آزادکشمیر کا بے عمل آئین ‘ قانون اور سماج دشمن کرپشن

آزادکشمیر کا بے عمل آئین ‘ قانون اور سماج دشمن کرپشن

طاہر احمد فاروقی

حکومت آزادکشمیرکی طرف سے حکومت پاکستان کی یہاں کے عبوری آئین میں 13 ویں ترمیم کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کو قبول نہ کرتے ہوئے نظر ثانی کا تقاضہ کیا گیا ہے تو کھلے دِل کے ساتھ اس ایشو پر مل بیٹھ کر غلط فہمی کے تدارک اور زیر زَبر کی کمی و بیشی دور کرنے پر رصا مندی کا اظہار بھی کیا ہے ‘ جس کے اعلان کے لیے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق کا انتخاب کیا گیا جو نئی لیڈر شپ کے قحط الرجال میں سیاسی فہم و فراست اور دلیل و حقائق کی بنیادوں پر بڑی سے بڑی بات خوش اسلوبی سے کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے سیٹ اپ میں تلوار کے ساتھ ڈھال کا مقام اختیار کر چکے ہیں اگرچہ آزادکشمیر کے آئین کے مطابق وزیراعظم پاکستان چیئرمین کشمیر کونسل ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے 13 ویں ترمیم کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے نہ کہ ترمیم کی منسوخی یا تبدیلی کی بات کی گئی ہے تاکہ یہاں اور وہاں دونوں طرف سے اس کے حوالے سے تحفظات کا جائزہ لیا جائے اگر تحفظات غلط ہیں تو پھر اگلے قدم کی ضرورت نہیں رہے گی اور درست ہیں تو پھر یہاں کے آئین کے مطابق ہی یہاں کی حکومت اسمبلی قیادت کے ساتھ ترمیم کو شکوک و شبہات ‘ الزامات کے باعث متنازعہ رکھنے کے بجائے غیر متنازعہ بنانے کا طریقہ کارکواختیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے جیسا کہ آزاد کشمیر حکومت نے سینئر وزیر کی سربراہی میں کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپوزیشن جماعتوں سے مل کر جائزہ لے گی جس کے بعد ضرورت محسوس ہونے پر حکومت اپوزیشن پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کا مرحلہ آئے گاتاہم ایک ہفتے کی غور وفکر کے بعدفاروق حیدر حکومت کا بطور احتیاطی تدبیر اپنے موقف کا اظہار کرناخوش آئند ہے اور پیپلزپارٹی کے مطلوب انقلابی کی طرف سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کر دیا گیا ہے جو احساس ذمہ داری کا عکاس ہے ‘ طارق فاروق اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کا حوالہ دیتے ہیں ماضی کے صدارتی آئین اور موجودہ پارلیمانی آئین کو اختیارات کے تناظر میں دلیل و منطق کے ساتھ پیش کرتے ہیں تو پھر ان کے مطابق حکومت پاکستان کی یہاں گڈ گورننس ‘ میرٹ ‘ پبلک ویلفیئر سسٹم یقینی بنانا اولین ذمہ داری ہے اور وہ جانتے ہیں یہاں بغیر لکھے پڑھے آئین و قانون کا راج تسلسل سے چلتا آ رہا ہے نائب قاصد ‘ چوکیدار سے لے کر الیکشن کمیٹی کے ممبران حتیٰ کہ منصف کے میزان پر بھی اس کا سکہ چلتا ہے جس کا جادو ایسے سر چڑھ کر بولتا ہے کہ سدھن ‘ راجپوت ‘ جٹ ‘ گجر ہی نہیں باقی بھی تمام طبقات کا وزیر ہو یا آفیسر وہ اپنے اپنے لاحقہ والے کو ہی اسلام آئین قانون سمجھتا ہے اور بات اختیار کے ناجائز استعمال سے مالیاتی بددیانتی تک آ جائے تو کلرک ‘ سپاہی کو باندھ کر اونچوں کو بچا لیا جاتا ہے یہاں تو احتساب و منصف کی کرسی پر غوث ‘ قطب کو بٹھا دیا جائے تو وہ بھی ہاتھ جوڑ دے ایسے حالات میں توازن ناگزیر ہے ‘ جس کا اندازہ سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کو بخوبی ہے جنہوں نے وزیراعظم عمران خان سے پونا گھنٹہ کی ملاقات میں کشمیر کاز کے بعد یہاں احتساب یقینی بنانے پر سارا زور رکھا اس کا جواب کون دے گا وہاں مقبوصہ کشمیر میں جنرل الیکشن سے پہلے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور یہاں اس کا دور تک نام و نشان نہیں ملنے دیا جاتا ہے ‘ نیلم جہلم پراجیکٹ سے لے کر تعمیر نو پروگرام تک عوامی سہولیات کے منصوبہ جات نااہلی ‘ سستی ‘ مالیاتی لوٹ مارچ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں مگر اس کے ایک ہی سبب کرپشن کا نام شور کرنے والوں سے لیکر توجیہات بیان کرنے والوں تک کوئی نہیں لیتا ہے کیوں کہ تعلق ‘ رشتہ داری ‘ دوستی اور برادری ‘ علاقہ آڑے آ جاتا ہے ‘ جس کے علاج کے بغیر سب آئینی ترامیم ‘ قانون محض کاغذ کے ایسے ٹکڑے ہیں جو الماریوں میں رکھے رکھے بوسیدہ ہو جاتے ہیں ‘ واپڈا نے نیلم جہلم کے آغاز کے بعد ساڑے پانچ ارب روپے یہاں عوامی منصوبہ جات کے لیے مختص کیے تھے جس میں دو ارب کی سکیمیں بھیجواکر لیے گئے ارو 95 کروڑ مزید آئے باقی سوا دو ارب کے لیے سکیمیں نہ جانے اور موجودہ حالات کے تناظر میں اضافی طور پر کیا امکانات ہیں ‘ یہ اصل مسئلہ ہے جس کا تدارک بروقت اپنا کام نہ کرنے اور کرپشن کے ہاتھوں اربوں کے واٹر سیوریج تعمیر نو پلانٹس کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ساتھرا موڑ پر 4 ماہ سے اُبلتا گٹر سارے نظام کی نااہلی کا ایسا ثبوت ہے جو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
 

Tahir Faraoqi
About the Author: Tahir Faraoqi Read More Articles by Tahir Faraoqi: 206 Articles with 148933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.