این لو کون تھی
(Arshia Ahsan, Hyderabad)
صدر جان ایف کینیڈی کی شادی میں ان کی دلہن نے اپنی ڈریس ڈیزائنر کو اچھی طرح عزت نہیں دلوائی بلکہ ایک نوکرانی کا سا برتاؤ کیا گیا۔ |
|
|
ایک سیاہ فام ڈریس ڈیزائنر جسے درزن کا منصب ملا |
|
شاید آپ میں سے کچھ لوگ پہلے ہی جانتے ہوں گے کہ جیکی نے JFK سے شادی کے وقت جو شادی کا گاؤن پہنا تھا اسے ایک سیاہ فام عورت نے ڈیزائن کیا اور بنایا تھا، جس کا نام تھا؛ این لو۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ اسے (ڈریس) بناتے وقت کیا ماجرا ہوا تھا۔ شادی سے صرف 10 دن قبل اس کے اسٹوڈیو میں پانی کا پائپ پھٹ گیا اور اس نے لباس کے ساتھ ساتھ دلہن کی نوکرانیوں کے کپڑے بھی تباہ کر دیے۔ لو کو اپنے خرچے پر کپڑے دوبارہ بنانا پڑے۔ اس نے بہت کچھ ہاتھ سے کیا! پہلے سے ہی تقریباً ناممکن کام کے ساتھ مکمل کرکے، جب لو نے جیکی کی اسٹیٹ، ہیمرسمتھ فارم میں داخل ہونے کی کوشش کی، تو اسے واپس کر دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ نوکروں کے داخلی دروازے کو استعمال کرے۔ لو ان کے پاس کھڑا ہوئی، کہنے لگی، "اگر آپ کپڑے چاہتے ہیں، تو یہ وہ دروازہ ہے جس میں سے میں سے اندر آ رہی ہوں،" انہوں نے اسے اندر جانے دیا! اسے وہ پہچان نہیں ملی جس کی وہ مستحق ہے۔ یہ ایک مغربی مختصر کالم کا تحت اللفظ ترجمہ ہے۔ جیکی مغربی میڈیا صدر جان ایف کینیڈی کی چہیتی بیوی جیکولین کینڈی کو کہتا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر خاندان کی فرد اور سسر کی من پسند تھیں، لیکن صدر جان ایف کینیڈی اس شادی پر خوش تھے۔ وہ وقت کی حسین ترین اور خوش لباس ترین خاتون تھیں۔ لیکن اس تحریر سے ان کے امیرانہ رکھ رکھاؤ و نخوت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ مغربی میڈیا و متوسط طبقہ بھی جس بےتکلفی سے روساۓ زمانہ سے پیش آتا ہے، اس کا تصور بھی مشرق میں تاحال ناپید ہے۔ سیاسی دشمنی یا کسی بڑے کے ساۓ میں لوگ جیسے جی چاہے، کیچڑ اچھالیں، لیکن عام آدمی و غریب یہاں احتجاج کا بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اس تحریر کو مگر میں نے اس مقصد کے لئے اقتباس نہیں کیا ہے۔ بلکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہمارے یہاں کسی کی شادی کی تقریب کے جوڑے چند دن پہلے برباد ہوجائیں۔۔ تو کیا ہوتا ہے؟ بےشک مغرب میں بھی ایک غریب عورت کو ڈریس ڈیزائنر و قرار واقعی مقام نہیں دیا گیا۔ لیکن ہمارے یہاں امیر کبیر بہو بھی منحوس قرار دے دی جاتی یا غریب درزن کی عزت کی دھجیاں بکھیر دی جاتیں۔ یا کم ازکم شادی نحوست ٹلنے تک ملتوی کردی جاتی۔ اس اقتباس میں ایک غریب عورت کی عزت نفس کا ذکر ہے جو نوکرانیوں کےلئے مختص دروازے سے گزرنے کو تیار نہیں ہوئی۔ وہ ایک ذرا اہم منصب پر تھی، دراصل تو اسے مرکزی دروازہ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس تحریر میں ایک نہیں کئی باتیں سمجھنے کےلئے موجود ہیں۔ اگر غرباء عزت نفس و کردار کی حفاظت چاہیں تو ہر ایک عزت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن تھکاہارا بےبس انسان اپنے خوف مجبوریوں کے لبادے میں چھپاکر دوسروں سے نظریں ملاتا بھی گھبراتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ لو نے کپڑے تباہ ہوۓ تو ہمت نہ ہاری اور مہینوں پہلے دیا گیا کام ایک ہفتے میں ہی کردکھایا۔ ہم ایک قرآنی آیت اکثر دہراتے ہیں لیکن خود یاد نہیں رکھتے، "اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود نہ چاہے". تیسری بات کہ ایک امیر کبیر نامور خاتون نے کس طرح سے ایک غریب عورت کا کام استعمال کیا لیکن نام تو کیا عزت بھی نہ دی گئی۔ |
|