تعلیمی دنیا کا ایڈز اور علاج
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
تعلیمی دنیا کا ایڈز اور علاج
نقل ایک ایسی لعنت ہے جو تعلیمی نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ایڈز انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور اور آخرکار تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مسئلہ محض چند طلباء کی اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ امتحانات میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف محنتی اور ذہین طلباء کی حوصلہ شکنی کرتا ہے بلکہ نالائق افراد کو بھی غیر منصفانہ کامیابی فراہم کر کے تعلیمی میعار کو بری طرح گرا دیتا ہے۔جیسے ایڈز انسانی جسم کے دفاعی نظام کو متاثر کر کے بیماریوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، ویسے ہی نقل تعلیمی نظام کے اصل مقصد یعنی علم حاصل کرنے، شخصیت سازی اور صلاحیتوں کو نکھارنے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ نقل سے علمی کمزوری، خود اعتمادی میں کمی اور اخلاقی انحطاط جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل میں محنت سے کنارہ کشی اور زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنے کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے۔والدین کی اکثریت بھی اپنے بچوں کو پوزیشن حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں، بلکہ اس کا اثر سماجی اور معاشی شعبوں تک پھیلتا جا رہا ہے۔ نقل کی وجہ سے ملازمتوں میں نااہل افراد کی بھرتی، معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ، اور جرم و فسادات میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔والدین اپنے بچوں کی تربیت ایسے کرتے ہیں کہ وہ مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے آسان ترین راہ یعنی نقل کا انتخاب کرتے ہیں، جو کہ ملک کی ترقی کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔
نقل کی بڑھتی ہوئی وبا سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریقین بشمول والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے اور حکومت مل کر سخت اصول بنائیں اور ان پر عمل درآمد کریں۔ تعلیمی نظام میں شفافیت، درستگی اور اخلاقی اقدار کی تعلیم پر زور دیا جائے۔ طلباء کو محنت کی اہمیت سمجھائی جائے اور نقل کی روک تھام کے لیے موثر نگرانی و قانون سازی کی جائے تاکہ یہ تعلیمی بدنصیبی ختم ہو۔
یوں تو نقل کرنے کے نقصانات بہت سنگین ہیں مگر چند ایک آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ نقل سے طالب علم اپنی اصل قابلیت اور مہارت پیدا نہیں کر پاتے، جس سے ان کی علمی ترقی رک جاتی ہے۔ نقل کرنے والا خود کو دھوکہ دیتا ہے، جو عملی زندگی میں ناکامی کا سبب بنتی ہے اور یوں کامیاب ہو کر ملک وقوم کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔نقل تعلیمی نظام کو کمزور اور بے اثر بنا دیتی ہے، جس سے معیار تعلیم گرتا ہے۔ محنت سے کنارہ کشی اور آسان راستہ اپنانے کی عادت مضبوط ہوتی ہے۔ غیر مہارت یافتہ افراد کی زیادتی سے معاشرتی اور اقتصادی ترقی رک جاتی ہے۔ نقل سے حاصل کی گئی ڈگریاں اکثر عملی قابلیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں، جس سے میدان عمل میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نقل امانت، دیانت اور اخلاقیات کے خلاف ہے، جو شخصیت کے بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ نقل کے باعث امتحانی عمل میں شفافیت ختم ہوتی ہے اور اعتماد کم ہو جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ نقل ایک ایسا مسئلہ ہے جو فرد، تعلیمی ادارے اور پوری قوم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے محنت، ایمانداری اور درست نظام کی ضرورت ہے جو نہ صرف فرد کی زندگی بلکہ قومی ترقی کی بنیادوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے، اس لیے اس کا فوری اور مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔
نقل کے خاتمے کے لیے درج ذیل اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں پرچے مکمل طور پر تصوراتی، جامع اور مشکل بنائے جائیں تاکہ نقل کی گنجائش کم ہو۔سوالات کی پروف ریڈنگ اور مارکنگ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ اساتذہ کو نقل روکنے کے لیے مؤثر تربیت دی جائے اور انہیں غیر تدریسی ذمہ داریوں سے آزاد کیا جائے۔ اساتذہ اپنے طلبہ میں محنت اور ایمانداری کی اہمیت اجاگر کریں۔ والدین اور میڈیا بھی معاونت کریں۔امتحانات کے دوران سی سی ٹی وی کیمرے اور کنٹرول رومز کے ذریعے نگرانی بڑھائی جائے۔ بڑے امتحانی مراکز قائم کیے جائیں جہاں نقل روکنے میں آسانی ہو۔ نقل کرنے والے اور کرانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔مرحلہ وار آن لائن اور ڈیجیٹل امتحانات متعارف کرائے جائیں تاکہ نقل کے امکانات کم ہوں۔ سکرین مارکنگ اور آن لائن اسسمنٹ سسٹمز کو اپنایا جائے۔ والدین، اساتذہ اور کمیونٹی کو نقل کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ مذہبی و سماجی رہنما اپنی تقاریر میں نقل کے خلاف بات کریں۔ میڈیا نقل کی روک تھام میں فعال کردار ادا کرے۔ میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر ملازمتوں اور تعلیمی مواقع کا نظام مضبوط بنایا جائے تاکہ نقل کی اہمیت ختم ہو۔ان سب اقدامات سے نقل کا خاتمہ ممکن ہے اور تعلیمی نظام کی صحت بحال ہو سکتی ہے۔ |
|