آج 21 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم
امن (Peace Day)منایا جارہا ہے۔ اس دن کے منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی نے 2001 ء کو کیا اور اسی فیصلے کے تحت 21 ستمبر 2002 ء کو
پہلاعالمی یوم امن منایا گیا۔
امن سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی
پر تشدد کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر
موجودگی یا پھر صحتمند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر
کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی مساوات
اور حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ انسان ابتدائے آفرینش سے ہی امن،چین، خوشی ، سکون
اور اطمینان کا خواہاں رہا ہے۔ کیونکہ امن ہر انسان کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی
انسان اس وقت تک چین و سکون اور خوشی سے نہیں رہ سکتا جب تک اسے ہر طرح کا
امن حاصل نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی سماج، معاشرہ اور ملک امن کے بغیر خوشحال
نہیں بن سکتا۔ اسی لیے تو آج سائنس و ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے باوجود بھی
ہر زبان پر امن کا نعرہ ہے، ہر مذہب و قوم اور ملک امن کا علمبردار ہے۔ ہر
باشعور قلب و ذہن امن کا متلاشی ہے ، ہر صاحب عقل امن کی تلاش میں ہے۔گویا
کہ امن ایک کھویا ہوا خزانہ ہو جو ڈھونڈنے سے مل جائے گا۔ امن کی تلاش کے
لیے اب تک دنیا بھر میں بڑی بڑی لاتعداد تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ امن کے
بین الاقوامی ایوارڈز متعارف ہوچکے ہیں۔ لاتعداد نت نئے قوانین بن چکے ہیں۔
نئی نئی اور قسم قسم کی تعزیرات وجود میں آچکی ہیں۔ لیکن افسوس ! کہ اتنی
تلاش اور کوششوں کے باوجود بھی جہاں بھی دیکھیں گلوبل سطح پر حالات بد سے
بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں، ہر طرف خوف و ہراس، انتشار و افتراق، بد امنی
اور خونریزی کا بازار گرم ہے، خوف وغم کی گھٹائیں افق عالم پر چھائی ہوئی
ہیں، چین و سکون عنقاء اور لڑائیاں، جھگڑے ، فسادات عام ہیں، ہر طرف مسائل
کا انبار لگا ہوا ہے، کسی کو سکون میسر نہیں ، اولادِ آدم طرح طرح کی
نفسیاتی، ذہنی، فکری اور روحانی مشکلات کا شکار ہے۔ تو جب تنظیموں، قوانین،
ایوارڈز اور تعزیرات وغیرہ سے امن ممکن نہیں تو پھر آخر کرنا کیا چاہیے؟؟؟
کیا تدبیر اختیار کرنی چاہیے؟؟؟ کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے؟؟؟ تاکہ اس
بدمنی کا خاتمہ ہو اور ہر طرف امن وامان اور چین و سکون کا دور دوراں ہو۔
جی ہاں! ہمارے پاس بدامنی کے خاتمے اور امن کی فضا قائم کرنے کا ایک زبردست
فارمولا ہے۔ وہ ہے ’’اسلام‘‘۔اسلام سراپا دینِ امن ہے۔ اسلام سراپا رحمت
ہے۔ اسلام سراپا سلامتی ہے۔ جن غیر مسلم محققین نے تعصبات سے بالاتر ہوکر
غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور خلوص دل سے
کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی ہے وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ
سکے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو امن و سلامتی کی ضمانت
دیتا ہے، جو ہر سطح پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ جو
موجودہ فسادات، جھگڑوں اور بدامنی کا واحد علاج ہے۔ اسلام پر مکمل عمل پیرا
ہوکر ہم نہ صرف اس بدامنی کا خاتمہ کرسکتے ہیں، بلکہ قلبی چین و سکون اور
اطمینان بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔جس سے اکثریت فی زماننا محروم ہوچکی ہیں۔ امن
کی علمبرداراقوام متحدہ سے قیامِ امن کی توقع اور امید رائیگاں ہے،کیونکہ
وہ اگرچہ قیام امن کے لیے قوانین تو بناتی چلی آئی ہے، لیکن عملی طور پر اس
قائم نہیں رہی ہے۔ امن کے نام پر پوری دنیا، خاص کر مسلم ممالک میں امن و
تشدد کے نام پر بھیانک جنگ کی حوصلہ افزائی اور مسلم ممالک کے احتجاج پر
مسلسل خاموشی اختیار کرتی چلی آئی ہے۔ 2001 ء میں دنیا بھر کا امن تباہ
کرتے ہوئے امریکااور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں
انسانوں کو امن کے نام پر قتل کیا، عراق میں امن کے نام پر لاکھوں انسان
جنگ کی بھینٹ چڑھا دیے تو دوسری جانب شام، فلسطین، کشمیر، برما، صومالیہ
اور پاکستان میں امن کے نام پر تشدد کو فروغ دینے میں اقوام متحدہ کا کرداد
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ تقریباً پرانے واقعات ہیں ۔ حال ہی میں
برما کو دیکھے۔ برما میں سوچی نے کیا گل کھلائے ۔ وہاں انسانیت سسک رہی ہے،
لیکن مجال ہے کہ کوئی کچھ کرے یا بولے ۔
لیکن اسلام ہی ایک ایسا فارمولا ہے جو اس دھرتی کو گہوارۂ امن بناسکتا ہے۔
اگر کوئی ہمارے اس فارمولے کو بدامنی کے خاتمے اور قیامِ امن کے لیے درست
نہیں قرار دیتا تو اس کو آج سے چودہ سو سال پہلے کی دنیا پر ایک نظر ڈالنی
چاہیے اور اس کو تاریخ کے چند اوراق پلٹانے چاہیے کہ اس دور میں کیا تھا ؟
جو بھی تھا ہمارے دور سے بڑھ کر تھا۔ امن اور آپس میں محبت نام کی کوئی چیز
نہ تھی۔ عدل و انصاف کا فقدان تھا۔ ہر طرف نفرتوں اور باہمی عداوتوں کے
گھٹا توپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ معمولی باتوں پر نسل در نسل دشمنیاں کرنا
معمول بن گیا تھا۔ ایک دوسرے کی کھوپڑیوں میں شراب پینا باعث فخر سمجھا
جاتا تھا، لیکن جب اسلام آیا تو امن و آشتی ، محبت و اخوت، خیر سگالی،
بھائی چارے اور عدل و انصاف کی ایسی روشنی لے کر آیا جس سے پوری دنیا روشن
ہوگئی۔ آج بھی اس جیسا دور ہے۔ آج بھی اگر ہم اسی طرح اسلام پر مکمل عمل
پیرا ہوجائے اور اسلام کو اسی طرح مکمل فالو کرنے لگ جائے تو کچھ بعید نہیں
کہ ہماری یہ دھرتی امن وامان اور چین و سکون کا گہوارہ ہو۔ روشن خیال دنیا
سن لے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیوں اور ایجادات سے وہ آسمان
کی طرف چڑھ سکتے ہیں، سیاروں پر جاسکتے ہیں، سمندر کی تہہ تک پہنچ سکتے
ہیں، لیکن امن امان اور سکون و اطمینان جو ان سارے سامانوں اور کارخانوں کا
اصل مقصد ہے وہ نہ ان کو کسی سیارے میں ہاتھ آئے گا، نہ کسی نئی ایجاد میں،
وہ ملے گا تو صرف اور صرف اسلام اور اس کی تعلیمات میں۔ |