حفیظ تائب 14 فروری 1931ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے
والد کا نام حاجی چراغ دین منہاس قادری سروری تھا اور آبائی وطن احمد نگر
گوجرانوالہ۔ والدین نے آپ کا نام عبدالحفیظ رکھا ۔ آپ نے اپنی ابتدائی
تعلیم کا آغاز 1937ء میں اپنے گھر کے قریب مڈل سکول سے کیا۔ ان کے والد جو
کہ اسی سکول میں پڑھاتے بھی تھے۔ ان کا تبادلہ پرائمری سکول سکھیکی ہوگیا
چنانچہ چوتھی جماعت کا امتحان حفیظ تائب نے لوئر مڈل سکول دلاور چیمہ سے
پاس کیا اور پانچویں سے مڈل تک کی تعلیم ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول احمد نگر میں
حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں گجرات زمیندار ہائی سکول میں داخل کروا دیا
گیاجہاں انہوں نے سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا مگر ان کی دلچسپی روحانیت
کی جانب ہی گامزن رہی ۔وہ گجرات کے دو عظیم صوفی بزرگ اور ولی کامل( حضرت
کاوانواں والہؒ اور شاہ دولہ سرکارؒ) سے متاثر تھے جبکہ مولانا ظفر علی خانؒ
سے بھی بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ تائب کے والد حاجی چراغ دین نے سائنس کے
مضامین کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو انجینئر بنانا چاہتے
تھے مگر حفیظ کا دھیان تصوف‘ روحانیت اور مذہب کی طرف زیادہ تھا اس لئے ایف
ایس سی کے امتحان میں وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے جس کی والدین کو توقع تھی۔
بعدازاں ایک معمولی ملازمت اختیار کرلی دوران ملازمت فاضل اردو‘ ایف اے‘ بی
اے اور ایم اے پنجابی تک تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ شاعری کی طرف بھی
متوجہ رہے۔ اہل قلم سے ملاقاتیں اور محفلیں ہونے لگیں۔ اسی دوران اورنٹیل
کالج میں پنجابی کے استاد مقرر ہوئے جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کنٹریکٹ پر
تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے حج اور عمرہ کے علا وہ کئی اور
ممالک کا رخ بھی کیااور وہاں کی معاشرتی زندگی کی جھلک دیکھی ۔
حفیظ تائب 13 جون 2004ء (بمطابق 24جمادی الثانی 1425ھ) کو وفات پا گئے۔ آپ
کی تخلیقات میں صلوا علیہ وآلہ (اردو نعت کا مجموعہ) سک متراں دے (پنجابی
نعتیہ مجموعہ) وسلموا تسلیما‘ وہی یٰسین وہی طہٰ کے بعد 1999ء میں مناقب
اور پھر پنجابی حمد ونعت منقبت‘ غزل‘ نظم‘ گیت کا مجموعہ (لیکھ) کوثریہ (اردو
مجموعہ نعت) کے علاوہ نسیب (مجموعہ غزل) اور قومی وملی منظومات کا مجموعہ
’’تعبیر‘‘ جبکہ آپ کی وفات کے بعد کلیات حفیظ تائب‘ اجمال کالنجوم حاضریاں‘
حضوریاں‘ بے چہرگی اور طارق حرم کتابی شکل میں شائع ہوئے جنہیں محمد نعمان
تائب نے مرتب کیا تھا۔
سعید بدر جو سینئر صحافی اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ نعت نگار بھی ہیں۔
انہوں نے حفیظ تائب کے یوم پیدائش پر ’’حفیظ تائب اور آشوبِ ملت‘‘ کے عنوان
سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس میں عصرحاضر میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات
ومصائب کا ذکر ہے اور حفیظ تائب نے ان امراض کا جو علاج اور مداوا پیش کیا
ہے اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ان کے نزدیک اس اعتبار سے حفیظ تائب علامہ
اقبال کے ہم نوا اور ہم خیال ہو جاتے ہیں کیونکہ دونوں کا درد ایک جیسا ہے۔
دونوں کا غم ملت بھی ایک ہے۔ دونوں کا مدعا اور نصب العین بھی ایک ہے۔
دونوں دل وجان سے قوم کی خوش حالی اور ملت کی ترقی وعروج کے خواہاں ہیں۔
ملت کی بیداری اور آزادی وحریت کے لئے جو کام علامہ اقبال نے ساری عمر
سرانجام دیا وہی کام جناب حفیظ تائب نے بھی عمر بھر کیا بلکہ علامہ اقبال
اور حالی کے سلسلہ کو بھی مزید آگے بڑھایا۔
حفیظ تائب کے کلام میں ’’حق پرستوں‘‘ کا لفظ بھی کئی بار آیا ہے۔ گویا وہ
حق پرستی کے ساتھ ساتھ حق پرستوں پر وارد ہونے والی زمانے کی سختیوں اور
پریشانیوں سے رنجیدہ ہیں اور ان کی زندگی کی آسانی کے لئے اﷲ ورسولؐ کے
حضور فریاد کناں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج کل مسلمان کے خون کی حرمت ختم ہو
کر رہ گئی ہے۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہانا مشغلہ سمجھتا ہے حالانکہ
قرآن حکیم اور نبی اکرم نے مسلمان کا خون بہانا حرام قرار دیا ہے۔
ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی حفیظ تائب مرحوم کی شخصیت اورنعت گوئی
کے حوالے سے لکھتے ہیں :چودہویں صدی ہجری کے نصف آخر میں جن نعت نگاروں نے
اردو نعت کو موضوع اور مواد کے معاملے میں نئے انداز میں سجایا اور سنوارا
ہے ‘ ان میں حفیظ تائب کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
کے وجودِگرامی سے شدید عشق کے علاوہ ان کی زندگی بخش اور زندگی افروز
تعلیمات کو بھی اپنی نعتوں کا موضوع بنایا بلکہ یوں صنف نعت کی حدود کو
آفاق گیر حد تک پھیلایا ۔ اس پھیلاؤ نے نعت کو موضوع واظہار کی جو وسعتیں
عطا کی ہیں ان کی جھلک اردو نعت میں اس سے پہلے کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔
اس قدیم نعت کا بھی ایک اپنا معیار اور کردار ہے اور اس کی اپنی منفرد
افادیتیں بھی ہیں مگر حفیظ تائب نے صنف نعت پر بعینہٖ وہی احسان کیا ہے جو
غالب‘ اقبال اور آج کے بعض نمایاں شعرأ نے غزل پر کیا ہے کہ اسے ’’عورتوں
سے گفتگو‘‘ کے معیار سے بلند کر کے ہمہ گیر انسانی اور سماجی مسائل کے
اظہار کا ذریعہ بنا دیا ۔ حفیظ تائب کی نعت عشق رسول ﷺسے بھی منور اور ساتھ
ہی پیغامِ نبوت سے بھی کسب نور کر رہی ہے۔ یوں سمجھئے کہ حفیظ تائب کی نعت
حضور علیہ السلام کے وجودِگرامی کی کائنات گیری کا بین اظہار ہے۔
حفیظ تائب نے کسی زمانے میں نہایت خوبصورت غزلیں بھی کہیں بلکہ ان کا فن
غزل ہی میں جوان ہوا۔ یوں وہ غزل کے تربیت یافتہ نعت نگار ہیں اور اسی لئے
ان کے ہاں اظہار کی پختگی اعجاز کی حدوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک
غزل گو اور نعت نگار کے لئے آزاد نظم کہنا ذرا مشکل ہوتا ہے جس طرح ن م
راشد نے اپنے دوسرے مجموعہ کلام ’’ایران میں اجنبی‘‘ میں اپنی چند غزلیں
درج کر کے یہ ثبوت بہم پہنچایا کہ عمر بھر آزاد نظم کہتے رہنے کی وجہ سے
راشد کا سا بڑا شاعر بھی صنف غزل کے مطالبات سے کتنی دور نکل گیا تھا
چنانچہ غزل اس کا میدان ہی نہیں رہا مگر حفیظ تائب عمر بھر پابند شاعری
کرتے رہنے کے باوجود آزاد نظم میں بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہے ہیں۔ ان کی
ایک ہی نظم ’’زریں افق‘‘ دیکھ لیجئے جس کا موضوع آستانۂ نبوت ہے اور جو
جملہ فنی معیاروں کے مطابق ایک گٹھی ہوئی اور مکمل نظم ہے۔
میں حفیظ تائب کی قادر الکلامی کے تذکرے میں اس نکتے کی وضاحت بھی ضروری
سمجھتا ہوں کہ مجھے طویل اور بھاری بھرکم الفاظ پر مشتمل ردیفوں سے ہمیشہ
چڑ رہی ہے مگر حفیظ تائب نے اس نوع کی ردیفوں کے جواز کے ایسے قرینے پیش
کئے ہیں کہ مجھے اپنا نقطہ نظر باطل ہوتا محسوس ہوتا ہے کہ طویل یا بوجھل
ردیف شاعر کے خیالوں کے لئے زنجیر بن جاتی ہے۔ ذرا ’’زمین جگمگائی فلک
جگمگایا‘ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا‘ سرکار توجہ فرمائیں‘‘ اور ’’دیکھنا اور
سوچنا‘‘ کی ردیفوں والی نعتیں ملاحظہ کیجئے اور ’’کتاب پیغمبر‘‘ اور ’’اﷲ
الصمد‘‘ کے ساتھ ہی ان ردیفوں کی نعتیں بھی پیش نظر رکھئے۔ سید البشرؐ‘
آقائے نامدارؐ‘ مصطفےٰؐ‘ سید عالمؐ‘ آقا حضورؐ‘ خواجۂ لولاکؐ‘ شاہِ اممؐ‘
ختم رسلؐ‘ سرورِ دیںؐ…… ان ردیفوں کے ساتھ اتنی مکمل اور موثر نعتیں کوئی
قادرالکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے اور حفیظ تائب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان
کا قلم ہر رکاوٹ کو پانی کرتا چلا جاتا ہے۔
پھر حفیظ تائب نے پنجابی شاعری کی مشہور صنف ’’سی حرفی‘‘ کو بھی کمالِ
مہارت سے ایک طویل نعت میں برتا ہے۔ اردو کے قارئین شاعری کو مختار صدیقی
مرحوم نے ’’سی حرفی‘‘ سے متعارف کرایا تھا مگر حفیظ تائب نے اپنی ’’سی حرفی‘‘
میں یہ اپج برتی ہے کہ مروجہ سی حرفیوں میں تو ہر بند ایک حروف تہجی کے
ساتھ شروع ہو جاتا ہے اور اسے ی تک تمام حروف کو ترتیب کے ساتھ بند کے آغاز
میں لایا جاتا ہے مگر حفیظ تائب ان حروف تہجی کو اسی ترتیب کے ساتھ ہر بند
کی ردیف کے آخری حروف کے طور پر لائے ہیں اور یوں اس صنف میں ایک طرح سے
وسعت پیدا کی ہے۔ ان کی اس ’’سی حرفی‘‘ کا نام ’’زمزمۂ درود‘‘ ہے۔ اس میں
انہوں نے عشق رسول ؐ کا اظہار اتنی روانی اور آہنگ کے ساتھ کیا ہے کہ اس کے
لئے ’’زمزمے‘‘ کے عنوان کا جواز بغیر کسی تردد کے سمجھ میں آ جاتا ہے۔
یوں تو حفیظ تائب کا تمام تر نعتیہ کلام وجد آفریں ہے مگر نعتیہ قصیدہ کہتے
ہوئے ان پر جو وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے‘ وہ اپنا جواب آپ ہے۔ ’’نور
منشور‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شاعر محبوب خداؐ اور اپنے
مرکز فکر کے حضور حاضر ہے اور ان کی مدح میں یوں رطب اللسان ہے جیسے عبادت
کر رہا ہے۔ نظم ’’آیاتِ رحمت‘‘ میں حفیظ تائب نے آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ کو
اتنی بلاغت سے پیش کیا ہے جیسے ایک ایک شعر میں ایک ایک نعت سمود ی گئی ہے۔
حفیظ تائب کی نعت نگاری کی ایک اور خصوصیت ان کا عصری شعور ہے جس کے حوالے
سے وہ آنحضرتؐ کے حضور فریاد کناں ہوتے ہیں۔ وہ نعت میں اس شعور کو اتنے
کمال فن سے تحلیل کرتے ہیں کہ نعت تو نعت ہی رہتی ہے مگر پڑھنے سننے والا
اپنے گرد وپیش سے آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے اور عالم اسلام پر چھائی ہوئی
ادبار کی گھٹاؤں کے خلاف اس کے اندر وہ شدید جذبہ بیدار ہوتا ہے جو حضور ؐ
کی تعلیمات سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ پڑھنے والوں کو عصری مسائل کے بارے
میں سوچنے پر مجبور کر دینا بجائے خود ایک بڑا کارنامہ ہے کہ مسلمانوں کے
ہاں زوال جبھی آتا ہے جب وہ اپنے ذہن سے سوچنا ترک کر دیتے ہیں اور حضور ؐ
کی تعلیمات کو فراموش کرنے کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ حفیظ تائب نے جس درد
وکرب سے امت مسلمہ کا مقدمہ حضورؐ کے سامنے پیش کیا ہے اس سے مجھے مولانا
ظفر علی خاں مرحوم یاد آ جاتے ہیں کہ ان کی بیشتر نعتوں کا بنیادی نکتہ بھی
یہی ہے۔
احمد ندیم قاسمی حفیظ تائب کی شاعری کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ حفیظ
تائب ظاہر اور باطن دونوں لحاظ سے نہایت خوبصورت انسان تھا۔ اس کی سوچیں
خوبصورت تھیں۔ اس کی نعتیں خوبصورت تھیں۔ آنحضورؐ کے ساتھ اس کی شیفتگی اور
فریفتگی خوبصورت تھی اور وہ اتنا خوبصورت دوست تھا کہ جب زندگی میں پہلی
بار آنحضورؐ کے روضۂ مبارک پر حاضری دی اور فرطِ عقیدت ومحبت سے اس پر رقت
طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور وہ اپنی نعتوں میں
سے کوئی نعت حضورؐ کی خدمت اقدس میں پڑھنا چاہتا تھا تو فوری طور پر اسے
اپنی کوئی نعت یاد نہیں آئی۔ یاد آئی تو ایک دوست کی نعت اور ہمہ جہت
خوبصورت حفیظ تائب کے اس خوش بخت دوست کا نام احمد ندیم قاسمی ہے!
مجھے یاد نہیں کہ اس اندر باہر سے حسین وجمیل شخص سے میری پہلی ملاقات کب
ہوئی۔ اندازاً اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب وہ مجھ سے ملا ہو گا تو میرا ستارۂ
مقدر روشنی کے آخری نقطے پر جگمگا رہا ہو گا اور آج میں سوچتا ہوں کہ اگر
مجھے حفیظ تائب کی دوستی میسر نہ آئی ہوتی تو یہ میری کتنی ہولناک محرومی
ہوتی۔ میں اسے دیکھتا تھا تو میرے اندر ایک عجیب پاکیزگی کی شفاف سی فضا
چھا جاتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ کیا یہ شخص ہماری طرح گوشت پوست کا
انسان ہے یا اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنے منور الطافِ خاص سے نواز رکھا ہے کہ وہ
چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہوئے ہم سب کی طرح ایک عام انسان لگتا ہے مگر
روشنی کا جو ہالہ میں نے اس کے چہرے پر دیکھا اور مجھے اس میں جو آسمانی
حسن دکھائی دیا اور اس کے عادات واطوار میں سے وہ جو قدسیوں کا سا نور
پھوٹتا رہتا تھا وہ اسے انسانیت کے عام معیاروں سے‘ کم سے کم میری نظر میں‘
بہت بلند کر دیتا تھا۔
مجھے دکھ ہے کہ یہ الف سے یائے تک نہایت خوبصورت انسان ایک نہایت بدصورت
مرض میں مبتلا رہا۔ یہ درست سہی کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزمائشوں
میں سے گزارتا ہے اور حفیظ تائب درویش صفت مریض تھا کہ اس آزمائش میں بھی
پورا اترتا رہا۔ مجال ہے کہ حرفِ شکایت اس کی زبان پر آئے۔ علاج معالجے کے
دوران بھی اس کے ماتھے پر کوئی بل نہیں آتا تھا۔ مزاج پرسی کرنے والوں کو
وہ اپنا پورا حال کم ہی بتاتا تھا۔ بس یہی کہنے پر اکتفا کرتا تھا کہ اﷲ
تعالیٰ جس حال میں رکھے‘ شکر ہے۔ مگر میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی تھی
کہ حفیظ تائب کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو جو نعمت دے رکھی ہے وہ
صحت اور آسودگی کے ساتھ ابھی مدتوں مدتوں ہمارے درمیان موجود رہے اور وہ
اپنے چار طرف محبتیں بکھیرتا رہے لیکن اگر سب دعائیں قبول ہوتی رہتیں تو آج
دنیا اس قدر ویران نہ ہوتی۔
محمد فیروز شاہ جناب حفیظ تائب کی نعتیہ شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے
لکھتے ہیں -:محبت دنیا کا سب سے بڑا عمل خیر ہے۔ صدق واخلاص اس کارخیر کو
کارنامہ بنا دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں محبت ہی تخلیق کائنات کا جواز ہے اور
کامرانی حیات کا راز بھی…… شاعری میں تاثیر عشق کی تنویر سے پیدا ہوتی ہے۔
تب وہ دلوں کو اپنی جاگیر بناتی چلی جاتی ہے۔ عشق ومحبت کے سفر میں مقصودِ
قلب و نظر کا انتخاب ہی موسم گلاب کی پیش گوئی کرتا ہے۔ محبوبِ خدا و
کائناتؐ سے محبت شاعر کے دل و نگاہ میں جن گل رتوں کی مہک بانٹتی ہے وہ ابد
کے جاودان منظروں تک اس کی رسائی یقینی بنا دیتی ہے۔ یقین کی اپنی ایک
خوشبو ہوتی ہے۔ آرزو سچی ہو تو جستجو کو خوشبو بنتے دیر نہیں لگتی…… محبت
اس مہکار کو تازہ کار صبحوں کے انوار سے بھر دیتی ہے اور شاعری کے آنگن میں
عطر بیز روشنی نکھر نکھر کر بکھرنے لگتی ہے…… حفیظ تائب کی شاعری انہی دوام
برکتوں سے جگمگا رہی ہے…… انہوں نے اپنے لفظوں کی نسبتیں اس ہستی سے جوڑ
دیں جس سے منسوب ہو کر لمحوں کے مقدر چمک اٹھتے ہیں…… نسبتیں بڑی لج پال
ہوتی ہیں۔ خود سے وابستہ لوگوں اور لمحوں کو مرنے نہیں دیتیں‘ امر کر دیتی
ہیں۔ حفیظ تائب نے بھی سچی نسبتوں کے سہانے نور وسرور میں اپنی پراثر شاعری
کی ابتداء کی تو عشق کی صداقتوں نے تخلیقی عظمتوں کی انتہا کر دی اور وہ
کارروان نعت گویاں کے سالارِ اعلیٰ ٹھہرائے گئے…… وہ میرے عہد کی جبیں کا
نورِ مبین ہیں کہ سرکارِؐ دو جہاں سے والہانہ وابستگی کی سرشاریوں نے انہیں
تخلیقی کامگاریوں کی معراج پر پہنچا دیا۔ آپ کی دہلیز پر اپنے لفظوں کے دست
بستہ نذرانوں نے انہیں تخلیقی عروج اور تہذیبی سربلندی کی اس منزلِ عظمیٰ
پر پہنچا دیا جس کی طرف دیکھنے سے بھی کئی لوگوں کی دستار ہی گرنے لگتی ہے۔
حفیظ تائب نے کبھی کسی ’’دستار بندی‘‘ کی خواہش نہیں کی تھی۔ سرکارؐ کے
دربار میں حاضری کو حضوری کے شرف سے منور کرنے کی تمنا ان کی زندگی میں
تابندگی بھرتی رہی۔ خواہش سچی ہو تو اذنِ باریابی میں دیر نہیں لگتی۔ سچائی
کی اپنی ایک توانائی ہوتی ہے۔ رعنائی جس کے جلو میں ضو بکھیرتی رہتی ہے۔
حفیظ تائب کی شاعری اس کی سب سے روشن اور زندہ مثال ہے۔ انہوں نے اپنے
تخلیقی لمحوں کو محبوبؐ کے جلوؤں کی انتظارگاہ بنا دیا اور احسن الخالقین
نے ان کی صدق نصیب چاہتوں کو منزلوں کی بشارتوں کی آمادگاہ بنا دیا۔
میرزا ادیب نے حفیظ تائب کے اسلوب نعت پر لکھتے ہیں’’اردو میں نعت گوئی پر
اظہار خیال کیا جائے اور اس میں حفیظ تائب کا نام خاص اہمیت کے ساتھ نہ لیا
جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کم ازکم کوئی صاحب بصیرت نقاد ومحقق ایسا نہیں کر
سکتا۔ تائب نے غزلیں کبھی کہی ہیں اور نظموں سے بھی احتراز نہیں کیا مگر ان
کی حقیقی یا بنیادی پہچان نعت ہے۔ نعت جس کے لئے انہوں نے اپنی خداداد
صلاحیتوں کا بیشتر حصہ وقف کر رکھا ہے اور اپنی نعت ہی کو وہ اپنا گراں بہا
اثاثہ سمجھتے ہیں۔ اپنے اس نظریے میں وہ حق بجانب بھی ہیں کہ نعت ان کے لئے
زندگی کا مشن ہے‘ مرکزی جدوجہد حاصل ہے اور ذہنی توانائیوں کا نقطہ عروج
ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ ایک نعت گو کے لئے اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے
کہ روح حضرتؐ قریب ہو تو نعت گو کا ذہن سرچشمہ فیضان بن جاتا ہے۔ ایسے میں
نعت کا ایک ایک لفظ اس سرچشمہ فیضان کا وہ مقدس قطرہ ہوتا ہے جس کے سینے
میں روحانی تجلیوں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ حفیظ تائب کا کلام معاصر نعت گوئی کے
کارواں میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی تابانی کا اعتراف بڑے پیمانے
پر کیا جا چکا ہے۔ ان کے گوناگوں فنی امتیازات کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ
سوز ومستی کی کیفیت سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مضامین نعت کو ذخیرۂ
سیرت وحدیث کے وسیع علمی پس منظر سے مربوط رکھنا چاہتے ہیں اور عالمی سطح
پر امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا گہرا شعور ان کی نعت میں جابجا ایک فریاد
کی تڑپ بھر دیتا ہے جسے وہ ’’کشتی امت کے نگہبان‘‘ کی خدمت اقدس میں
ملتجیانہ ومضطربانہ پیش کرتے ہیں۔
( یہ نوائے وقت میگزین میں شائع ہونے والے ایک ضخیم مضمون سے اخذ کیاگیا ہے
جس کامقصدحفیظ تائب کی نعت گوئی کے فن کو ہر سطح پراجاگر کرناہے)
|