زمانہ قدیم میں پھول جیسے بچوں کو سخت مارا پیٹا جاتا تھا
انہیں اوئے،نالائق اور گدھا جیسے القابات سے نوازا جاتا۔بچے ڈرے ڈرے،سہمے
سہمے سے ہوتے۔ کسی کی کیا مجال کہ استاد محترم کے آگے بولنے کی جسارت
کرتا۔لیکن دور جدید کا تقاضا ہی کچھ اور ہے۔نیا دور ہے،نیا انداز ہے،نئے
طریقے ہیں۔ اب نالائق اور لائق کی اصطلاح قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ذہین طالب
علم کو فاسٹ لرنر اور کمزور بچے کو کم ذہین یا سلو لرنر کہا جاتا ہے۔نصابی
سرگرمیوں میں کمزور پائے جانے والے طالب علم کی کمی کا جائزہ لیا جائے۔اسکی
وجوہات پر غور کیا جائے کہ کمزورری کس اعتبار سے ہے۔قوت بصارت میں
کمزوری،سماعت میں کمزوری یا ذہنی اعتبار سے کمزوری موجود ہے یا کوئی
اور۔اگر بچے کی سماعت میں نقص ہے تو بچے کو قریب بٹھایا جائے اور معلم اپنی
آواز قدرے بلند بولے اور اگر بچے کی بصارت میں مسئلہ ہے تو اسکو تختہ تحریر
کے قریب بٹھائے اور ساتھ ساتھ والدین کے نوٹس میں لائے کہ بچے کا کسی مستند
ڈاکٹر سے علاج کرائے۔اگر طالب علم ذہنی اعتبار سے کمزور ہے تو پڑھایا گیا
سبق کو آسان سے آسان الفاظ میں پیش کرے،سبق کو سادہ مثالوں کے ذریعے وضاھت
سے پیش کرے اور سبق کو بار بار دھرائے اور بچے سے بھی بار بار مشق کروائی
جائے۔ بچے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی تعریف کے ساتھ ساتھ انعام بھی
دیا جائے۔ مثبت طریقوں سے اس طرح کی مشق سے کسی بھی طالب علم کو زہین بنایا
جا سکتا ہے۔بعض بچے جھجھک اور توتلا پن کا شکار ہوتے ہیں تو ایسے طلباء
استاد محترم کی شفقت کے محتاج ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ ذیادہ توجہ دی جائے اور
کلاس کا ماحول ایسا رکھا جائے کہ دیگر بچے ایسے بچوں کا مزاق نہ اڑائیں تا
کہ وہ آگے بڑھتے رہیں۔اس قسم کے بچوں کے ساتھ ایسی محنت کی جائے کہ جماعت
کے دیگر ساتھیوں کو پتہ نہ چلے کہ یہ کمزور ہے اور اس کے ساتھ اضافی محنت
ہو رہی ہے۔علم نفسیات کے مطابق بعض طلباء شرمیلے ہوتے ہیں۔بذدل قسم کے ہوتے
ہیں تو ان کے ساتھ پیار اور نرمی کا سلوک کیا جائے اور ذیادہ سے ذیادہ
مواقع دئیے جائیں کہ ان میں بولڈنس کی خصوسیت پیدا کی جا سکے۔ڈر اور خوف کی
وجہ سے بچوں کی استعداد دب کر رہ جاتی ہے۔ایسے بچوں کی جتنی بھی حوصلہ
افزائی کی جائے کم ہے۔پن،پنسل،کاپی،ٹافی بطور انعام دی جا سکتی ہے۔مایوس کن
کلمات اور طعنہ ہر گز نہ دیں۔جیسے بدتمیز،احمق،نالائق،تیری شکل پڑھنے والوں
جیسی نہیں،پڑھائی میں تو بلکل زیرو ہے،تم تو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے قابل
نہیں وغیرہ جیسے الفاظ سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہیئے۔اس قسم کے الفاظ
اگر ایک طرف معلم کی شان کے خلاف ہیں تو دوسری طرف بچوں کی نفسیات کے مطابق
بھی نہیں۔اکتسابی طور پر کمزور طالبعلم کو انفرادی توجہ زیادہ دی جائے۔کسی
قابل سٹوڈنٹ کے ساتھ اسکی جوڑی بنائی جائے اور کمرہ جماعت میں آگے بٹھایا
جائے۔بعض بچوں کی عمومی صحت کمزور ہوتی ہے تو ان کے والدین کو اس جانب توجہ
دلائی جائے اور ڈاکٹر کی ہدایات کی روشنی میں انہیں متوازن غذا کی طرف توجہ
مرکوز کی جائے۔کمزور طالب علم سے کلاس روم میں آسان سوالات پوچھے جائیں
تاکہ اس میں خود اعتمادی پیدا کی جاسکے۔اسے آسان ہوم ورک دیا جائے۔آسان
ٹاسک دیا جائے اور پھر کلاس میں اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ اس میں
نہ صرف احساس ذ مہ داری پیدا ہو بلکہ خود اعتمادی بھی پیدا ہو۔دہرائی والے
دن سبق یاد کرانے میں بچے کی مدد کی جائے اور اگر سکول میں بزم ادب ہو تو
اس کا مقابلہ دوسرے کمزور بچے سے کرایا جائے۔نصابی سرگرمیوں میں کمزور
طلباء کو ہم نصابی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مواقع دئیے جائیں تا کہ ان
کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو سکے۔کمزور طالب علم کے آگے ٹارگٹ ضرور رکھا
جائے۔ان سے پوچھا جائے کہ وہ مستقبل میں کیا بنیں گے اگر وہ ڈاکٹر بننے کا
اظہار کریں تو پھر اسے روشن مستقبل کی نوید سناتے رہیں تاکہ وہ محنت کرتا
رہے اور مسلسل آگے بڑھتا رہے۔اور اسے باور کرایا جائے کہ آپ کی محنت رنگ
لائے گی اور انشاء اللہ ضرور ایک دن ڈاکٹر بنیں گے۔ سکول میں کبھی کبھار
ایک بڑی شخصیت کو بلایا جائے اور ان کی ایسے بچوں سے ملاقات رکھی جائے تا
کہ بچوں کا نہ صرف جزبہ بڑھے بلکہ ان سے کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملے۔ایسے
بچوں کے والدین کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے۔ ان کے فیملی بیک گراؤند کو
مد نظر رکھتے ہوئے،ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس قسم کے
بچوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔جب استاد کا ارادہ پختہ ہو اور
والدین بھی ان کی پشت پر ہوں تو کمزور بچوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا
جا سکتا ہے۔یاد رکھیں اصلاح نیت اور مسلسل محنت سے کیا جانے والا کام ضرور
رنگ لاتا ہے۔ |