چاۓ اور چاہ

چاۓ تو ایک بہانہ تھا اور ہوتا یہ روزانہ تھا کہ حامد کو اُن نازک ہاتھوں کا انتظار رہنے لگا جنہوں نے کچھ پہنا ہوا نہ ہوتا کیونکہ جہاں وہ کام کرتی تھی وہاں کام کے دوران چوڑیاں پہنے کی اجازت نہ تھی۔
اب گھڑی میں تو وہ بات نہیں ہوتی جو محبت کے جزبات اُبھاریں جو کہ نازک کانچ کی چوڑیاں نزاکت کھنکاتی ہیں ۔ گھڑی تو وقت کی نزاکت کا احساس دلاتی ہے جو وقت کسی کے انتظار میں گُزر کے نہ دے اور پیچھے مُڑ کے دیکھو تو سالوں گُزر چُکے ہوں ۔

حامد بھی ایک نازک موڑ سے گُزر رہا تھا جو ہر نئی حکومت قوم سے گُزرواتی ہے

حامد خیالوں میں اُسے چوڑیاں پہنا رہا ہوتا اور اُتار کر پھر دوسرے رنگ کی پہنا دیتا ۔
وہ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ دے کر جو مفت ہوتی تھی کیونکہ چاۓ کا تو بل دیا جاتا تھا ، اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتی ۔ ان لڑکیوں کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کب کاروباری ہے اور کب محبت والی مسکراہٹ ہے۔
حامد کا بس چلتا تو چاۓ مفت پیتا اور مسکراہٹ کا بل ادا کرتا اور پیسوں کے بجاۓ اپنی پوری زندگی اُس کے نام کر دیتا ۔
اب یہ اور بات ہے کہ بیس برس بعد وہی نازک ہاتھ والی لڑکی اُسے دھیمے انداز میں چاۓ پیش کرنے کے بجاۓ ، پٹخ کر کہتی کہ زندگی میرے نام نہ کرتے ، یہ گھر ہی میرے نام رجسٹری کروادیتے ۔

تم نے دیا ہی کیا ہے؟

ان ہی باتوں سے تنگ آکر حامد گھر کے بجاۓ ریسٹورنٹ میں پیتا تھا اور چاۓ سے بات بہت آگے نکل چکی تھی

اُدھر جگجیت کی غزل چل رہی ہوتی

بات نکلے گی تو بہت دور تلک جاۓ گی !

اور بات تو اُس کی گھر میں بھی بہت دور جا چُکی تھی اور شگُفتہ کی مسکراہٹ بھی کہیں دور جا چکی تھی ۔ حالانکہ مُسکراہٹ تو حامد کو آج بھی اُس کی ویسے ہی حسین لگتی تھی
جیسے بیس سال پہلے لگا کرتی۔ پھر شگُفتگی افسُردگی اور ڈپریشن میں بدلتی گئی ۔
وہ وقت بے وقت طنز کرنے لگی تھی ۔ آہستہ آہستہ دونوں کے درمیان بیزاری سی پیدا ہورہی تھی ۔
نزدیکیاں کم اور دوریاں بڑھتی جا رہی تھیں
جو کسر تھی وہ رشتے داروں کی بے جا مُداخلت نے پوری کر دی تھی ۔
حامد بھی اب کچھ عادی ہوتا جا رہا تھا اور کچھ آزاد سا محسوس کر رہا تھا

کیا انسان محبت کا قیدی ہوتا ہے ؟

اکثر وہ اسی سوچ میں رہتا کہ شروع میں تو آدمی یہ قید خوشی خوشی قبول کرتا ہے۔ پھر شائد قید با مشقت میں بدل جاتی ہے ۔ لیکن پھر اولاد کی محبت میں وہ اس قید کو برضا و رغبت برداشت کرتا ہے جس کے زاتی اور معاشرتی کثیر فوائد ہیں ۔

آج بھی وہ ریسٹورنٹ میں اُن ہی ہاتھوں کا انتظار کر رہا تھا جن میں سے مہندی کے بجاۓ میونیز کی خوشبو آرہی ہوتی ۔ حامد تصور ہی تصور میں اُن پر اپنی پسند کا پرفیوم لگا دیتا ۔
انسان کے خیال اور تصور کو بھی قدرت نے بڑی طاقت بخشی ہے
ایک خیال سے ہی حقیقت وجود میں آتی ہے
اب یہ اور بات ہے کہ

میں خیال ہوں کسی اور کا
مجھے سوچتا کوئ اور ہے

اور وہ سوچ رہا تھا کہ آج وہ کیوں نہیں آئ ؟

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی جس پر یہ دھُن سیٹ تھی

ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی ۔۔۔۔۔ہر پل جئو
۔۔۔ پھر یہ سماں ۔۔۔کل ہو نہ ہو

اُس نے فون اُٹھایا
ہیلو !!
دوسری طرف شگُفتہ بول رہی تھی

میں اب نہیں آؤنگی !

حامد بولا

کیوں ؟

جواب آیا

بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے
میں یہ نوکری چھوڑ رہی ہوں
میں بچوں کو وقت نہیں دے پا رہی ہوں
تمہارے کہنے سے یہ نوکری اور یہ ڈرامہ کیا
۔بیوی سے محبوبہ بن گئی
۔میں گھر پر ہی ریسٹورنٹ والی شگفتہ بن کر رہوں گی

چلو اب گھر آجاؤ !!

حامد کے چہرے پر آج کئی سال بعد اصلی مسکراہٹ نمودار ہوئ

اور ریسٹورنٹ میں مُنی بیگم کی غزل چل رہی تھی

ایک بار مُسکرا دو!!

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 263440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.