آج جب میں نے ملک سجاول خان کو داتا دربار کے باہر بھیک
مانگتے دیکھا، تو میں خوف خدا سے لرز گئی، مجھے کسی کی گلابی آنسوؤں سے تر
آنکھیں یاد آگئیں ۔میرے کانوں میں کسی کی سرگوشی گونجی :
بانو تم دیکھنا ایک روز" یہ" موت مانگیں گے، مگر موت بھی" ان "سے روٹھ جائے
گی۔"
میں الٹے پیروں باہر کی طرف بھاگی۔ گرمی اور حبس سے زیادہ مکافات عمل نے
میری طبیعت خراب کردی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھی تو ڈرائیور نے حیرت سے
پوچھا:
"بیگم صاحبہ اتنی جلدی فاتحہ پڑھ لی۔ "
میں نے خاموشی سے سر ہلایا ۔گھر پہنچ کر میں سیدھی اپنے گھر کے پائیں باغ
میں آگئی ۔میں آج ماضی سے دیوانہ وار بھاگنے کی کوشش کررہی تھی ،مگر ماضی
تھا کہ آج میرا پیچھا چھوڑنے پر راضی نہیں تھا ۔اچانک کسی نے میرے کندھے پر
ہاتھ رکھا، میں پوری جان سے لرز گئی ۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فیضی
مجھے تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ میں بے اختیار ہی ان کے گلے لگ گئی اور رو پڑی
۔فیضی ہمیشہ کی طرح میرے آنسوؤں سے بیقرار ہوکر بولے :
بانو ! میری جان کیا ہوا؟
میں لرزتے ہوئے بولی :
"فیضی آج میں نے ملک سجاول علی خان کو داتا دربار بھیک مانگتے دیکھا ہے۔"
فیضی آہستہ سے مجھ سے پیچھے ہوگئے اور سرد لہجے میں بولے :
"بانو ! میں اس بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتا ۔"
میں بے اختیار ان کے پیروں میں بیٹھ گئی اور جھولی پھیلا کر بولی:
ہائے فیضی! اتنے ظالم نہ بنو ، خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو۔"
فیضی نے غصے سے لان چئرز کو ٹھڈا مارا اور برف جیسے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں
بولے:
"بانو اگر تم نے مڑ کر پھر ملک سجاول علی خان کا نام بھی لیا تو میں بھول
جاونگا کہ تم میری کیا ہو ،اس لیے بہتر ہے اپنی اور میری زندگی کو داؤ پر
مت لگاؤ ۔"
اس وقت فیضی کی نیلی آنکھیں زندگی میں پہلی بار مجھے کانچ کے ٹکڑوں کی طرح
بے روح محسوس ہوئیں ۔میرا دل ایسا لگتا تھا جیسے رک گیا ہو مجھے پتا تھا کہ
ملک فیضان علی خان کی "ناں" کو "ہاں" میں تبدیل کروانے والی جو ہستی تھی
،وہ شہزادی تو منوں مٹی اوڑھے املتاس کے درخت کے نیچے سوئی پڑی تھی۔ کبھی
کبھی میرا دل چاہتا تھا کہ کاش یہ ڈزنی پکچرز کی طرح Sleeping beauty کی
کہانی ہو، جہاں ایک سچے عاشق کا پیار بھرا بوسہ ایک سالوں سے سوئی شہزادی
کو جادو کے اثر سے آزاد کر دیتا ہے۔ مگر میں بھول گئی تھی کہ ہاجرہ کو مرئے
ہوئے تو پانچ سال ہوچکے تھے۔
آج جب صبح فیضی کو آفس کے لئے رخصت کیا تو دل بیقرار ہوگیا۔ مجھے ایسے
محسوس ہوا جیسے ہاجرہ مجھے بلا رہی ہو، میں بے اختیار ہی گھر سے قبرستان کے
لئے نکل کھڑی ہوئی، راستے میں فلاور شاپ پر رک کر میں نے اس کے پسندیدہ
ڈیزی اور روز فلاور لئے ۔میں قبرستان پہنچی تو شہر خموشاں ہمیشہ کی طرح سو
رہا تھا۔ آہنی گیٹ کھولتے ہی ہوا کا ایک جھونکا مجھ سے ویسے ہی لپٹا، جیسے
ہاجرہ مجھ سے والہانہ لپٹ کر کہتی تھی :
"بانو ! تو شہر نہ جایا کر میرا تو وقت رک سا جاتا ہے۔"
قبروں پر لگے سنگ مر مر کے کتبے، اردگردسبز گھاس، بڑے تن آور درخت مجھے یہ
یاد کرا رہے تھے کہ میری عزیز از جان کزن ،میری بہن اب اسی دنیا کی باسی
تھی۔ میں ہاجرہ کی قبر کے قریب پہنچی، تو میں نے دیکھا وہاں پر کوئی گھٹنوں
کے بل بیٹھا بین کررہا تھا، میں اس لمبے چوڑے وجود سے بخوبی واقف تھی، کبھی
یہ وجود مجھے میری جان سے پیارا ہوتا تھا، میں بے اختیار ہی درختوں کے
پیچھے چھپ گئی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ملک سجاول علی خان میری موجودگی سے
واقف ہو ۔ میں نے دیکھا وہ جب بلک بلک کر تھک گیا تو اس نے اپنی جیب سے
انجکشن نکال کر اپنے بازو میں گھونپ لیا۔ وہ نشے میں بڑبڑاتا ہاجرہ کی قبر
کے اوپر ہی ڈھیر ہوگیا۔ میرا دل ریل گاڑی کی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔میں دبے
پاؤں اس کے قریب پہنچی، اس کی کلائیاں اور بازو انجکشنوں کے چھیدوں سے بھرے
ہوئے تھے ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے زمین میں بھونچال آگیا ہو۔ وہ اونچا
لمبا،شہزادہ کیسے فقیر بنا ،مجھے ایک منٹ میں سمجھ آگیا۔ ملک سجاول علی خان
درحقیقت ہیروئین کے زہر کا عادی ہوچکا تھا، اس کی رگوں میں نشے کا زہر دوڑ
رہا تھا۔ کسی کی بددعا رنگ لے آئی تھی، شہزادہ "میڈوسا" کے قبضے میں تھا،
میڈوسا کے سر کے بال سانپوں میں بدل کر پھنکار رہے تھے اور شہزادے کا جسم
پتھر میں بدل چکا تھا۔
میں نے ہاجرہ کی قبر پر پھول رکھے ،فاتحہ پڑھی اور جاتے جاتے مڑ کر بولی :
"ہاجو ! معاف کردے اسے، مجھے پتا ہے تو ادھر بھی اس کی تکلیف سے بے چین
ہوگی۔"
میں آنکھوں میں اشک لیے دبے پاؤں قبرستان سے واپس آگئی ۔
گھر پہنچ کر میں اپنے کمرے میں بند ہوگئی ۔میں تھک کر چور ہوچکی تھی، میں
نے اپنے لاکر سے ہاجرہ کی ڈائری نکالی اور صفحہ اول سے پڑھنی شروع کردی
حالانکہ اس ڈائری کا ایک ایک حرف مجھے زبانی یاد تھا۔
ملک علی رضا خان کے تین گبرو بیٹے اور ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ ملک علی رضا
کا شمار ملک کے گنے چنے زمینداروں میں ہوتا تھا، جن کی زمینداری کئی
دیہاتوں اور ہزاروں ایکڑ مربعوں پر مشتمل تھی ۔انھوں نے اپنے بیٹوں اور
بیٹی کی شادی خاندان میں ہی کی تھی، ان کے بڑے صاحبزادے سیف علی خان کے تین
بیٹے تھے طیب علی خان، فیضان علی خان، شاہنور علی خان جب کہ منجھلے
صاحبزادے کے ایک ہی بیٹے سجاول علی خان تھے، جبکہ سب سے چھوٹے صاحبزادے کی
ایک ہی بیٹی ہاجرہ تھی۔ ان کی صاحبزادی عالیہ خاتون کی ایک ہی بیٹی شہرزاد
بانو تھی ۔ عالیہ خاتون کے میاں فارن سروس میں تھے ،اس لئے ان کا قیام ملک
سے باہر بھی ہوتا تھا۔جب کہ فیضان علی خان کے والد اپنے والد کے آشیرواد سے
سیاست میں پنجہ آزما تھے، اس لئے ان کی مستقل رہائش گاہ لاہور شہر بن گیا
تھا ۔ملک علی رضا خان کی وفات کے بعد جائیداد کا بٹوارہ تینوں بھائیوں کے
بیچ ہوا۔ عالیہ نے خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا حصہ بھائیوں
کے نام لکھ دیا، عالیہ بیگم کے میاں بہت سیخ پا ہوئے مگر وہ" ملکوں" کے
مقابلے کے نہیں تھے، اسی لئے خاموشی سے ان کو ہار ماننی پڑی۔ بظاہر تینوں
بھائیوں میں بہت اتفاق و اتحاد نظر آتا تھا۔ مگر اس اتحاد و اتفاق کی اصل
حقیقت کیا تھی؟ اس کا پردہ اگلی اقساط میں ہی کھلے گا۔
(باقی آئندہ )☆☆☆☆
|