مصنف: احمد حسین مجاہد
توجہ برائے خصوصی: تبصرہ کتب
’’لگی قینچی دل دے تے دل ڈاہڈا تنگ اے‘‘ قینچی میری زندگی کی واحد کتاب
ہے۔جسے میں نے جب پڑھنا شروع کیا۔تو پڑھتا ہی گیا۔اور پڑھتے پڑھتے تب دم
لیا، جب کتاب کا آخری لفظ پڑھ لیا۔اِس وقت میری سٹڈی ٹیبل پر تقریباََ سات
آٹھ کے قریب کتابیں پڑی ہیں۔لیکن ایک دو ہی کتابیں ایسی ہیں۔جو تکمیل کو
پہنچی ہیں۔اور چیونٹی کی رفتار سے پہنچی ہیں۔دراصل میں مطالعے میں بہت سست
ہوں۔کتابیں لینا اچھا لگتا ہے۔پر آرام سے پڑھتا ہوں۔لیکن۔قینچی میرے دل کو
لگی اور میرا دل مجھے پڑھنے پر مجبور کرتا ہوا قینچی قینچی کی گردان
لگاتارہا۔قینچی مجھ ایسے ناہنجار قاری پر اتنی بھاری ثابت ہوئی جیسے ایک
خستہ چوب سفینہ کسی گرداب کی زد میں آجائے۔ایسے ہی مجھے بھی قینچی نے اپنی
طرف کھینچ لیا۔ قینچی شراب کی ایک صورت ہے ۔اور پڑھنے سے انسان مخمور
ہوجاتا ہے۔ ایک مئے انگوری ہے۔ قینچی ایک سرسبز چراگاہوں کی سرزمین ہے۔جس
میں ٹہلتے وقت قاری مناظر کی جازب النظری اور چراگاہوں کی ہریالی۔آبشاروں
کی پھوار۔چنگھاڑتے دریاؤں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ایسے معلق چٹانوں بھرے
راستے سے گزرتا ہے۔جہاں قاری کی آنکھ اشکبارہوجاتی ہے۔جہاں موسیٰ مصلیٰ کی
برفوں میں منشی کی لاش نظر آتی ہے۔جہاں حلیمہ کی آہیں محسوس ہوتی ہیں۔جہاں
موسیٰ کامصلیٰ کی ہر درخت سرنگوں ہو کر سوگوار ہوتی ہے۔جہاں دَرشِی کی
جنگلوں میں طیور کوکتے نہیں۔بلکہ آہ زادی کرتے ہیں۔ گاؤں والے منشی کو موسیٰ
مصلیٰ کی برفوں میں جلا دیتے ہیں۔طیور کوکتے نہیں۔
میں نے قینچی پڑھ لی۔ اور ایک دن سے کم وقت میں پڑھ لی۔قینچی احمد حسین
مجاہد کی ایک عجب شاہکار ہے۔ مجھے احمد حسین مجاہد کو اول بار پڑھنے کا
اتفاق ہوا۔اور احمد صاحب کی الفاظ کی کیا زور آوری تھی کہ میں کتاب کے سحر
میں تادیر جکڑا رہا۔ اور بلا شبہ میں مزید بھی جکڑا رہتا۔بلکہ کہیں رو ز
اور شاید مہینوں تک جکڑا رہتا۔لیکن میں نے خود کو سنبھالا۔قینچی آئل پیٹنگ
کی ایک ایسی شاہکار پیٹنگ کی طرح ہے۔جس کے اندر ایک دنیا بسی ہے۔عام طوپر
آئل پیٹنگ صرف دور ہی سے اچھی لگتی ہے۔لیکن احمد حسین مجاہد نے اپنے برش سے
کینوس پر قینچی کی صورت میں کچھ ایسے رنگ بکھیرے ہیں۔جو قریب سے انسان کو
اور زیادہ محسور کرتے ہیں۔اپنے سحر میں اور جکڑتے ہیں۔احمد حسین مجاہد نے
اس شاہکار کو مثنوی میں لکھ کر معجزہ کی شکل دے دی۔ قینچی خوبصورت پھولوں
کے گرد بظاہر اوجھل کانٹوں کی طر ح ہے۔ جو تب محسوس ہوتے ہیں۔جب ہم آخری
مراحل میں ان پھولوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔
میں نے قینچی پڑھ لی۔ایک اور بات جو میرے لئے حیرت کے باعث ہے وہ یہ کہ
احمد حسین مجاہد کی یہ عظیم کتاب ہندکو زبان میں تحریر کی گئی ہے۔اور اول
بار مجھے خود پہ فخر محسوس ہونے لگا کہ مجھے ہندکو زبان پڑھنا آتی ہے۔
یاپڑھ تو ہر کوئی سکتا ہے۔کیوں کہ رسم الخط اردو زبان میں ہی ہے۔لیکن اصل
بات یہ بھی کہ ہندکو الفاظ کی سمجھ بھی آئے۔تو اول بار مجھے ہندکو زبان کے
الفاظ سمجھنے پر خود پر فخر ہونے لگا۔چونکہ میں ہندکو زبان کا اہل زبان
نہیں ہوں۔ میری مادری زبان پشتو ہے۔لیکن پچھلے دس بارہ سال سے مانسہرہ میں
رہنے کی وجہ ہندکو سے واقفیت ہوگئی۔بہرحال ۔آتے ہیں احمد حسین مجاہد کی
شاہکار کتاب’’قینچی ‘‘کی طرف۔قینچی ایک لوک داستان ہے۔ایک عشق کی داستان۔
بزرگاں سی سنڑئیے میں قینچی د ا قصہ
ایہہ سوہنٹری حلیمہ تے منشی دا قصہ
قینچی منشی اور حلیمہ کے عشق کی دردناک کہانی ہے۔کوائی سے آگے شٹراں کے نام
کا ایک گاؤں ہے۔دَرشِی کے جنگل، بگیرا جنگل اور عظیم پہاڑ موسیٰ کا مصلیٰ
کی آغوش میں اس کہانی کے کردار کبھی زندگی گزارتے تھے۔منشی ضیاء الدین کو
گاؤں کی ایک لڑکی حلیمہ سے محبت ہوجاتی ہے۔ منشی ایک خوش شکل اور اﷲ والا
نوجوان ہوتا ہے۔حلیمہ گاؤں کے سکندر کی بیٹی ہوتی ہے۔ حلیمہ کی بہن زلیخا
کو منشی اچھا لگتاہے۔پر وہ اپنی بہن کی خاطر قربانی دے دیتی ہے۔کیوں کہ
منشی کوزلیخا کی بہن حلیمہ سے محبت ہوتی ہے۔ ۔ منشی بارہ مولے سے آیا ہوتا
ہے اور۔ چوب ہائے عمارتی کے سلسلے میں گاؤں میں مقیم ہوتا ہے۔ جنگل سے درخت
کاٹ کر شہر بھیجتا ہے۔ گاؤں کے بہت لوگ منشی کے ساتھ جنگل میں کام کرتے ہیں۔
جن میں ایک حسن گل منشی کا خاص دوست ہوتا ہے۔منشی اپنے ڈھیرے میں رہتا
ہے۔گاؤں کا ایک شخص ملنگا جب منشی اور حلیمہ کو دیار کے درخت تلے بیٹھے
دیکھتا ہے تو وہ آکر گاؤں کے لوگوں سے سارا ماجرا بیان کردیتا ہے۔
اس کتاب میں بارہا عظیم پہاڑ موسیٰ کا مصلیٰ کا ذکر ہے۔ یہاں میں یہ بتانا
ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ پہاڑ میرے پسندیدہ پہاڑوں میں سے ایک ہے۔اور میں نے
ایک عرصے سے یہ خواہش دل میں پال رکھی ہے کہ کبھی تو میں یہ پہاڑ سرکروں
گا۔آج صبح جب میں یہ کتاب پڑ رہا تھا تو گزشتہ شب جو یہاں بارش برسی تھی۔تو
ہمارے چھت سے نظر آتے پہاڑوں پر سردیوں کی اول برف پڑی تھی۔جس میں موسیٰ کا
مصلی بھی تھا۔ایک رات جب حلیمہ منشی سے ملنے آتی ہے تو اُسی رات موسیٰ کا
مصلیٰ پر سردیوں کی پہلی برف پڑتی ہے۔موسم خاصا ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔
برف پے گئی اے اَج مُصلےٰ تے منشی
چُھری اے حلیمہ دے گلے تے منشی
بڑا سخت سِی اے تے ٹھنڈی ہوا اے
مڑے کول کُجھ نینھ بس اپڑیں وفا اے
آپ قینچی ضرور پڑھیں۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس شاہکار کی تخلیق کا میں
احمد حسین مجاہد کا کس طرح شکریہ ادا کروں۔کیوں کہ مجھے بالکل علم نہ تھا
کہ ہمارے مانسہرہ میں کاغان اور ناران میں بھی ایسی لوک کہانیوں کے کردار
زندگی گزار چکے ہیں۔موسیٰ کا مصلیٰ کی برفوں پر منشی کی لاش ہوسکتی ہے۔مجھے
بالکل علم نہیں تھا۔
لطف تو تب آئے گا جب یہ کہانی ایک ناول کی شکل اختیار کر جائے۔ مثنوی تو
ایک عظیم شاہکار ہے۔ اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے ترنم سے سنانے
میں جو درد ہوگا۔وہ خدا ہی جانتا ہے۔لیکن پھر بھی میری احمد حسین مجاہد سے
درخواست ہے کہ پلیز سر آپ اسے ایک ناول کی شکل دے دیجئے۔یا پھر مجھے اجازت
دے دیجئے کہ میں اسے آپ کے توسط سے ایک ناول کی شکل دے دوں۔لیکن احمد حسین
مجاہدسر! اگر آپ ناول کی صورت دیں تو ادب کی دنیا میں گراں قدر ناول کا
اضافہ ہوجائے گا۔کیوں کہ ہم تو ادب کی دنیا میں طفل مکتب ہیں۔
قینچی ادب کی دنیا میں ایک ایسے روشن الاؤ کی طرح ہے۔جس میں جلتی لکڑیاں
دراصل ادب کی ہر صنف پہ بھاری ایک نئی طرز تحریر ہے۔ جس کی تپش سے ادب میں
لوک کہانیوں سے ناآشنا لوگ مستفید ہورہے ہیں۔تپش لے رہے ہیں۔اور تیرگی کے
دشت میں رواں ادب کے کارواں کیلئے یہ الاؤ ایک مشعل راہ ہے۔بلا احتمال
قینچی ادب کی کہکہشاں کا ایک روشن اور دوسروں کی روشنی ہیچ ثابت کرنے والا
ستارہ ہے۔
آج بھی موسیٰ کا مصلیٰ سرکرنے کیلئے کو ہ نوردی پر نکل جانے والے کوہ پیما
جب موسیٰ کا مصلیٰ کی میدانوں اور بہکوں میں الاؤ روشن کرتے ہوں گے۔تو
انہیں اُس میں منشی کا چہرہ نظر آتا ہوگا۔اور اگلی صبح جب الاؤ سرد پڑتا
ہوگا۔تواُس الاؤ کی جگہ راکھ پڑی ہوتی ہوگی۔اور اُس راکھ میں منشی کے جسم
کے جلے ہوئے حصے کی راکھ بھی شامل ہوگی۔
محبت دے قصے ، دی کجھ انتہا نینھ
حلیمہ دا کِے ہویا،کجھ بھی پتہ نینھ
|