طلاق ثلاثہ بی جے پی کے لیے زندہ طلسمات ہے

مرکزی سرکار آج کل مختلف مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ پٹرول کی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی اور ڈالر کے آگے روپیہ سنبھل نہیں پارہاہے۔ آبروریزی کے واقعات کی سونامی آئی ہوئی ہے۔ وجئے ملیا کا بیان اور اس پر سی بی آئی کی وضاحت نے ہنگامہ مچارکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی ترقی رپورٹ قوم کو شرمسار کررہی ہے ۔ گوا کا اقتدار پیروں تلے سے کھسک رہا ہے ۔آرایس ایس کےسر سنگھ چالک بھی طوطا چشمی نظر پھیر رہے ہیں ۔ ایسے میں بھکتوں کو مطمئن رکھنے کے لیے کریں تو کیا کریں ؟ تین طلاق کا بل جو ایوان بالا میں پاس نہیں ہوسکا اسے آرڈیننس بنادیں، اس لیے کہ یہی ہر مرض کا رام بان اپائے (زندہ طلسمات )ہے۔ اس طرح کے کھلونےمودی بھکتوں کو بہلانے کے لیے کافی ہیں ۔ ۱۷ جنوری کو ۲۰۱۸؁ کو اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے نامہ نگاروں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا تھاکہ حکومت تین طلاق پر کسی بھی قسم کے آرڈیننس پر غور نہیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا حکومت چاہتی ہے کہ بلوں پر غور، بحث، اور پارلیمنٹ میں فیصلہ یعنی اسے پاس کیا جائے۔ وزیر موصوف اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پارلیمان کے بجٹ سیشن میں یہ بل راجیہ سبھا سے بھی منظور ہوجائے گا لیکن ۲۰۱۷؁ میں سرمائی سیشن کی مانند یہ دوسری مرتبہ ناکام ہوگیا ۔ اس کے باوجود حکومت خاموش رہی لیکن اب جبکہ مسائل کا پانی سر سے اونچا ہوگیا تو یہ بند کھول دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے دو دن قبل ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) شائع ہوئی۔ اس میں انکشاف گیاکہ انسانی ترقی کی کسوٹی پر ہندوستان ۱۸۹ ممالک کی فہرست میں ۱۳۰ ویں پر ہے ۔ اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں پالیسی اور قانون سازی کی سطح پر کافی ترقی ہونے کے بعد بھی خواتین سیاسی، اقتصادی اور سماجی طور سے مردوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ یعنی مسئلہ قانون اور پالیسی کا نہیں کچھ اور ہے لیکن حکومت قانون سازی کے سوا کچھ کر نہیں سکتی اس لیے جو اقدامات ضروری ہیں وہ کرنے کے بجائے ایک ایسا قانون بزور قوت نافذ کردیا گیا جسے ایوان بالا کی توثیق بھی حاصل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس آرڈیننس کے جاری ہوجانے سے ایوان پارلیمان خواتین کی نمائندگی ۶ء۱۱ فیصد سے بڑھ کر ۵۰ یا کم ازکم ۳۳ فیصد ہوجائیگی ؟ حکومت ایوان میں معلق خواتین کے ریزرویشن کا بل حکومت لانا نہیں چاہتی حالانکہ اس بابت کانگریس اپنی حمایت کی یقین دہانی کراچکی ہے۔ اس لیے خواتین کو بہلانے پھسلانے کے لیے کیا کیا جائے؟ طلاق ثلاثہ کا قانون لے آیا جائے تاکہ ساری قوم کی توجہ دوسری جانب مبذول ہوجائے۔ دراصل حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ عوام کو بے وقوف بنانے کا ہے اس لیےکچھ اور حاصل ہو نہ ہو یہ تو ہو ہی جاتا ہے؟

سیاسی طاقت سے قطع نظر تعلیمی میدان میں ۶۴ فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف ۳۹ فیصد خواتین کم سے کم سیکنڈری سطح تک کی تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ اب اس بل کے منظور ہوجانے کے بعد وہ ساری طالبات کالج کی ڈگری سے آراستہ ہوجائیں گی۔ملازمت میں خواتین کی شراکت داری صرف ۲۷ فیصد ہے اور مردوں کی حصہ داری ۷۷ فیصد اب وہ دونوں ۵۰ فیصد پر آجائیں گے ۔ نجیب اپنی ماں کے پاس واپس آجائے گا اور بی جے پی کے عتاب کا شکار سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی اپنی بیوی شویتا بھٹ سے ملاقات ہوجائے گی ۔ ۵ ستمبر کو گجرات میں پولس کی کرائم ریسرچ برانچ نے برخاست آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو ایک پولس اہلکار سمیت تقریباً دو دہائی پرانے راجستھان میں ایک وکیل کے اغوا کے معاملہ میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ ان کی رہائش کے ایک حصے کو غیر قانونی قرار دے کر گرادیا گیا تھا۔ سنجیو بھٹ کے ساتھ یہ سب محض اس لیے ہورہا ہے کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کے خلاف حلف نامہ داخل کیا تھا۔ سنجیو بھٹ کی گرفتاری کے بعد وہ کہاں ہے ؟ اور کس حال میں اس کی کوئی اطلا ع ان کی اہلیہ کو نہیں ہے۔ مسلم خواتین کے غم میں دن رات مگر مچھ کے آنسو بہانے والی حکومت کا اپنی خواتین کے ساتھ یہ سلوک ہے۔

قانون اور انصاف کے وزیر روی شنکر پرساد نے آرڈیننس کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا’’تین طلاق پر گزشتہ سال سپریم کورٹ کےفیصلے کے بعد بھی مسلسل معاملے سامنے آرہےتھے۔مسلم خواتین کو انصاف دلانے اور ان کی صنفی مساوات برقراررکھنے کےلئے اس طرح کا قانون بے حد ضروری ہوگیا تھا۔ اس لئے ،حکومت راجیہ سبھا میں بل پاس ہونے کا انتظار کئے بغیر اس پر آرڈیننس لے کر آئی ہے۔‘‘ طلاق ثلاثہ کا مسلسل سامنے آنا ذرائع ابلاغ سے کیوں اوجھل تھا یہ سمجھ میں نہیں آتا جبکہ وہ تو خوردبین لے کر مسلمانوں کے عیوب کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اخبارات کی بات کریں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ آبروریزی کے ایک سے زیادہ دل دہلانے والے واقعات سامنے نہ آتے ہوں ۔ قانون تو اس درندگی کو روکنے کے لیے بننا چاہیے ۔ جس روز یہ قانون منظور کرکے صدر کی دستخط کے لیے بھیجا گیا اسی دن بھی بنگال میں آر ایس ایس کے پرچارک اور بنگال بی جے پی کے سابق جنرل سکریٹری (تنظیم) امیلندو چٹوپادھیائے کو سنگھ پریوار کی ہی کارکن کو شادی کا جھانسہ دے کر عصمت دری کرنے کے الزام میں دلی سے گرفتار کیا گیا مگر مرکزی حکومت کوسنگھ سیویکا کے بجائے مطلقہ مسلم خواتین کا غم ستاتا ہے ۔ اس لیے کہ وہ اپنے مردوں پر لگام نہیں ڈال سکتی۔

میلند چٹوپادھیائے کے خلاف شکایت درج کرانے والی خاتون آر ایس ایس سے وابستہ تھی اور بی جے پی میں شامل ہونا چاہتی تھی۔ آر ایس ایس قیادت نےاپنی روایت کے مطابق چٹو پادھیائے سے پلہّ جھاڑ لیا ہے ۔بی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری سیانتن باسو اس کی گرفتاری ایک بڑی سازش قرار دے کر زانی کا دفاع کررہے ہیں ۔ شکایت کنندہ خاتون نے ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ املیندو چٹوپادھیائے نے شادی کے بہانے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے ۔ بی جے پی والوں نے جس طرح کٹھوعہ کے معاملے مجرمین کی پشت پناہی کی ویسا ہی سماں چٹوپادھیائے کو بچانے کے لیے باندھا جارہا ہے۔ اس گرفتاری کو ممتا بنرجی کے ذریعہ سنگھ کو بدنام کرنے سازش بتایا جارہا ہے۔ اس طرح کا واقعہ پچھلے دنوں مدھیہ پردیش میں سامنے آیا اس سے قبل اترپردیش اور بہار میں شیلٹر ہوم کے اندر خواتین کے استحصال کی وارداتیں منظر عام پر آئیں ان میں سنگھ کے لوگ ملوث تھے ۔ خواتین کے معاملے سب سے ہندوستان کے سب سے غیر محفوظ ہوجانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گیروے درندوں کے منہ میں خون لگ چکا ہے اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ جتنا چاہے کلیوں کو مسلیں حکومت ان کو سزا سے بچا لے گی۔ ان شرمناک واقعات کی جانب سے توجہ ہٹانے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے طلاق ثلاثہ کے شور میں عصمت دری کا شکار ہونے والی مظلوم خواتین کی آہ و بکا کو دبا دو ۔ طلاق ثلاثہ کے آرڈیننس کی فی الحال یہی ضرورت نظر نہیں آتی۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450412 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.