تو ختم کر دی مگر ذہنوں میں تدبر، تفکر اور سوچ بچار کے لیے ایک سوال چھوڑ گئے کہ کیا آج کا پاکستان، قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

اور جیلانی اس کا جواب سوچتا رہا سوچتا رہا اور سوچتا ہی چلا گیا۔
ZOHAIB SULTAN AHMAD
About the Author: ZOHAIB SULTAN AHMAD Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.