اللہ تعالیٰ نے خاندان اور قبائل پہچان کے لیے بنائے ہیں،
اس لیے محض قومیت کی بنیاد پر کسی کی تعریف و تنقیص جائز نہیں۔ لیکن
خاندانوں میں مخصوص حالات، جغرافیہ، محل وقوع اور رویوں کی وجہ سے کچھ ایسی
صفات پیدا ہو جاتی ہیں جو ان کی پہچان بن جاتی ہیں۔ ان کے افراد اپنے اخلاق
و کردار کی بنا پر ضرب المثل بن جاتے ہیں اور اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہو
جاتے ہیں۔ قریش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس خاندان کے افراد بہادر،
شجاع، مہمان نواز، سخی، وعدے کے پکے اور وفادار تھے۔ اسلام قبول کر لینے کے
بعد ان میں مزید صفاتِ محمودہ پیدا ہو گئیں، مثلا: حق پرستی، ایثار پسندی،
نرم دلی، عبادت گزاری، تصلب فی الدین، رعایا پروری، حسن سلوک، ایمان داری
اور رضاء الہی کی طلب گاری وغیرہ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو
اپنے قریشی ہونے پر فخر تھا۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔ لامحالہ آپ میں
بھی یہ ساری صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ آپ کے ننھیال و ددھیال اور
سسرالی رشتہ داری کی نجابت و شرافت نے آپ کی شان و شوکت میں مزید اضافہ کر
دیا۔ سونے پر سہاگے کا کام آپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبی
تعلق نے کر دیا۔ آپ صلہ رحمی کے ایسے سنگم پر کھڑے ہیں کہ عرب و عجم،
بنوہاشم و بنو امیہ اور بنو عدی و بنوثقیف غرض ہر خاندان سے آپ کی رشتہ
داری قائم ہے۔ شاید اس امر میں آپ اپنے ہم عصروں سے فائق و متفرد ہیں۔
آپ… نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسے، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔آپ کی نانی اماں، مکہ مکرمہ
کی امیر ترین تاجرہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ طاہرہ رضی اللہ عنہا تھیں۔فرمانِ
نبوی کے مطابق آپ کی اماں جان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی
سردار ہوں گی اور آپ کو بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے سیدا شباب اھل
الجنۃ یعنی جنتی نوجوانوں کے سردار ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔ آپ کے دادا
خواجہ ابوطالب ہیں، جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مثالی محبت تھی۔
آپ کی دادی اماں سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا ہیں، جنہیں نبی کریم
صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا۔ آپ کے تین چچا
ہیں؛ عقیل، جعفر اور طالب۔ اسی طرح آپ کے تین ماموں ہیں؛ قاسم، عبداللہ
اور ابراہیم۔ خالائیں بھی تین ہی ہیں؛ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام
کلثوم رضی اللہ عنہن۔ دو پھوپھیاں یعنی جمانہ اور ام ہانی (فاختہ) رضی اللہ
عنہا ہیں۔آپ کی آٹھ سوتیلی مائیں ہیں: سیدہ اسماء بنت عمیس، سیدہ امامہ
بنت زینب رضی اللہ عنہا، ام البنین بنت حرام عامریہ، لیلی بنت مسعود
تمیمیہ، ام حبیبہ بنت زمعہ، محیاۃ بنت امرؤالقیس، خولہ بنت جعفر حنفیہ، ام
سعید بنت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہا۔
آپ کے دو حقیقی اور گیارہ (ماں کی جانب سے) سوتیلے بھائی ہیں۔ سیدنا حسن
اور سیدنا محسن رضی اللہ عنہما حقیقی ہیں اور محمد بن حنفیہ، ابوبکر، عمر
بن التغلبیہ، عثمان، عباس، جعفر، عبیداللہ، عبداللہ، یحییٰ، محمد الاوسط،
محمد الأصغر رحمہم اللہ سوتیلے بھائی ہیں۔ جب کہ دو حقیقی بہنیں (سیدہ
زینب اور سیدہ ام کلثوم) اور پندرہ سوتیلی ہیں: رقیہ، ام الحسین، رملہ
کبری، ام ہانی، میمونہ، زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم، فاطمہ، امامہ،
خدیجہ، نفیسہ، ام جعفر، جمانہ، ام سلمہ)
روایات میں آپ کی درج ذیل زوجات کے نام آتے ہیں: شہر بانو بنت یزدگرد،
لیلی بنت عروہ ثقفی، رباب بنت امرؤالقیس بن عدی، ام اسحاق بنت طلحہ، غزالہ
اور حرار۔ ان سے آپ کی درج ذیل اولاد تولد ہوئی: علی اکبر، علی الاوسط،
علی الأصغر، جعفر، عبداللہ، فاطمہ، سکینہ، رقیہ، زینب، خولہ، صفیہ۔
یوں تو آپ کی رشتہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر جانثاروں اور
خطہ حجاز کے تقریباً تمام عربوں سے تھی۔ لیکن بعض بہت قریبی رشتہ دار ایسے
بھی ہیں جن کے بارے میں صدہا قصے مشہور کر دیے گئے ہیں۔ ذیل میں ایسی چند
رشتہ داریوں کا اشارہ دیا جا رہا ہے جس سے رحماء بینھم کی صفت نکھر کر
سامنے آ جاتی ہے۔کیونکہ مشہور ہے کہ رشتہ داری اُس سے جوڑی جاتی ہے، جس سے
محبت ہوتی ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی قرینۃ الصغری (سیدہ حفصہ بنت
عبدالرحمن) سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں۔ یوں سیدنا حسین رضی اللہ
عنہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نواسے ہونے کے ساتھ ساتھ ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کے بیٹے کے داماد بھی ہیں۔ اسی طرح شاہ ایران کی دوسری بیٹی محمد
بن ابی بکر سے بیاہی گئی۔ یوں آپ محمد کے ہم زلف ہوئے۔ اسی محمد بن ابی
بکرصدیقؓ کے صاحب زادے قاسم کی بیٹی ام فروہ فاطمہ کا نکاح سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ کے پوتے امام باقر بن زین العابدین سے ہوا، جس سے امام جعفر صادق
رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔ (سیدنا جعفر الصادق رحمہ اللہ اس رشتہ کو بڑے فخر سے
یاد فرماتے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دوبار جنا ہے) سیدنا حسین
رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ سکینہ رحمہا اللہ کا نکاح اول سیدنا ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے مصعب بن زبیر رحمہ اللہ سے ہوا۔
آپ کی سگی بہن سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ
عنہ سے ہوا، جن سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر پیدا ہوئیں۔سیدنا عثمان رضی
اللہ عنہ اور بنو امیہ سے بھی آپ کی بہت سی رشتہ داریاں ہیں۔ مثلاً: حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے دوہرے خالو ہیں۔سیدنا علی
رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ام الحکیم سیدنا عثمان کی نانی ہیں۔ سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ فاطمہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے مروان بن
ابان کی زوجہ ہیں، جن سے فاطمہ، محمد اور قاسم پیدا ہوئے۔ انہی فاطمہ کا
دوسرا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دوسرے پوتے زید بن عمرو بن عثمان
سے ہوا۔سیدنا حسین کی صاحبزادی سیدہ سکینہ بھی ان کی زوجہ ثانی ہیں۔ روایات
میں انہی سیدہ فاطمہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو
بن عثمان سے بھی ثابت ہے جن سے محمد الأصغر، قاسم اور رقیہ پیدا ہوئے۔ اسی
طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی
زوجہ ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی عائشہ بنت عمر بن عاصم بن
عثمان، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے اسحٰق بن عبداللہ الارقط بن علی
بن حسین سے نکاح ہوا، جن سے یحییٰ بن اسحق تولد ہوئے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ سیدہ ام حبیہ رضی اللہ عنہا نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اہلیہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی سوتیلی
نانی ہیں۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری اہلیہ سیدہ میمونہ رضی اللہ
عنہا کی بہن قرینۃ الصغری، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں۔
سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی چچا
زاد بہن ام محمد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں۔
یوں تو سینکڑوں رشتہ داریاں گنوائی جا سکتی ہیں لیکن بطور نمونہ یہ چند ایک
ذکر کر دی گئیں۔جن سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بابرکت و باسعادت خاندان
کا تعارف ہو جاتا ہے۔ نیز صحابہ کرام اور اہل بیت کی آپس میں محبت و تعلق
اور رشتہ داری کا بھی پتا چلتا ہے۔ اللہ تمام مسلمانوں کے دل ان کی محبت
میں اضافہ فرمائے آمین۔ |